شاید کسی قلندر کی بات ہی ان کو پانی پانی کر جائے

یہ غالباً2005کے آخر یا 2006کے اولین دنوں کی بات ہے کہ میرے چینل آج ٹی وی سے ایک پروگرام Hundred days کے نام سے ہوا کرتا تھا ،پروگرام کا فارمیٹ یہ تھا کہ ٹیم لاہور سے چلتی پاکستان کے مختلف پسماندہ علاقوں میں جاتی وہاں کے مسائل سنتی لوگوں سے ملتی اس کے بعد وہاں کے بااختیار لوگوں سے ان کے حل کا پوچھتی اور چلی جاتی 100دن بعد یہ ٹیم دوبارہ اس علاقے میں جاتی صورتحال جانتی سو دن قبل کے مسائل کو ویسا ہی دیکھتی اورحل ہونے کی امید لیکر دوبارہ رخصت ہو جاتی ،حیرت کی بات یہ کہ دو سال تک چلنے والا یہ پروگرام مجبوراً بند کرنا پڑا کیوں کہ سو دن بعد جہاں بھی جانا ہوتا صورتحال جو ں کی توں بلکہ پہلے سے ابتر ملتی،اس پروگرام کے پروڈیوسر جواد بٹ اور کمپیئر ہمارے دوست نجم ولی خان تھے جو آج کل چینل C42لاہور پر اپنا پروگرام کرتے ہیں،مجھے نجم ولی نے کال کی کہ ہم چکوال آنا چاہ رہے ہیں ہنڈرڈ ڈیز کی ریکارڈنگ کرنی ہے میں نے کہا ویلکم ۔مقررہ تاریخ اور وقت آج ٹی وی کی پوری پروڈکشن ٹیم چکوال پہنچ گئی ہم نے کلر کہار جھیل اور اس میں پڑی گندگی سے پروگرام کا آغاز کیا ،کلر کہار چوک پر لوگوں سے بات چیت کی ،اگلے دن چکوال ریکارڈنگ کا پروگرام ترتیب دیاگیاشام کو میں نے ٹیم کو کلر کہار ریسٹ ہاوس چھوڑا ور خود چکوال کی راہ لی اگلے دن صبح سویرے نجم ولی اپنی ٹیم کے ہمراہ میرے دفتر پہنچ گئے اور مجھ سے چکوال کے مسائل کے بارے میں گفتگو شروع کر دی،انہیں لگا کہ شاید چکوال کا سب سے بڑا مسئلہ صرف ریلوے ٹریک اور ا سکی بحالی ہے وہ بار بار کہتے کہ اس پر بریف کریں مگر میرا اصرار تھا کہ سب سے بڑا مسئلہ یہ نہیں بلکہ پینے کے صاف پانی کا ہے جس پر میں نے انہیں بھرپور بریفنگ دی جس کے بعد ہم دفتر سے نکلے دو چار ٹربائینز وزٹ کیں ،کنستروں میں پانی ڈالتے ٹریکٹر والوں کی فوٹیج بنائی اور سیدھے ضلعی کمپلیکس ڈسٹرکٹ ناظم آفس میں سردار غلام عباس کے پاس پہنچ گئے،کیا شان اور طمطراق تھی وہاں پہنچتے ہی لگاکہ شاید کوئی جھگڑاہو گیا یا کوئی جلوس آیا ہوا ہے مگر پتہ لگا کہ نہ تو جھگڑا ہوا ہے اور نہ ہی کوئی جلوس آیا ہوا ہے یہ رش تو روز کا معمو ل ہے ہم نے جیسے تیسے اندر تک رسائی حاصل کی اور سردار صاحب سے مدعا بیان کیا سردار صاحب نے کہا ٹیم کو یہاں ہی بلوا لیا جائے گذارش کی سریہاں بہت زیادہ لوگ ہیں بہتر ہے باہر سبزہ زار میں بات کی جائے ،سردار صاحب باہر آئے گئے ان سے بات چیت شروع ہوئی دیگر مسائل کے علاوہ پینے کے صاف پانی کے بارے میں بات ہوئی تو سردار صاحب نے فرمایا کہ پانی میری اولین ترجیح ہے میں نے چکول میں پیتیس ارب کی سرمایہ کاری سے سیمنٹ کے پلانٹ لگوائے ہیں ان کو بھی پابند کیا ہے کہ وہ پانی دریائے جہلم سے لیں گے،اس کے علاوہ میں نے چکوال کے شہریوں کے لیے پینے کے پانی کی فوری فراہمی کے لیے دھرابی ڈیم سے ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کرا رکھا ہے ایک نہر تقریباً تکمیل کے آخری مراحل میں ہے آپ جب اگلی دفعہ آئیں گے یعنی ایک سو دن بعد تو چکوال کی عوام کا یہ مسئلہ حل ہو چکا ہو گا،ہم نے انٹرویو کے بعد سردار صاحب کا شکریہ ادا کیا اور اپنی راہ لی،پورے ملک کی طرح نجم ولی نے یہاں پر بھی مایوسی کا اظہار کیا کہ مجھے نہیں لگتا کہ چکوال کے باسیوں کا یہ مسٗلہ حل ہو گا مگر میں نے خم ٹھونک کر سردار عباس کی حمایت میں کہا کہ ولی خان آپ ان کو جانتے نہیں ، یہ اس ضلع کے نہ صرف سب سے بڑے سیاستدان ہیں بلکہ سب سے بڑا ذاتی ووٹ بنک بھی رکھتے ہیں مشرف اور پرویز الٰہی وزیر اعلی پنجاب کی گڈ بک میں ہیں سب سے بڑھ کر اپنی دھن کے پکے ہیں اگر انہوں نے حامی بھر لی ہے توسمجھیں یہ مسئلہ اب مسئلہ نہ رہے گا،نجم ولی لاہور اور میں اپنے روز مرہ کے کاموں میں مشغو ل ہو گیا ،ٹھیک ستانوے دن بعد لاہور آج ٹی وی سے فون آیا کہ ہنڈرڈ دیز والے دبارہ دو تین دن بعد آپ کے پاس آ رہے ہیں تیاری کر لیں،میں نے نجم ولی خان کو کال کی شیڈول پوچھا انہوں نے لگے ہاتھوں ہی پوچھا کہ کیا بنا پینے کے پانی کا کتنی لائنیں ڈل گئیں اور کتنا کام باقی ہے میں نے کہا جناب ابھی تو کام شروع ہی نہی ہوا انہوں نے ایک قہقہ لگایا کہ دیکھ لیں میں نے کہا تھا نا، خیر چار پانچ دن بعد ٹی وی کی ٹیم دوبارہ چکوال آئی ہم سیدھے سردار صاحب کے دفتر پہنچے ہمیں شدید کوشش اور خواہش کے باوجود شرف ملاقات مہیا نہیں کیا گیا ،ایک مقبول نام کے ناظم یو سی کو بات کر نے کے لیے ترجمان مقرر کیا گیا کہ یہ بات کریں گے سردار صاحب مصروف ہیں جس پر ہم نے اپنا پروگرام کسی سے بھی بات کیے بغیر ملتوی کر دیا اورنجم ولی میانوالی روانہ ہو گئے یہ سارا قصہ مجھے شہر میں جاری پینے کے پانی کے بحر ا ن پانی سپلائی کرنے والوں کی ہڑتال ٹربائنوں کی بندش اور پکڑ دھکر سے یاد آیا کہ جو مسئلہ آج سے چودہ پندرہ سال پہلے اس عوام کو درپیش تھا وہ آج بھی جوں کا توں موجود ہے اور اسی طرح ٹریکٹروں پر پانی کی سپلائی جاری ہے البتہ اس وقت ایک کنستر دو روپے کا تھا آج دس سے پندرہ روپے کا ہے،اس کوتاہی کی تمام ذمہ داری ان اہل اقتدار پر ہے جو یہاں اکثر بر سر اقتدار رہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ یہاں ہمیشہ راج ن لیگ کی حکومت کا ہی رہا،کسی بھی ذمہ دار شخص نے اس سب سے بڑے عوامی مسئلے کے حل کے لیے پوری محنت لگن اور یکسوئی سے کام نہیں کیا،سابق ایم پی اے حیدر سلطان اور ان کی والدہ محترمہ جو ایم این اے تھیں کھائی ڈیم سے چکوال کو پانی کی فراہمی شروع کروانے کی تگ و دو کی اور کسی حد تک کامیاب بھی رہے مگر یہ مسئلہ جو ں کا توں موجود ہے،کھائی ڈیم کے افتتاح کے وقت بڑی بڑی خوشخبریا ں سنائی گئیں اور یہاں تک کہا گیا کہ یہ پنجاب کا واحد منصوبہ ہے جہاں سے پانی بغیر کسی انجن یا موٹر کے چکوال پہنچے گا اور لگاتار پانی کی فراہمی جاری رہے گی جس سے یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہو جائے گامگر چونکہ اس ڈیم کا نام ہی کھائی ڈیم ہے تو ٹھیکیداروں نے کام سے زیادہ اس کے نام پر توجہ دی اور کھاؤ پیو پروگرام زیادہ تیزی سے جاری رکھا اور لگ بھگ ایک ارب روپے خرچ ہو جانے کے باوجود چکوال کے لوگ ٹریکٹر والوں سے پانی خرید کر پی رہے ہیں اس کے بعد میجر طاہر صاحب پورے پنجاب کو صاف پانی کی،، فراہمی کے منصوبے کے نگران بنا دیے گئے مگر نجانے کیوں انہیں پنجاب میں چکوال کہیں نظر نہیں آیا صرف ایک دو وٹر فلٹر پلانٹ لگائے گئے جس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی ،آج ان واٹر فلٹر پلانٹس کی حالت دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید قرون وسطیٰ کی کوئی نشانی ہے ،ان پلانٹس کے باوجود پانی پھر بھی انہی ٹینکر والوں نے فراہم کیا ،اب تبدیلی سرکار آگئی چکوال کو ایک چھوڑ دو دو وزارتیں بھی دے دی گئیں انہوں نے عوام کو جو سبز باغ دکھائے گئے تھے ان میں شاید ایک یہ بھی تھا کہ لوگوں کو صاف پینے کا پانی وافر مقدار میں ان کی دہلیز پر مہیا ہو گا مگر کا رکر دگی سب کے سامنے ہے وزراء کا پتہ ہی نہیں کہ کہاں پائے جاتے ہیں جبکہ ایم این اے صاحب کے اپنے جھگڑے ہی نہیں ختم ہوتے وہ سردار عباس فوبیا سے نکلیں گے تو عوام کے لیے کچھ کر پائیں گے،پانی اب بھی ٹریکٹر والے ہی دے رہے ہیں،تبدیلی سرکار نے بجائے لوگوں کو پانی دینے کے ان ٹریکٹر والوں کو پکڑ کر بند کر نا شروع کر دیا جب شور مچا تو انہیں چھوڑ کر واٹر سورسز یعنی ہائیڈرنٹس اور ٹربائینیں بند کرنا شروع کر دیں،کیا یہ مسئلے کا حل ہے ٹربائنیں بند ہونے سے لوگ پانی پینا چھوڑ دیں گے یا کم کر دیں گے،لوگوں نے پانی پینا ہے اور حاصل بھی کرنا ہے جس کا واحدذریعہ یہ ٹریکٹر والے ہی ہیں اب ہو گا کیا شہر کے اندر ٹربائینز بند کر دی گئیں اب یہ لوگ پانی باہر یعنی آ س پاس کے گاؤں دیہاتوں سے لائیں گے پانی کا جو کنستر 10 سے 15روپے میں مل رہا تھا اب وہ 50سے 60روپے میں ملے گا،کمپریسڈ اور ٹریٹد واٹر کی بوتل بھی اتنے کی ہی ملتی ہے لو جی تبدیلی مبارک،یوں عوام کو اور کوئی فائدہ ہو نہ ہو منرل واٹر کا مزہ ضرور آئے گا۔