میری یادیں بکھر رہی ہیں

اونچے میناروں سے ٹکرا کر سورج کی کرنیں محل کے درو دیوار سے لے کر آس پاس کے تمام احاطہ کو جگمگا رہی تھیں۔ آنکھیں کسی خواب کا سماں لیے محل کے ان خالی کمروں کو گھور رہی تھیں کہ کبھی زندگی بھی یہاں آباد تھی۔ کہنے کو تو زندگی کی ریل پیل آج بھی وہاں رنگ بکھیر رہی تھی لیکن وہ سب میری طرح کے تماشابین تھے۔ کسی اخباری کالم کو افسانوی انداز سے شروع کرنا عجیب بات ضرور ہے لیکن میرے لفظوں کے ٹکڑے میرے دل میں بسے جذبات کے ساتھ میری پیاری سرزمین کے جگر گوشوں کی خستہ حالی پر ضرور بین کرتے ہیں۔ تاحال مجھے لاہور جانے کا اتفاق ہوا اور اسی وزٹ کے دوران شاہی قلعہ دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا۔ 1996ء کے بعدجب میں دس سال کی تھی ،ابھی اپنے ہوش و حواس اور پختہ نظروں کے ساتھ شاہی قلعے کو پہلی بار دیکھا۔ مجھے شاہی محلات اور تاریخی جگہیں دیکھنے اور گھومنے کا بہت شوق ہے۔ لیکن ابھی تک سوائے ٹی وی ڈاکومینٹریز کے چند جگہوں کے علاوہ کہیں جانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ قلعہ کٹاس (نزد کلر کہار) کے بعد یہ شاہی قلعہ میرا دوسرا تاریخی مقام تھا۔ بادشاہی مسجد اور علامہ اقبال کے مزار تک تو حالات کافی دلفریب تھے لیکن شاہی قلعہ کا خاص احاطہ اپنی خستہ حالی کے بہت سے ابواب میری نظروں میں بھر گیا۔ اور واپس آنے کے بعد انٹرنیٹ پر کافی دوسرے تاریخی مقامات پھر کھنگال ڈالے۔ اور بہت سی جگہوں پر خستہ حالی میں لپٹی تاریخی دیواریں اپنی موت پر بین کرتی نظر آئیں۔ یہ تاریخی مقامات ہمارے ملک کا اثاثہ ہیں ہماری یادیں ہیں۔ ان مقامات کی دیکھ بھال بھی ہماری حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔موسموں کے ہیر پھیر ان اثاثوں کو وقت کے ساتھ خستہ حالی کی طرف دھکیلتے رہتے ہیں۔ میرے جیسے کئی لوگ روزانہ شاہی قلعے کو وزٹ کرتے ہوں گے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ محلات اسی طرح رنگین اور پختہ نظر آتے جیسے کہ وہ تھے۔ یہ ہمارا تاریخی ورثہ ہے اس قلعے کی بین کرتی دیواروں نے مجھے رلا دیا۔ وقت کی دھول مٹی میں لپٹی دیواریں اپنا اصل چہرہ دکھا نہیں پا رہی تھیں۔ کتنی ہی یادیں جو ان درودیوار میں بستی ہیں وہ سب کی سب بکھر رہی ہیں۔ یہ سب ہماری یادیں ہیں۔ ہمارے ملک کی یادیں ہیں۔ اگر یہ اسی طرح بکھرتی رہیں تو آنے والے وقتوں میں ہماری نسلوں کو کیا ورثہ منتقل ہو گا؟
ا س ورثے کو محفوظ کرنے کے ساتھ ہمیں ایک اور بات پر بھی ازسرِ نو غور کرنا ہے کہ سیاحت کسی بھی ملک کی بہت بڑی معاشی صنعت ہے ۔ روزانہ سینکڑوں لوگ ملک کے دور دراز علاقوں سے اور بیرونِ ملک سے بھی ان مقامات پر گھومنے آتے ہیں۔ ان مقامات کی دیکھ بھال نہ صرف ہمارے ورثے کو محفوظ بنائے گی بلکہ سیاحوں کو بھی اس طرف کھینچ کر لائے گی۔ جس سے ہماری معیشت بھی پختہ ہو گی۔ لیکن افسوس کی بات کی ہمارے ہاں گلی محلوں میں بھی جب تک کوئی دیوار گر نہ جائے دوبارہ تعمیر نہیں ہوتی۔اور یہی حال ملک گیر رقبوں پر پھیلے اثاثوں کا نظرا ٓتا ہے۔ کیا عہدِ وقت ان دیواروں کے زمین بوس ہونے کے منتظر ہیں؟ بہتر یہی ہے کہ ان یادوں کو بکھرنے سے پہلے سمیٹ لیا جائے۔شاہی قلعہ کواسی شان کے ساتھ دوبارہ تعمیر کیا جائے جس شان کے ساتھ یہ لاہور کے سینے پر آویزاں تھا۔ اس محل کے نقش و نگار کو اسی طرح رنگین بنایاجائے کہ ان دیواروں میں شاہی زندگی ریل پیل کرتی نظر آئے۔بات کو طول دینے سے بہتر ہے کہ مختصر الفاظ میں اپنے کاسہ ء تخیل میں اتارا جائے۔ اور ملک میں ایسے تاریخی مقامات جو وقت کی زبوں حالی کا شکار ہو رہے ہیں ان کی تعمیرِ نو کا کام سنجیدگی کے ساتھ کیا جائے۔ یہ کالم لکھنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ نئی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ لگے ہاتھ کچھ نظرِ کرم ادھر بھی۔ یہ ملک میرا، یہ لوگ میرے، یہ زمین میری، یہ اثاثے میرے، یہ ووٹ میرا ، یہ حق میرا، یہ حکومت میری، تو اپنی قلم سے اپنی رائے دینا بھی میرا فرض ہے۔ امید ہے میری طرح آپ سب لوگ بھی اپنی ان یادوں کو سمیٹ کر رکھنا چاہتے ہوں گے۔ یادیں صرف وہ نہیں ہوتیں جو آپ کے قریبی رشتوں سے جڑی ہوں ، یادیں وہ سب ہوتی ہیں جو دھرتی ماں کی گود میں سو رہی ہوں ۔ کیا آپ سب قارئین میر ی بات سے اتفاق کریں گے؟ کہ ان یادوں کو ان اثاثوں کو اسی طرح سمیٹ کر رکھنا چاہیے جیسے یہ ماضی میں عظیم الشان عظمت کے پرستار تھے۔ یا زمین کی مٹی میں دفن ہوتی اینٹیں صدیوں بعد کھو دی جائیں اور آثارِ قدیمہ والے بتائیں کہ یہاں بھی کوئی محل ہوا کرتا تھا؟ اپنی آراء سے مجھے ای میل کر کے ضرور آگاہ کیجیے۔بہت شکریہ

Saima Jabeen Mehak
About the Author: Saima Jabeen Mehak Read More Articles by Saima Jabeen Mehak: 9 Articles with 6956 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.