مریم کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کہاں سے شروعات
کرئے۔ وہ دوبارہ فروا کی ماں کے پاس گئی۔ پولیس والی کو دیکھ کر اس نے
بیزاری سے کہا۔ دیکھو بی بی آپ اپنا اور میرا وقت ضائع نہ کرو ۔ فروا کو
جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ ہمارے مردوں کو چھوڑو۔ وہ بے قصور ہیں ۔ مریم نے
حیرت سے فروا کی ماں کو دیکھا۔ بے قصور ۔ بے قصور کون ہے یہ ہم ہیں پتہ
کروانے کے لیے۔ مجھے کچھ سوالوں کے جواب چاہیں ۔ اگر آپ نے جھوٹ بولا تو
آپ بھی جیل ۔۔۔۔۔۔ابھی اس کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ فروا کی ماں
نے غصے سے کہا۔ سانپ نکل جانے کے بعد لاٹھی کو زمین میں مارنے سے کچھ نہیں
ہوتا بی بی۔ اپنا کام کرو اور مجھے میر ا کرنے دو۔ تمہارے جیسی عورتوں کی
وجہ سے ہماری بچیاں بھی خراب ہو جاتی ہیں ۔
فروا خراب تھی۔مریم نے کہا تو فروا کی ماں نے بیزاری سے سر کو جھٹکا دیا۔
پاگل تھی دماغ خراب تھا اس کا ، مریم نے پھر بات کو بڑھانے کی کوشش کی ۔
آپ کیسے کہہ سکتی ہیں کہ اس کا دماغ خراب تھا۔ فروا کی ماں کی انکھوں سے
آنسو ٹپک گئے۔ اس نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا ، کمینی ماں بننے والی تھی۔
جب اسے پتہ چلا تو بچہ گرانا چاہتی تھی۔ مریم نے حیرت سے کہا ، کیوں ۔۔۔۔۔حیدر
سے کوئی شکائت تھی اسے۔
فروا کی ماں نے ناک سکیڑتے ہوئے کہا۔ نہیں جی حیدر تو بڑا بھلا تھا اس کے
ساتھ۔ نہ کبھی مارا نہ کبھی کچھ سنایا۔ مریم نے کچھ دیر خاموشی اختیار کی۔
فروا کی ماں نے خود ہی بتانا شروع کر دیا۔ اس کا لہجہ بھی کچھ نرم پڑھ چکا
تھا۔اس نے افسردگی سے کہا،فری تو جی پاگل تھی۔ اسے لڑکوں کی سی زندگی چاہیے
تھی ۔ کہتی تھی بچے وچے نہیں چائیں اُسے۔ بس دنیا دیکھنا چاہتی تھی۔ مجھے
تو لگتا تھا بچپنا ہے جی اس کا۔ شادی کے بعد بہت چپ چاپ رہنے لگی تھی۔ عجیب
بیزار سی۔ جب بچے کا پتہ چلا تو میں تو بہت خوش تھی پر وہ کبھی چھت کو
گھورتی تو کبھی دروازوں کو۔ جب اس نے مجھ سے بچہ گِرانے کی ترکیبوں کا
پوچھا تو میں تو حیران رہ گئی جی۔ پہلا بچہ کون سی لڑکی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے
تو یقین ہے کہ اس کا دماغ خراب ہو گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے خود کشی کی۔
آپ کو یقین ہے کہ اس نے خود کشی کی ہے۔ فروا کی ماں نے جب مریم کی انکھوں
میں دیکھا تو چپ کر گئی۔ وہ مذید کچھ نہ بولی۔مریم نے اپنا پرس لیا اور گھر
سے نکل گئی ۔ کیس ابھی بھی بند ڈبہ کی طرح تھا ۔ یہ تو سمجھ آتا تھا کہ
قتل کیا گیا ہے ۔ وجہ مگرسمجھ نہیں آ رہی تھی۔ مریم نے اپنے ایک ورکر کو
اس کام پر لگایا کہ وہ پتہ کرئے ،لوگ فروا کے قتل سے متعلق کیا کہتے ہیں ۔
ہو سکتا ہے کوئی سُراغ مل جائے۔
بابر نے حیدر کے گھر کے قریب جو پان کی دوکان تھی وہاں سے شروعات کی۔
سعیدمیٹھا پان اس نے بورڈ کو پڑھا جو لکڑی پر گندہ سا لکھا ہوا تھا۔ بابر
نے ایک میٹھا پان لگانے کو کہا۔ تو اس آدمی نے بہت تیزی سے پان بناکر بابر
کو تھما دیا۔بابر نے ہنس کر کہا۔ صرف پان ہی بیچتے ہو یا کچھ اور بھی سعید
صاحب ۔ اس آدمی نے ہنس کر کہا ۔ نہ جی سعید نہ ہوں ۔ میرا نام تو نجیب ہے۔
بابر نے پھر لکڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو یہاں سعید کیوں لکھا ہے۔
نجیب نے لکڑی دیکھتے ہوئے کہا ، وہ تو جی جس سے لیا تھا ،اس کا نام ہو ئے
گا۔ میرا تو نہ ہے نا۔
بابر نے ایک سگرٹ نکالتے ہوئے کہا۔ کمائی اچھی ہو جاتی ہے۔ نجیب نے لیٹر
پکڑاتے ہوئے کہا۔ جی گزارہ ہو جاتا ہے ۔ بابر نے کہا ،تمہارے محلے میں کوئی
عورت جل کر مری ہے ، میں نے سنا ہے۔ نجیب کے چہرے پر مسکراہٹ سی پھیل گئی۔
اس نے ہنس کر کہا ، جل کر نہیں مری جلا کر ماری ہے۔ بھائی اور گھر والے نے۔
بابر نے سگرٹ کا کش لیتے ہوئے ،پھر سے سوال کیا۔ کیوں ۔ نجیب نے ہنستے ہوئے
کہا۔ وہی پرانی کہانی ۔ عورت کا چکر تھا۔ بابر نے حیرت سے کہا۔ تمہیں کیسے
پتہ۔ نجیب نے بابر سے پیسے پکڑتے ہوئے کہا۔ ایسی باتیں کہاں چھپتی ہیں ۔
بابر نے چیونگ گم اُٹھاتے ہوئے کہا ۔ کس سے چکر تھا بے چاری کا۔ نجیب نے
ہنس کر کہا ۔ وہ جو بڑی دوکان ہے نا کریانے کی ۔ محمود بھائی کی ۔ اس کے
باپ کی عمر کا تھا ۔ اس کے ساتھ ۔ بابر نے چیونگ گم چباتے ہوئے باقی کے
پیسے نجیب سے پکڑے اور بولا ۔ تم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہو کہ ۔۔۔۔۔
نجیب نے ہنس کر کہا ، دوکان تب سے اب تک بند ہے۔ وہ بھاگ گیا کہیں ۔ بُرے
کام کا بُرا نتیجہ ۔بابر سر کو ہلاتا ہوا وہاں سے نکل گیا۔ مریم کے پاس آ
کر اس نے مکمل رپورٹ دے دی ۔ مریم نے فائل کو دیکھتے ہوئے کہا۔ چلو ڈبہ کا
ڈھکن تو کھلا ۔ اب دیکھتے ہیں محمود کیا کہتا ہے۔ ڈھونڈو اسے کدھر ہے۔
بہت کوششوں کے بعد بھی محمود کا کہیں پتہ نہیں چل رہا تھا۔مریم دوبارہ
رابیل سے ملنے اس کے گھر گئی۔رابیل کے پاس بیٹھتے ہی مریم نے سوال کیا ، یہ
کیسے ہو سکتا ہے کہ اپنی سب سے اچھی دوست کو کوئی اپنی محبت سے متعلق نہ
بتائے۔ رابیل نے مریم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ، محبت اور فروا۔ اس کے چہرے
پر تمسخر خیز ہنسی دیکھ کر مریم نے حیرت سے کہا ، تو کیا تم نہیں جانتی
محمود اور فروا کے چکر کے بارے میں ۔ ہمیں تو پتہ چلا ہے کہ اسی وجہ سے ہی
اس کی موت ہوئی ہے۔
رابیل نے ہنستے ہوئے کہا۔ محمود چاچا سے فروا کو محبت ہوئی تھی ۔ یہ بات تو
آپ ہی سے مجھے پتہ چل رہی ہے۔ ورنہ فری اور محبت۔ مریم نے گھور کر دیکھا
اور سنجیدگی سے بولی ۔ تو تم کہتی ہو کہ یہ ممکن نہیں کہ فروا اور محمود
۔۔۔۔اس نے جان بوجھ کر اپنا جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ رابیل نے منہ بناتے ہوئے
کہا۔ چھوڑو بھی اب بی بی جی۔ جو ہونا تھا ہو گیا۔ ہر روز پتہ نہیں کتنی
فروا جلتی مرتی ہیں ۔ آپ تو پیچھے ہی پڑھ گئی ہو۔
مریم نے افسردگی سے کہا ،تم جانتی ہو ہمارے معاشرے میں ظالم کا اس قدر قصور
نہیں ہے ،جس قدر اندھے بن جانے والے گواہوں کا ہے جو ظلم کرنے کے لیے
بڑھاوا دیتے ہیں ۔ مظلوم کو کبھی انصاف نہیں ملتا۔ رابیل کی انکھوں میں
آنسو ابھر آئے۔ اس نے افسردگی سے کہا۔ بہت اچھا ہوا ،بہت اچھا ہوا فروا
مر گئی ، اس کا قتل ہوا یا اس نے خود کشی کی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ روز روز
مرنے سے ایک دن مر جانا بہت اچھا ہوتا ہے۔ شاہد اس نے راہ فرار اختیار کی ۔
اب مجھے اس کی بات یاد آ رہی ہے ۔ چاچا محمود کا نام جو آپ نے لیا تو اب
مجھے سارا معاملہ سمجھ آ رہا ہے۔
مریم نے رابیل کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا۔ معاملہ ، کیسا معاملہ۔
رابیل نے روتے ہوئے کہا۔ فروا نے مجھے کہا تھا کہ وہ مرنا چاہتی ہے،موت کا
خوف اسے مرنے نہیں دیتا۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا تھا مگر اگر کوئی مار دے تو
سکون آ جائے۔شاہد ، شاہد محمود کو اس نے اپنی اس چاہت کے لیے استعمال کیا
ہو۔ ہو سکتا ہے۔ محمودچاچا تو ایسا تھا کہ اس کی دوکان پر کوئی عورت نہیں
جاتی تھی۔ نہ ہی کوئی اپنی لڑکی کو اس کی دوکان پر بھیجتا تھا۔
مریم خاموشی سے رابیل کی باتیں سنتی رہی اور پھر وہاں سے واپس آتے ہوئے
راستے میں سوچ رہی تھی ۔ کیا واقعی محمود اور فروا کا کوئی چکر ہو گا۔ کیا
فروا کو حیدر اور خاور نے اس کی بدچلنی کے پیش نظر مارا ہو گا۔ محمود سے
متعلق ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ اس کے موبائل کی رنگ بجی۔بابر نے فون پر
بتایا محمود کا پتہ چل گیا ہے ۔
مریم نے دانتوں کو پیستے ہوئے کہا۔ اب دیکھتے ہیں معاملے کو۔ محمود نے
پولیس کی تفتیش کے دوران قبول کیا کہ وہ دوکان پر آنے والی عورتوں سے چھیڑ
خانی کرتا تھا۔ایسا وہ اپنی کمی کو چھپانے کے لیے کرتا تھاکیونکہ اس کی
بیوی شادی کے چار ماہ بعد ہی اسے اس کی مردانہ کمزوری کے باعث چھوڑ گئی تھی۔
اس نے بتایا کہ فروا جب اس کی دوکان پر آئی تو وہ خاموشی سے دوکان کا
جائزہ لے رہی تھی ۔ اس نے کوئی چیز نہیں لی تو میں نے مذاق سے کہا کچھ گم
ہو گیا ہے کیا۔ اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ مجھے موبائل چاہیے۔میں نے
ہنس کر کہا یہ کریانے کی دوکان ہے موبائل کی نہیں ۔ وہ ہنسنے لگی۔ پھر
مسکراتے ہوئے بولی۔ کچھ باتیں صرف موبائل پر ہی ہو سکتی ہیں ۔ اتنی خوبصورت
عورت اس طرح کی پیش کش کرئے تو میرے جیسے کا جواب کیا ہو گا۔ میں نے اس کے
پاس آ کر کہا، میرا لے لو ۔ وہ قدرے مجھ سے دور ہٹ گئی اور بولی ،یہ نہیں
۔ میں نے کہا کل لا دوں گا۔ یہ سنتے ہی وہ دکان سے فوراً سے نکل گئی۔ دوسرے
دن وہ جب آئی تو میں نے موبائل لے لیا تھا۔ اس کو دیکھتے ہی موبائل اس کی
طرف بڑھا دیا۔ اس نے چادر سے نقاب کیا ہوا تھااس کے باوجود اس کی خوبصورت
آنکھیں میرے دل و دماغ پر چھائی ہوئی تھیں۔ اس نے جلدی سے موبائل لے کر
کہا۔ مجھے رات کو کال کرنا۔ یہ کہتی ہوئی نکل گئی۔میں رات ہونے کا انتظار
کرتا رہا۔
رات کو جب میں نے اسے کال کی تو اس نے عجیب سی بات کی ، جسے سن کر میں
حیران رہ گیا۔ اس نے مجھ سے کہا وہ ماں بننے والی ہے ۔ ہمیں کل دن کو گھر
سے بھاگ جانا چاہیے۔ مجھے لگا کوئی اور نمبرلگ گیا ہے۔ میں نے دوبارہ کال
کی مگر کسی نے فون نہیں اُٹھایا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا
کروں ۔ میں دھیرے دھیرے چلتا ہوا اس کے گھر کے قریب چلا گیا۔ اندر سے آنے
والی آواز فروا کی تھی۔ جو حیدر سے کہہ رہی تھی کہ اس کا اور میراتعلق بہت
پرانا ہے۔ وہ اس قدر روانی سے جھوٹ بول رہی تھی کہ کوئی بھی یقین کر لیتا ۔
اب مجھے سمجھ آ رہی تھی کہ فون پر اپنی بات کرنے کے بعد اس نے فون کیوں
کاٹ دیا ۔ شاہد وہ حیدر کو سنانا چاہتی تھی۔ اس نے ایسا کیوں کیا میں نہیں
جانتا ۔ اس نے خود بدنامی کیوں مول لی میں یہ بھی نہیں جانتا ۔ وہ فقط دو
دفعہ میری دوکان پر آئی ۔ جیسا کہ میں آپ کو بتا چکا ہوں اور فون پر فقط
وہی لفظ اس نے مجھ سے بولے جو میں نے بتائے ہیں ۔ حیدر جس طریقے سے اسے پیٹ
رہا تھا مجھے لگا وہ اسے مار ہی ڈالے گا۔ مجھے وہاں سے بھاگ جانے میں ہی
عافیت نظر آئی ۔ دوسرے دن مجھے پتہ چلا کہ فروا نے خودکشی کی ہے۔ اس سے
ذیادہ میں کچھ نہیں جانتا۔ محمود نے اپنی صفائی دیتے ہوئے کہا ، آپ کسی
بھی ڈاکٹر سے میرا چیک اپ کروا لیں ۔ اس کی انکھوں میں آنسو تھے۔ اس نے
افسردگی سے کہا ۔ وہ لڑکی جس طرح مجھ سے ہٹ کر کھڑی ہوئی تھی۔اس وقت تو میں
نے نہیں سوچا مگر اب میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس کا کسی کے ساتھ چکر
نہیں ہو سکتا۔ میں یہیں کا ہوں ۔ اسے سکول آتے جاتے بھی دیکھا کرتا تھا۔
اسے کبھی کسی سے بات کرتے نہیں دیکھا۔ اس کے موبائل مانگنے پر اس سے بات
کرنے کی خواہش نے مجھ سے یہ غلط کام کروا دیا۔ میرا موبائل اس کے قتل کا
باعث بن سکتا ہے ۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ مریم نے مذید معلومات حاصل
کی تو محمود کی باتیں درست ثابت ہوئیں ۔
مریم نے حیدر اور خاور کو جب محمود کے بیان سے متعلق بتایا تو وہ ایک دوسرے
کا منہ دیکھ رہے تھے۔ حیدر نے حیرت سے کہا۔ وہ میرا ہی بچہ تھا جسے میں نے
مار ڈالا۔اس کی انکھوں میں آنسو تھے۔ فروا نے یہ کیا کیا۔کیوں کیا۔ خاور
بلکل چپ چاپ مریم کی باتیں سن رہا تھا۔خاور افسردگی سے کچھ اپنے آپ سے کہہ
رہا تھا۔
مریم کیس کو سلجھا چکی تھی مگر ذہین میں پیدا ہونے والی الجھن کو سلجھا نے
میں ناکام رہی تھی۔ ایک سوال جو اس کے من میں سر اُٹھا رہاتھا وہ یہ تھا کہ
یہ قتل تھا یا خود کشی۔
|