گزشتہ سے پیوستہ
دنیا میں انسان کا وجود ایک قابل غور وفکر شئے ہے ۔انسانی شکل و صورت
قدوقامت اعضاو جوارح اوران کے درمیان پائی جانے والی مناسبت پر اگر غورو
خوص کیا جائے اور کائنات کی دیگر مخلوقات سے اس کا تقابل کیا جائے تو انسان
کی عظمت اور برتری سے کوئی سرموئے انحراف نہیں کرسکتا۔ یہ خلعت فاخرہ انسان
کو اس کے قدوقامت اور اعضاو جوارح کے سبب عطا نہیں کی گئی ہے بلکہ مخلوقات
میں وہ اشرف اپنے علم وشعور،دیکھنے،سننے ،سمجھنے کی صلاحیت عقل وفہم اور
ادراک کے سبب بنا ہے۔اﷲ تعالیٰ نے انسان کو جہاں دنیا میں بکھری اس کی
نشانیوں پر غورو فکر کرنے کی ہدایت دی ہے وہیں اپنی ذات میں غوطہ زن ہونے
کی تلقین بھی اسے کی گئی ہے۔ ’’ عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاقِ
عالم(دنیا) میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذات(انفس) میں بھی یہاں
تک کہ ان پر واضح ہوجائے گا کہ حق یہی ہے ، کیا آپ کے رب کا ہر چیز سے واقف
و آگاہ ہونا کافی نہیں ؟ ‘‘ ( حم سجدہ53)۔آفاق وانفس کی آیات ( نشانیوں )
سے مراد قدرت الٰہی کی وہ نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرنے و الوں کو اپنے
وجود اور اپنے وجود سے باہر دنیا کی ہرشئے میں نظر آتی ہیں جس سے ہر پل اﷲ
تعالیٰ کی کبریائی اور عظمت کا اعلان نشر ہوتارہتا ہے۔ آفاق و انفس کی
نشانیوں کا انکشاف انسان پر دفعتاً نہیں ہوتا بلکہ غور و فکر کے نتیجے میں
بتدریج حقائق سے پردہ اْٹھتا ہے۔جب غوروفکر کی بات کی جاتی ہے تو سب سے
پہلے توجہ ذہنی ارتکاز کی سمت جاتی ہے۔ ارتکاز توجہ سے ذہن میں خیالات کا
بہاؤ قائم رہتا ہے ۔توجہ جس قدر مرتکز ہوتی ہے ذہن میں خیالات اتنی ہی
گہرائی سے ابھرتے رہتے ہیں۔خیالات جتنے گہرے ہوں گے وہ اتنے ہی وقعت و
اہمیت کے حامل ہوں گے اور حقیقت کے قریب بھی ۔سوچ وچار اور غورو خوص سے
انسان کے اندر جو خفتہ صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں اسے ہی ضمیر یا احساس سے
محمول کیا جاتا ہے۔ سوچ ہی احساس کو جنم دیتی ہے اور احساس سے ہی تہذیب و
تمدن کی آبیاری ہوتی ہے۔ انسان کو اپنے ذہنی سانچے کی ساخت درست رکھنے کے
لئے ضمیر کی آواز پر کان دھرنے یا پھر زندگی کے ہر موڑ پر بالواسطہ یا
بلاواسطہ رہنمائی فراہم کرنے والی ایک مثالی شخصیت کی ضرورت درپیش ہوتی
ہے۔جواساتذہ طلبہ کو اپنے ضمیر کی آواز درست انداز میں سننے اور اس پر عمل
کرنے کا سلیقہ سکھادیتے ہیں درحقیقت وہی روحانی والدین اور قابل تکریم رہبر
ہیں۔سوچ اور غور و فکر انسان کو آفاق (ظاہری دنیا)وانفس(اپنی ذات) کی جانب
متوجہکرتی ہے ۔ ہر ذہن کا غوروفکر کرنے کا اپنا ایک طریقہ و انداز ہوتاہے۔
بعض لوگوں میں فطری طور پر یہ صلاحیت زیادہ ہوتی ہے کہ ادھر کوئی سوال آیا
ادھر ان کے ذہن میں فوراً جواب بھی عود کر آگیا۔ اس کے برعکس بعض افراد
کوبہت دیر تک اپنے ذہن کو کسی ایک نکتے پہ توجہ مرتکز رکھنے کی سعی و جستجو
کرتے دیکھاگیا ہے حتیٰ اکثر لوگوں کے ذہن میں بات قسطوں اور درجوں میں
کھلتی ہے۔ ایک وقت میں ایک حد تک ہی بات اْن کی سمجھ میں آتی ہے اور پھر جب
وہ مزید غور جاری رکھتے ہیں تو اسی بات کا ایک اور زاویہ یا ایک اور درجہ
اْن کے ذہن میں درآتا ہے۔جب کوئی سوال انسان کے ذہن میں گردش کرنے لگتا ہے
یہ غوروفکر کے عمل کا نقطہ آغاز ہوتا ہے۔جس کی مثال نیوٹن کے ذہن میں گردش
کرنے والا سوال ’’ سیب درخت سے ٹوٹ کر زمین پر ہی کیوں گرا؟‘‘ ہے۔ بے شک
سیب کازمین پر گرنا عام لوگوں کے لئے کوئی خاص اور اور اہمیت کا حاملواقعہ
نہ ہو اوربعضکو اس امر پر غور کرنا مہمل و فضول بھی محسوس ہو۔لیکن یہ ایک
آفاقی سچائی ہے کہ کوئی بھی سوچ فضول،مہمل اورلایعنی نہیں ہوتی ۔ انسانی
ذہن اسے فضول،لایعنی یا مہملگردانتا ہے۔سوچ ہر لمحہ بقاواستمرار کے مراحل
سے گزرتی رہتی ہے اور اسے فضول،مہمل اور لایعنی کہہ کر معطل ہونے نہیں دینا
چاہئے۔
کھلی آنکھوں سے خواب دیکھنا اور خوابوں و خیالوں میں کھوئے ہوئے رہنا سوچ
کی پہلی اور ادنیٰ منزل ہے۔اعلیٰ سوچ کھلی آنکھ سے نہ صرف خواب دیکھتی ہے
بلکہ خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے ایک فکر ی رویہ بھی اختیار کرتی
ہے جسے ہم نظریہ (vision)کہتے ہیں۔ذہن ماضی کے تجربات ،حال کی آگہی اور
مستقبل کی پہنائیوں کی جب تخیلی تجسیم انجام دیتا ہے تب تخیلات اپنی پرواز
،قوت تخلیق اوراختراع پر محیط ایک فکر(سوچ) میں ڈھل جاتے ہیں۔ میرے نزدیک
سوچ ماضی کا جھروکہ ،حال کا روزن اور مستقبل کا ایک زینہ ہے۔جو آپ سوچتے
ہیں وہی آپ ہوتے ہیں۔ عام طور پر سوچ کی دو اہم قسمیں بتلائی جاتی ہیں۔
(1)تخریبی /مجتمع سوچ (Convergent Thinking)؛۔اس سوچ کے حامل کے پاس محدود
زاویہ نگا ہ پایا جاتا ہے کسی بھی مشکل کا ا ن کے پاسصرف ایک ہی حل پایا
جاتا ہے کوئی دوسرا حل ان کے پاس نہیں ہوتا ۔یہ فکری تحدیدات کے عادی
ہوجاتے ہیں ۔ان کی سوچ محدود اوررواجی ہوتی ہے ۔اس قسم کی فکر کی قرآن بھی
مذمت کرتا ہے ۔اس فکر کے حامل افراد لکیر کیفقیر ہوتے ہیں۔کسی قائم شدہ
رائے یا نظریہ کے خلاف جانا تو دور یہ سوچنے کی بھی جسارت نہیں کرتے۔خواہ
وہ رائے کیسی کیوں نہ ہو۔
(2) منتشر،متنوع سوچ(Divergent Thinking) ؛۔متنوع و منتشر سوچ کے حامل
افراد دیگر آراء کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ان کے پاس مشکل و مسئلہ
کا صرف ایک حل نہیں ہوتا بلکہ یہ مسائل کے مختلف حل پیش کرتے ہیں۔متنوع سوچ
کے حامل افراد کا دامن گوناگوں جوابات و مسائل کے حل سے بھرا رہتا ہے۔
مذکورہ بالا اقسام کے علاوہ ماہرین نفسیات کے نزدیک سوچ کی مندرجہ ذیلمزید
اقسام پائی جاتی ہیں۔طلبہ میں غوروفکر کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لئے
اساتذہ کا سوچ کی ان اقسام سے واقف ہونا لازمی تصور کیاجاتا ہے۔
(1)۔سوچ کی پہلی قسم مدلل سوچ (Logical Imagination/thinking)ہے۔ یہ وہ سوچ
ہے جو موجودہ رویوں رائجTrends) (رجحانات و میلانات اور فکری رخوں کی
اچھائیوں کمیوں اور خرابیوں پر بحث کرکے نئے فکری رجحانات کی راہ ہموار
کرتی ہے۔
(2)۔دوسری قسم تنقیدی سوچ (Critical Thinking) کی ہے۔ یہ گہری قسم کی ہے جس
میں باریک بینی، دقیقہ رسی مبصرانہ اور متعرضانہ نظر کے ساتھ موجودہ صورت
حال کی بنیادی کمزوریوں اور خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے مستقل کی تصویر پیش
کرنے میں موجوہ آگہی کی کمی و کوتاہی کو آشکار کیا جاتا ہے اور اگراسے دور
کردیا جائے تو ایک نیا مستقبل رونما ہوجاتا ہے۔
(3)۔تیسری قسم تخلیقی سوچ (Creative Thinking)کی ہے ۔یہ موجودہ کیفیت،
رجحان میں اضافہ ،ر توسیع، آمیزش ، کمی بیشی یا تردید و توثیق پر مبنی سوچ
نہیں ہے بلکہ موجودہ تصورات کو ٹھکراتے ہوئے بالکل نئے انداز میں نئے طریقے
سے نئے مقصد کی تلاش کے آغاز کا نام ہے۔
(4)۔چوتھی قسم تجزیاتی سوچ(Analytical Thinking)ہے ۔تجزیاتی سوچ ایک منطقی
مرحلہ واری انداز پر مبنی ہوتی ہے جس میں کثیر و گنجلک معلومات کو مختلف
چھوٹے چھوٹے اجزاء واکائیوں میں پیش کیا جاتا ہے۔
تنقیدی سوچ (Critical Thinking)؛۔
کسی بات یا خیال کے ہر پہلو کو دیکھنے اور متضاد خیالات کوپرکھنے اور بیان
کرنے کی صلاحیت کو تنقیدی سوچ کہاجاتا ہے۔ معقولیت اور غورو فکر کی اساس پر
کسی بات یا نظریے کو پرکھنے اور اس کے مطلوبہ نتائج تک رسائی حاصل کرنے کو
تنقیدی فکر کہاجاتا ہے۔ تخلیقی سرگرمیوں کے فروغ میں آزادانہ غوروفکر ،بحث
و مباحثہ اور تنقیدی فکر بہت اہم ہوتی ہے۔تنقیدی فکر پر مبنی تربیت آدمی کو
صحیح و درست فیصلہ کرنے کے لائق بناتی ہے۔تنقیدی فکر معلومات کو ماہرانہ
طریقے سے سمجھنے ،پرکھنے اور تجزیہ کرنے کے بعد بامعنی نتائج اخذ کرنے کے
لائق بناتی ہے۔مغربی تعلیمی نظام نے اس روش کو اس قدر عام کردیا ہے کہ
میڈیکل سائنس ،الیکٹرونکس،خلائی سائنس ہر میدان میں اسی کا بول
بالاہے۔تنقیدی فکر سائنس و ٹیکنالوجی کی طرح زندگی کے دیگر شعبہ جات میں
بھی اہمیت کی حامل ہے۔تنقیدی فکر کی تربیت تعلیمی ادارہ جات میں کامیابی سے
انجام دی جاسکتی ہے۔اس نکتے میں کوئی دروغ اور مبالغہ نہیں ہے کہ ’’تنقیدی
فکر ہی تعلیمی نظام کا مطلوبہ نتیجہ ہوتی ہے اور اساتذہ کا یہ فرض ہے کہ وہ
طلبہ میں تنقیدی فکر و مزاج کو پروان چڑھانے کی تربیت فراہم کریں۔ اگر
اساتذہ خود اس سے تہی دست ہوں گے تب بچوں میں تنقیدی فکر کو پروان چڑھانے
کی ان سے توقع رکھنا بے کار و عبث ہے۔ہما رے تعلیمی نظام کو یاداشت کی جانچ
اور رٹہ طریقے سے گریز کی اشد ضرورت ہے تاکہ طلبہ میں تنقیدی سوچ اور جدت
طرازی پیدا ہوسکے۔روایتی طرز تعلیم کے تناظر میں مشہور فلسفی برٹرینڈرسل نے
کہا تھا کہ’’ مروجہ تعلیم ،ذہانت اور آزادی رائے کی راہ میں حائل رکاوٹوں
میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے‘‘۔ مطالعہ شدہ معلومات،دیکھے سنے حقائق پر رائے زنی
کے لئے تنقیدی سوچ کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔واضح،عیاں شفاف افکارسے لیس شخص
،اپنی ذات اور دوسروں سے استفہام(سوال) کے ذریعے اپنے اندر تنقیدی سوچ کو
پروان چڑھا سکتا ہے۔یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جب منظور شدہ وتسلیم
کردہ نظریات، تنقید ،تجزیہ و تفتیش کے دوران شکست و ریخت ،بیخ کنی ،تبدیلی
ا ور تغیر کے عمل سے گزرتے ہیں تو ان کی کوکھ سے کئی جدید افکار اور نظریات
جنم لیتے ہیں۔ اساتذہ اپنے متنوع (Divergent)سوالات سے طلبہ کو اپنی تنقیدی
فکر کو بروئے کار لانے کا موقع فراہم کریں۔ذیل میں تنقیدی فکر کو مہمیز
کرنے میں معاون چند کارآمد طریقوں کو بیان کیاجارہاہے ۔
مطالعہ کردہ مواد پرناقدانہ غوروخوص؛۔طلبہ جب کسی کتاب یا ذرائع سے کوئی
متن یا مواد کا مطالعہ کر تے ہیں تو انھیں ان کے پسندید ہ موضوعات،عنوانات
کا انتخاب کرتے ہوئے اس پر اپنے نتائج،آرااور دعوے پیش کرنے کا موقع فراہم
کریں ۔ان کے ذہن کو سوالات و دیگر مشقوں کے ذریعے للکاریں تاکہ وہ سوچنے
اور سوالات کے معتبر و معیاری جوابات دے سکیں۔اس طرح کی سرگرمیوں سے نئی
افکار و خیالات ان کے ذہنوں میں درآئیں گے ۔ ایسی سرگرمیوں سے پہلے سے قائم
شدہ نظریات و افکار کو حقائق کی کسوٹی پر پرکھنے کا جذبہ فروغ پانے کے
علاوہ ان میں سنجیدگی سے ناقدانہ انداز میں غوروفکر کا مادہ بھی پروان
چڑھتا ہے۔
سنی سنائی باتوں پر ناقدانہ غورو خوص؛۔ اساتذہ بچوں کو پڑھائے جانے والے
اسباق یا دیگر ذرائع سے نشر ہونے والی معلومات کو توجہ وانہماک سے سماعت
کرنے کی تربیت فراہم کریں۔ انھیں آگاہ کریں کہ اگروہ معلومات کو غورسے نہیں
سنے گئے تب انھیں یہ باتیں و معلومات سننے کا دوسرا موقع نہیں ملے گا۔
انھیں فراہم کردہ اہم معلومات کو وقت ضرورت تجزیہ و تعریف کے لئے اپنے
ذہنوں میں محفوظ کرلینے کی تلقین کریں۔ کسی ذہنی نتیجہ پر پہنچنے سے قبل
طلبہ کو معلومات کی تصدیق،تجزیہ،استعمال کے متعلق جواز پیش کرنے کی ہدایت
دیں۔اگر ممکن ہوتو انہیں اپنے عملی نتائج کو مختلف حالات میں نافذ و منطبق
کرنے کے لئے بھی واضح ہدایات فراہم کریں۔
دیکھی دکھائی معلومات پر ناقدانہ غورو خوص؛۔ طلبہ کا آئے دن تصاویر یا متن
و عبارات والفاظ کی شکل میں صخیم معلومات سے سامنا ہوتا رہتا ہے۔اگر بچوں
کے پسندیدہ مواد کو موثر طریقے سے بروئے کار لایا جائے تب یہ طلبہ کے ذہنوں
میں خیالات کی تجسیم میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔یہ سرگرمی بچوں میں پہلے
سے ذہن میں مرتسم حقائق و معلومات کا جدید معلومات و حقائق سے موازنہ و
باہمی تعلق کے تلاش کا مادہ پیدا کرتی ہے۔
تخلیقی سوچ(Creative Thinking)؛۔کامیابی اور کامرانی کا آغاز تخلیقی سوچ سے
ہوتا ہے۔ دنیا کی کوئی ایجاد، دریافت ، کارنامہ، کوئی معرکہ تخلیقی سوچ کے
بغیر وجود میں نہیں آ سکتا۔ تخلیقی سوچ گزرے ہوئے وقت پر بحث و تبصرہ سے
بالاتخیل ہے۔ تخلیقی سوچ کیا ہے؟ اس سوال کاسادہ ساجواب یہ ہے کہ کوئی کام
کرنے کے لیے کوئی نیا بہتر طریقہ اختیار کرنا دراصل تخلیقی سوچ ہے۔ تخلیقی
عمل دماغ میں جاری تین عوامل کے تعاون سے وجود میں آتا ہے جن میں اول
ارتکاز یعنی کہ توجہ کا کسی ایک جانب مبذول ہونا ، دوم تخیل یعنی کہ کسی
بھی چیز کو اس کے مروجہ اصول سے ہٹ کر سوچنا اور سوم جائزہ یعنی کہ کسی بھی
شے کا باریک بینی کے ساتھ مطالعہ کرنا۔ ماہرین کے مطابق اگر یہ تینوں حصے
برابر کام کرتے رہیں تو تخلیقی صلاحیت کو ابھرنے کا زیادہ موقع نہیں مل
پاتا ہے لیکن اگر کسی بھی ایک عمل میں کمی کی جائے تو دوسرا عمل زیادہ ذہنی
توانائی استعمال کرتا ہے جس سے نت نئے اور اچھوتے خیالات ذہن میں پروان
چڑھتے ہیں ۔ ماہرین کے مطابق ایک اوسط ذہنی صلاحیت کا حامل شخص بھی اپنے
ذہن کو اسی ڈگر پر تربیت دے کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ کر سکتا
ہے۔تخلیقی صلاحیتوں کی بیشمار تعریفیں بیان کی گئی ہیں لیکن عام فہم الفاظ
میں تخلیقی فکر کا مطلب دیئے گئے حالات، الفاظ یا چیزوں کی مدد سے ایک نئی
سوچ، ترکیب یا کسی بھی مسئلے کا حل نکالنا تخلیقی فکر کہلاتا ہے- تحقیق کے
مطابق تخلیقی فکر قدرتی طور پر معیاری اسکول اور گھر کے موافق ماحول سے
پروان چڑھتی ہیں ۔ اسی لئے اسکول سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی تعلیم و
تربیت کے ذریعے بچوں کی سوچ پر مثبت اثرڈالے اور انہیں معاشرے کے لئے مفید
بنائے۔اگرابتدائی دس سالوں میں بچوں کی تخلیقی اور تنقیدی صلاحیتوں کو
پروان چڑھانے پر خصوصی توجہ دی جائے اور انہیں بہت سے نئے الفاظ سکھائے
جائیں تو بچے نہ صرف تعلیمی میدان میں اچھی کارکردگی دکھاتے ہیں بلکہ زندگی
کے دیگر معاملات بھی احسن انداز میں سرانجام دینے کے قابل ہوجاتے
ہیں۔تعلیمی شعبے میں کی جانے والی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ کامیاب افراد کی
کامیابی میں تخلیقی اور تنقیدی صلاحیتیں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں – اس
کے برعکس وہ افراد جو بچپن میں اپنی تنقیدی اور تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ
نہیں کرپاتے وہ اعلیٰ تعلیم اور روزگار کے بہتر مواقعوں سے محروم رہتے ہیں۔
تعلیمی سرگرمیوں میں معاونت کرنے والی تخلیقی اور تنقیدی صلاحیتوں میں
اضافے کیلئے ضروری ہے کہ بچوں کی رائے اور نظریے کو اہمیت دی جائے اوراسکول
اور کلاس میں ایک ایسا محفوظ ماحول فراہم کیا جائے جس میں بچے بلا خوف و
خطر اپنے نظریات اور رائے کااظہار کر سکیں۔
انسانی دماغ میں دو کھرب خلیے ہوتے ہیں اور ہر خلیہ کسی نہ کسی حس یا
صلاحیت کا حامل ہوتا ہے۔ ایک عام انسان جو شعوری سطح پہ زندگی گزارتا ہے ان
دو کھرب خلیوں میں سے ساری زندگی فقط سو ڈیڑھ سو خلیوں کا ہی استعمال کر
پاتا ہے۔ ہم جنہیں دانشمند یا نابغہ روزگار(Genius) کہتے ہیں وہ بھی دماغ
کے صرف دو، سوا دو سو خلیے ہی استعمال کرنے پر قادر ہو پاتے ہیں۔ اس سے
اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انسانی ذہن کی صلاحیتوں کا کتنا بڑا ذخیرہ استعمال
میں آئے بغیر ہی ضائع ہو جاتا ہے۔ہمیں اس خدا داد ذخیرے کو جس قدر ممکن
ہوسکے اپنے استعمال میں لانے کی کوشش اور جدوجہد کرنی چاہئے۔آدمی غوروفکر
کے ذریعے اپنی شعوری حالت و کیفیت کو پروان چڑھانے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ
دماغی خلیوں کے استعمال پر قدرت پیدا کرلیتا ہے۔ نت نئی ایجادات و دریافتوں
کا سہرا انہی کے سر بندھتا ہے جو غوروخوص اور سوچ وفکر کی عادت کو اپناتے
ہیں۔ غور و فکر کے خو گر افراد لایخل مسئلوں کے حل دریافت کرتے ہوئے بنوع
نوع انسان کی ترقی اور ذہنی ارتقاء میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ محمد بن
موسیٰ الخوارزمی کی تخلیقی سوچ اس کی ایک عمدہ مثال ہے جس نے جس نے نوعِ
انسانی کو نا معلوم مقداروں کو معلوم کرنے کا طریقہ سکھایا۔الخوارزمی سے
کسی تمسخرانہ انداز میں کہا خود کو بہت بڑے عالم گردانتے ہوئے صرف یہ تو
بتادو کہ میری جیب میں کتنے سکے موجود ہیں۔خوارزمی کہتا ہے کہ مجھے غیب کا
علم تو نہیں ہے لیکن اگر تم کوئی اشارہ ہی دے دو تو میں بتادوں گا۔وہ شخص
کہتا ہے کہ میری جیب میں اتنے سکے ہیں کہ اگران کو اتنی ہی تعدا دے سے ضرب
دے کر ان کے دوچند کو اس میں جمع کردیا جائے تو وہ اصل کے دس گنا ہوجائے
گا۔ محمد بن موسیٰ الخوارزمی اپنے عصا سے زمین پر کچھ لکیریں، کچھ خانے بنا
کر کہتا ہے کہ تمہارے کہنے کے مطابق تمہاری جیب میں کل آٹھ سکے ہیں۔محمد بن
موسیٰ الخورزمی کی اس تخلیقی فکر نے دنیا کو دودرجی مساوات (Quadratic
Equation)کا کلیہ دیا۔خوارزمی میں اتنی دانش مندی کہاں سے آئی؟دراصل
خوارزمی میں قرآن میں غوطہ زن ہونے کی وجہ سے غوروفکر کا ایسا خوگر ہوگیا
کہ اس کاذہن گہرائیوں و پہنائیوں میں اترتا چلاگیا اور نامعلوم مقداروں تک
پہنچنے کا اس نے ایک بہترین کلیہ و فارمولہ وضع کیا۔ اس کلیے کے طفیل سائنس
داں نامعلوم مقدار کو معلوم کرنے کے خوارزمی کے کلیے پر عمل کرتے ہوئے خلا
تک جا پہنچے ہیں۔آج ہم اقوام مغرب کی تقلید پر مجبور ہیں کیونکہ ہم نے
تحقیق سے نہ صرف منہ موڑا ہے بلکہ اس سے اپنا دامن ہی چھوڑا بیٹھے ہیں۔اس
روش کو ہمیں ترک کرنا ہوگا۔تقلید و نقالی بھلے آسان و سہل ہو لیکن اس کا
انجام ذلت و توہین کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔تقلید و نقالی اجتماعی تو کجا
انفرادی طور پر بھی گوارا نہیں کی جاسکتی ۔ذلت و رسوائی سے عزت و بلندی کا
راستہ غوروخوص اور تفکر و سوچ سے ہوکرگزرتا ہے ۔آج ہمیں انفرادی اور
اجتماعی سطحوں پر غورو فکر کی مثبت عادتوں کو اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ ملت
کی عظمت رفتہ کو بحال کیا جاسکے۔
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اﷲ کرے تجھ کو عطا جدت کردار |