کڑکتی،مچلتی دھوپ میں بنا سایہء الغمام (بادل کا سایہ) کے
کھڑے چالان لکھتے یونیفارم میں ملبوس افراد جنہیں ہم ٹریفک پولیس کہتے ہیں۔
جنکا ملکی مفاد کے لحاظ سے یہ ہے کہ وہ بھاری ٹریفک کو کنٹرول کریں اور ایک
سڑک پر سگنل توڑتے اور غیر قانونی ڈرائیو کرتے ہوئے لوگوں کو روکیں اور
دوبارہ غلطی نہ کونے کی تجویز دیں اور سزا کے طور پر چالان لکھیں۔ کیا اس
غلطی کو نہ دہرانے کا مقصد لئے وہ آفیسرز اپنا مفاد دیکھتے ہوئے چالان کی
رقم وصول کرتے ہیں یا ہم اور آپ کے فائدے کیلئے؟ لیکن ہم اپنا مفاد مسترد
کرتے ہوئے کچھ اونچے طبقات کے لوگوں کیساتھ ملکر رشوت جیسا کمتر اور حقیر
معاملہ طے کرتے ہیں اور اسی بناء پر ایک فرض شناس پولیس کو دھمکاتے ہوئے
اُس کی عزت نفس کا مذاق اُڑاتے ہوئے چل بنتے ہیں اسی رشوت کے معاہدہ کی تاک
میں اپنی جان چُھوٹی محسوس کرتے ہیں۔
میرا مقصد تحریر آپکو اس بات کا احساس دلانا ہے کہ کرپٹ وہ نہیں کہیں نہ
کہیں ہم بھی ہیں!! مانا کہ کرپشن میں ملوّث ان ہی میں کچھ افرا بھی ہیں پر
یقین مانیں انکے کرپٹ ہونے کی وجہ کچھ اونچے طبقات کے لوگوں کے معاہدے ہیں
جو انہیں ڈرانے، دھمکانے اور سسپینڈ کرنے میں مشغول رہتے ہیں اور رشوتوں کا
حرام پیسہ ایس۔او اور ڈی۔آئی۔جی کی تجوریوں میں بھرتا رہتا ہے۔ لیکن یہ
پیسہ رشوتوں کا پیسہ آتا کہاں سے ہے؟ دیتا کون ہے؟ یقیناً میں اور آپ کے
ذریعے۔ کبھی ٹوکن جیسی ڈیل کے ذریعے تو کبھی ان کے محکمہ میں سے لالچی
افراد کی دھمکیوں کے ذریعے! ہم رمضان میں مہنگے پھلوں کا بائیکاٹ آسانی سے
کر سکتے ہیں تو کیا اس رشوت کا نہیں کر سکتے؟
کچھ فرض شناسی نبھاتے ہوئے ٹریفک پولیس کو ٹوکن ڈیل کے ذریعے خوار کر دیا
جاتا ہے ان کی تذلیل کرتے ہوئے ہمیں یہ خیال چھو کر بھی نہیں گزرتا کہ ہم
اسکی عزت نفس داغدار کر رہے ہیں۔ یہی مسلۂ ہے کہ ہم اپنی غلطی ماننے کے
بجائے پورا ملبہ پولیس پر ڈال دیتے ہیں اگر یہی کرپٹ ہیں تو وہ کون تھا جس
نے بلوچستان کے ایک وڈیرے کی گاڑی کو روکا اور چالان لکھنے لگا اور وہ
درندہ صفت شخص اپنی گاڑی کے نیچے فرض نبھاتے ہوئے شخص کو روندتے ہوئے چلا
گیا یاجب کچھ لوگوں سے رشوت قبول نہ کرنے کی صورت میں سختی سے پیش آنے والے
پولیس کو گن پوائنٹ پر زندگی سے محروم کر دیا جائے اس پر ہم اور آپ کیوں
نہیں اٹھتے۔ اگر رشوت لے لی جاتی تو کرپٹ کہنے میں سب سے بڑا ہاتھ ہم ہی
لوگوں کا ہوتا تب یہ سیاہ دھبہ انکی فرض شناسی پر لگا کر ہی چھوڑتے۔۔ ہم
جانتے ہیں کہ ''رشوت لینے والا اور دینے والا آگ میں ہیں'' تو کا ہم آگ سے
نہیں ڈرتے یا پھر اتنے دلیر ہوگئے ہیں کہ رشوت دینے کے چکر میں آگ کو تسلیم
کر لیتے ہیں۔
مگر اب تو رشوت عام سا کھیل بن گئی ہے کوئی دیتا نہیں ہم جان لے لیتے ہیں
اگر لیتا نہیں تو بھی جان کی بازی لگانی پڑتی ہے۔ کہا جائے تو قصور کسی ایک
کا نہیں قوم کا ہے، حکمرانوں کا ہے اگر وہ غلط ہیں تو ہم بھی کہیں نہ کہیں
اسی زمرے میں آتے ہیں لیکن '' اللّٰہ تو ویسے ہی حکمران مسلّط کرتا ہے جیسی
قوم ہوتی ہے'' اور پھر نظام بھی اسی رحم و کرم پر ہوتا ہے۔
ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم برائی کو روکیں نہ کہ اسی برائی کے غلیظ کیچڑ میں
پاؤں رکھ کر اپنے دامن پر چھینٹے ڈالیں۔ ہمارے قائد نے اللّٰہ اور رسول صلی
اللّٰہ علیہ والہ وسلم کے دین پر قائم رہنے اور عدل وانصاف کیلئے اس ملک کو
حاصل کرنے کی جدوجہد کی۔لیکن ہم نے اسے رشوتوں اور سود میں ڈبو دیا مگر ہم
پھر سے یکجاں ہو کر محنت کر سکتے ہیں ہمیں اپنے نظریات کو وہی دو قومی
نظریہ بنانے کی ضرورت ہے جس کی بناء پر ملک آزاد ہوا۔ محنت ہمارے اباؤاجداد
کی تھی اب محنت ہمیں بھی کرنی ہے۔ انکے خوابوں کا پاکستان بنانا ہے ہر کلمہ
پڑھنے والے شخص کو ساتھ ملانا ہے۔ہمیں پھر سے پاکستان بنانا ہے۔ |