امیر واجب الاطاعت وہی ہے ، جو تمام مسلمانوں کے اتفاق سے امیر بنایا جائے !

آج کی دنیا میں امیر بننے کا شوق عام ہوتا جا ہے ، سب کو اقتدار اور کرسیوں کی ہوس ہے ۔ ظاہر ہے ایسا انسان مالی منفعت کی خاطر منصب کے حصول کی کوشش کرتا ہے ، جس سے کسی خیر کی امید وابستہ نہیں کی جا سکتی۔آج کے کالم میں یہ بتایا گیا ہے کہ شرعی امیر اور امارت فی زمانہ پائی نہیں جاتی۔ اس کے جو لوازم ہیں، ہمارے زمانے میں وہ سب مفقود ہیں۔ آج کے مضمون میں اولاً امیر کی اطاعت سے متعلق بعض نبوی ہدایات پیش کی گئی ہیں، اس کے بعد بعض علماے محققین کی صراحتیں نقل کی گئی ہیں، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جس امیر کی اطاعت امت پر واجب ہوتی ہے ، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ تمام مسلمانوں کے اجتماع و اتفاق سے امیر بنایا گیا ہو۔ اس تحریر کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ قومی و بین الاقوامی سطح پر بہت سے لوگ اپنے اپنے مقتدا کو تمام مسلمانوں کا امیر اور اس سے اختلاف کرنے والوں کو جہنمی تک ثابت کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو راہِ راست پر باقی رکھے اور دین کی صحیح سمجھ عنایت فرمائے ۔ آمین

امیر کی اطاعت اور نافرمانی
حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے ،رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اﷲ کی اطاعت کی، اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اﷲ کی نافرمانی کی۔ اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ (بخاری، مسلم)حضرت ابو امامہؓکہتے ہیں، میں نے رسول اﷲ ﷺ کا حجۃ الوداع کا خطبہ سنا ہے ، آپ اپنی اونٹنی پر سوار تھے اور پاؤں سواری کی رکاب میں رکھے ہوئے تھے ، جس کی وجہ سے آپ ﷺ اونچے ہوگئے تھے اور فرما رہے تھے : کیا تم سنتے نہیں! تو سب سے آخری آدمی نے کہا: آپ کیا فرمانا چاہتے ہیں (یعنی ہم سن رہے ہیں)۔ رسول اﷲ ﷺنے فرمایا: اپنے رب کی عبادت کرو، پنج گانہ نماز ادا کرو، ایک مہینے کے روزے رکھو، اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرو، اپنے امیر کی اطاعت کرو اور اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ۔(مسند احمد)

حضرت ابوہریرہؓسے مروی ہے ، رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی، درحقیقت اس نے اﷲ کی اطاعت کی، اور جس نے میری نافرمانی کی، درحقیقت اس نے اﷲ کی نافرمانی کی۔ جس نے امیر کی اطاعت کی، اس نے میری اطاعت کی، اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی، الحددیث۔(مسند احمد)

رسول اﷲﷺکی نصیحت
حضرت عرباض بن ساریہؓسے مروی ہے ، ایک مرتبہ رسول اﷲ ﷺ نے ایسا وعظ فرمایا کہ جس سے لوگوں کی آنکھیں بہنے لگیں اور دل لرزنے لگے۔ہم نے عرض کیا: اے اﷲ کے رسول ! یہ تو رخصتی کا وعظ محسوس ہوتا ہے ، آپ ہمیں کیا وصیت فرماتے ہیں ؟ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: میں تمھیں ایسی واضح شریعت پر چھوڑ کر جارہا ہوں جس کی رات اور دن برابر ہیں۔ میرے بعد جو بھی اس سے کجی اختیار کرے گا، وہ ہلاک ہوگا، اور تم میں سے جو شخص زندہ رہے گا، وہ عنقریب بہت سے اختلافات دیکھے گا، لہٰذا تم میری جو سنتیں جانتے ہو انھیں اور خلفاے راشدین مہدیین کی سنتوں اور امیر کی اطاعت کولازم پکڑو، خواہ وہ ایک حبشی غلام ہی ہو۔ ان باتوں کو اچھی طرح محفوظ کرلو، کیوں کہ مسلمان تو فرماں بردار اونٹ کی طرح ہوتا ہے کہ اسے جہاں لے جایا جائے وہ چل پڑتا ہے ۔(مسند احمد)

امیر کی اطاعت ضروری، خواہ حبشی غلام ہو
حضرت انسؓسے روایت ہے ، رسول اﷲ ﷺنے فرمایا : سنو اور اطاعت کرو، چاہے تم پر گھنگریالے بالوں والا حبشی ہی امیر کیوں نہ بنادیا جائے!(سننِ کبریٰ بیہقی) حضرت ابو ذرؓکہتے ہیں، مجھے رسول اﷲ ﷺ نے حکم دیا کہ میں سنوں اور اطاعت کروں، اگرچہ مجھ پر حبشی غیر مناسب اعضا والا غلام ہی امیر کیوں نہ ہو۔(ایضاً)

امیر کی خیر خواہی مطلوب ہے
حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے ، رسول اﷲ ﷺنے فرمایا : اﷲ تعالیٰ نے تمھارے لیے تین چیزیں پسند فرمائی ہیں اور تین چیزیں ناپسند۔ وہ تم سے اس بات پر راضی ہوا ہے کہ تم (1)اس کی عبادت کرو ، شرک نہ کرو (2)اس کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو، فرقوں میں نہ بٹواور (3) امیر کی خیر خواہی کرو! اور تمھارے لیے ناپسند کیا ہے (1)قیل و قال (2) کثرتِ سوال اور (3)اضاعتِ مال کو۔(ایضاً)

امیر کی عزت اور اس کی بے عزتی کا صلہ
زیاد بن کسیب عدوی کہتے ہیں کہ عبداﷲ بن عامر لوگوں کو خطبہ دیتے تھے اس حال میں کہ نرم کپڑے پہنے ہوئے ہوتے اور بالوں کو کنگھی میں کی ہوتی۔ ایک دن نماز پڑھ کر آئے ۔ ابو بکرہ منبر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ ایک شخص ابو بلال نے کہا: کیا تم امیر کو نہیں دیکھتے جو نرم کپڑے پہنتا ہے اور فساق کی مشابہت کرتا ہے ! جب یہ بات ابو بکرہ نے سنی تو اپنے بیٹے اصلع سے کہا : ابو بلال کو بلاؤ! وہ بلا لایا۔ آپ نے فرمایا : میں نے وہ بات سنی، جو تم نے امیر کے بارے میں کہی ہے ، (دھیان سے سنو) میں نے حضرت نبی کریمﷺسے سنا ہے : جو امیر کی عزت کرے گا اﷲ اس کی عزت کرے گا اور جو امیر کو رسوا کرے گا اﷲ اسے رسوا کرے گا۔(سننِ کبریٰ بیہقی)

امیر کی اطاعت کب تک؟
حضرت عبداﷲؓ سے روایت ہے ، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مسلمان آدمی پر (امیر کی اطاعت) ان چیزوں میں جو ناپسند ہوں یا پسند ہوں واجب ہے ، جب تک کہ وہ گناہ کا حکم نہ دے ۔ جب گناہ کی بات کا حکم دیا جائے تو نہ سننا ہے اور نہ ہی اطاعت کرنا ہے۔(بخاری، مسلم)

اطاعت صرف معروف میں
حضرت علیؓسے روایت ہے ،رسول اﷲ ﷺ نے ایک لشکر روانہ فرمایا اور ایک شخص کو اس کا سردار بنادیا اور لوگوں کو اس کی اطاعت کی تاکید کی۔ اس نے آگ جلائی اور ان کو کہا: آگ میں کود جاؤ!تو کچھ لوگوں نے اس کی یہ بات ماننے سے انکار کیا اور کہا؛ ہم تو آگ سے بھاگ کر اسلام میں آئے ! اور بعض لوگوں نے اطاعتِ امیر کی بنا پر آگ میں داخل ہونے پر رضامندی ظاہر کی۔اس کی اطلاع رسول اﷲ ﷺ کو پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا: اگر وہ لوگ آگ میں کود جاتے تو وہ ہمیشہ اسی میں رہتے ۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: اﷲ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں ہے ، اطاعت تو صرف معروف میں ہے۔(ابوداؤد، مسلم، نسائی)

جو امیر کی اطاعت سے نکل جائے
حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے ، رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: جو شخص امیر کی اطاعت سے نکل گیا اور جماعت سے علیحدہ ہوگیا پھر مرگیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ جو شخص اندھی تقلید میں کسی کے جھنڈے تلے عصبیت پر غصہ کرتے ہوئے مارا گیا اور وہ عصبیت کے لیے جنگ کرتا ہو، وہ میری امت میں سے نہیں ہے ، الحدیث۔(مسلم)

شرعی امیر اور امارت
ان ہدایات کے ساتھ واضح رہنا چاہیے کہ امارت سے مراد سرداری و حکمرانی ہے اورقضا سے مراد شرعی عدالت ہے ۔ اسلامی نظامِ حکومت کی امارت کے یہ دو بنیادی ستون ہیں۔ امیر و امام (یعنی سربراہِ مملکت) اسلام کے قانونِ اساسی کا محافظ، نظمِ حکومت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا ذمے دار، حفاظتِ مذہب اور امتِ اسلامیہ کی طاقت و قوت کا امین اور امورِ عامل کا نگہ بان ہوتا ہے ۔ اسلامی معاشرے کے افراد کا تعلق جن امور سے ہے ان سب پر امیر و امام کا اختیار کارفرما ہوتا ہے ۔(مظاہرِ حق شرح مشکوٰۃ)

واجب الاطاعت امیر کون ہوگا
امام کا مقرر کرنا دیگر دلائل سے واجب ہے اور تمام واجبات کا وجوب قدرت کے ساتھ مشروط ہے ، اور امام مقرر کرنے پر قدرت کی شرائط میں مسلمانوں کا اتفاق بھی ہے ، اور وہ موجودہ حالت میں کبریتِ احمر (گویا محال) ہے ، لہٰذا نہ گناہ لازم آئے گا، نہ جاہلیت کی موت لازم آئے گی۔(امداد الفتاویٰ)البتہ کوئی مخصوص جماعت اگر اپنا امیر کسی کو بنائے ، اس کے احکام امیرِ شرعی کے تو نہیں ہوں گے ، مگر حکم کا درجہ ہوگا کہ جب تک چاہیں اس کی اطاعت کریں، اور جب چاہیں چھوڑ دیں۔ مگر بنظرِ ابقاے نظام بلا وجہ اطاعت چھوڑنا مکروہ اور نامناسب ہوگا، مگر خروج علی الامیر کی حد میں د اخل نہ ہوں گے۔ امیر واجب الاطاعت مطلقاً وہی ہو سکتا ہے جو تمام مسلمانوں کے اتفاق و اجتماع سے امیر بنایا جائے اور شرائطِ امارت اس میں موجود ہوں۔(امداد المفتیین)٭
 

Maulana Nadeem Ahmed Ansari
About the Author: Maulana Nadeem Ahmed Ansari Read More Articles by Maulana Nadeem Ahmed Ansari: 285 Articles with 307080 views (M.A., Journalist).. View More