تحریر: راحیلہ بنت مہر علی
آدھی سے زیادہ رات بیت چکی تھی پورا شہر خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا ہر
طرف خاموشی کا راج تھا کہیں کہیں سے کتوں کی بھونکنے کی آواز رات کی خاموشی
کو توڑتی اور پھر خاموشی چھا جاتی۔وہ جائے نماز پر اﷲ کے سامنے سر جکھائے
رو رہا تھا، اﷲ اسے ہدایت دے، اﷲ اس کے دل و دماغ پر پڑے پردے ہٹادے۔ اسے
صراط مستقیم پر چلادے، وہ روتے ہوئے اﷲ سے فریاد کررہا تھا۔ رات آہستہ
آہستہ گزررہی تھی روشنی پھوٹنے والی تھی رات کا خاتمہ قریب تھا۔
وہ کمرے میں بڑی بے قراری سے ٹہل رہا تھا بے چینی اور بے قراری اس کے ہر
انداز سے صاف ظاہر تھی۔ ٹہلتے ٹہلتے اچانک رکا، قبر کا عذاب، دوزخ کی آگ۔
اس کے دماغ میں کسی کے الفاظ گونجے، چہرہ زرد ہوا اور ہونٹ سفید ہوگئے
تھے۔’’اففف وہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھتا چلاگیا کیا! کیا میں برداشت
کرسکتا ہوں؟ میں برداشت کرلوں گا‘‘؟ اس نے زرد ہوتے چہرے سے پسینہ پونچھا۔
کیا کروں کہاں جاؤں؟ اس کی بے قراری حد سے زیادہ ہونے لگی۔ سردی کے باوجود
وہ پسینے میں شرابور ہوا اور ایک بار پھر اپنے دوست محمد کی باتیں اس کے
دماغ میں گونجنے لگیں۔
’’عاشر میں آپ کو یوں نہیں دیکھ سکتا میں آپ کو دوزخ میں جلتے نہیں دیکھ
سکتا اﷲ کے لیے عاشر ایک بار غور سے ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچو، عاشر ہمارے
پیارے حضرت محمدﷺ اﷲ کے آخری نبی ہیں۔ محمدﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آیا نہ
آئے گا‘‘۔ قرآن میں اﷲ فرماتے ہیں، ’’محمدﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ
نہیں ہیں لیکن وہ اﷲ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلہ نبوت ختم
کرنے والے ہیں) اور اﷲ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے‘‘۔ (سورۃ الاحزاب)
’’معاف کرنا لیکن مرزا قادیانی بہت بڑا کذاب تھا بہت بڑا گمراہ تھا۔ اس کی
ایک بھی بات ماننے لائق نہیں وہ ایک جھوٹے اور گمراہ انسان کے سوا کچھ نہ
تھا۔ ساری عمر جھوٹ بولتا رہا لوگوں کو گمراہ کرتا رہا آپ سمجھ کیوں نہیں
رہے عاشر‘‘۔ قبر کا غذاب، دوزخ کی آگ کیا برداشت کرپاؤگے‘‘؟ محمد کہتے کہتے
رو پڑا عاشر کے سامنے ہاتھ جوڑے لیکن وہ کچھ بھی کہے بنا وہاں سے نکل آیا۔
گھر پہنچ کر مرزا قادیانی کے کتاب پھر سے پڑھی، غور سے پڑھی، پھر قرآن کا
ترجمہ پڑھا اور اور ایک عجیب سی کیفیت چھانے لگی۔ سوچ محدود نہ رہی اور
رفتہ رفتہ ہدایت کے روشن راستے کی طرف قدم بڑھانے لگا۔
سوچتے سوچتے اچانک اٹھا جوتے پہنے اور گھر سے نکل کر سیدھا محمد کے گھر گیا۔
جائے نماز پر اﷲ کے سامنے سر جھکائے محمد چونک پڑا۔ کال بیل بج اٹھی تھی اس
نے اٹھ کر جائے نماز تہہ کی اور دروازہ کھول کر باہر نکلا۔ جب باہر نکل کر
دیکھا تو اندھیرا ختم ہوچکا تھا، صبح کی روشنی پھیل رہی تھی عاشر کو دیکھ
کر وہ سب سمجھ گیا بھاگ کر اسے گلے لگالیا۔ ’’عاشر! میرے دوست، محمد خوشی
سے رونے لگا۔ عاشر بھی رو پڑا۔ ’’محمد مجھے اسلام قبول کرنا ہے میں اﷲ اور
اس کے آخری نبی پر ایمان لانا چاہتا ہوں۔ میں سمجھ چکا ہوں محمدﷺ اﷲ کے
آخری نبی ہیں اس کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا نہ آیا ہے‘‘، عاشر بولا۔’’ہاں
ہاں میرے دوست آؤ میں تمہیں اپنے استاد صاحب کے پاس لے کر چلتا ہوں۔ آؤ
محمد خوشی سے کانپتے ہوئے بولا اور عاشر کو لیکر روشن، سچے اور کامیاب
راستے کی طرف قدم بڑھا دیے۔ |