بنت سقراط نے نہایت پرمغز فلسفہ بیان کیا ہے کہ جو کچھ آپ
نے کھا پی لیا وہ ہی اپنا ہے باقی سب پرایا ہے۔
ہمارے بہت سے بھائیوں کا دین ایمان اور اوڑھنا بچھونا صرف کھانا ہی ہے۔
کھانا ہو اور بہت سا ہو ۔
جیسے قائد اعظم کام کام اور صرف کام کے بجائے طعام طعام اور صرف طعام ہی کی
نصیحت اور تاکید کرگئے ہوں۔
ہماری قوم کے پسندیدہ اور مرغوب مشاغل بھی یہی ہیں
پیٹ بھر کے کھانا پینا، لمبی تان کر سونا اور پھر جی بھر کے بولنا۔
اول طعام بعد از کلام
کھانے کے دوران میں Back Biting کرنا گو کہ یہ عمل بھی ایک انتہائی
ناپسندیدہ ڈش کھانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے مگر اس کے باوجود پوری قوم
خصوصا خواتین کا یہ ڈش چکھے بنا کھانا ہضم نہیں ہوتا ۔
ہمارے یہاں اکثریت کی نظر میں سیرو تفریح کا واحد مطلب گھر سے باہر جاکر
ہیٹ پوجا کرنا ہے۔اس پوجا کیلئے پیٹ کا حجم جتنا زیادہ ہوگا اتنی ہی پوجا
پائدار ہوگی۔
آخر ہم ہر کام پیٹ ہی کی خاطر تو کررہے ہیں ۔
زخیرہ اندوزی ملاوٹ کرنے والوں اور راشی اہلکاروں سے پوچھئے سب یہی کہیں گے
!
بھائی کیا کریں مجبوری ہے آخر بچوں کا پیٹ بھی تو بھرنا ہے۔
دلچسپ بات ہے کہ تقریبا آدھی قوم کا پیٹ اکثر و بیشتر خراب ہی رہتا ہے اور
یہ ہر وقت کسی اچھے حکیم کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہے کہ انکا شافی علاج
ہوسکے مگر شومئ قسمت حکیم کے ساتھ بھی پیٹ منسلک ہوتا ہے اگر وہ انکے پیٹ
ہمیشہ کے لیے ٹھیک کردیںنگے تو انکے بچے تو خالی پیٹ ہی رہ جاینگے۔
ویسے بھی گھوڑا گھانس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا۔
عدلیہ اگر دلچسپی لے تو اس دائمی مرض کا شافی علاج ممکن ہے۔
سپریم کورٹ فی الفور سو موٹو ایکش لیے اور جسم سے متجاوز پیٹوں کو تجاوزات
کے ضمرے میں شامل قرار دیکر حکومتی اداروں کو حکم صادر کردے کہ فی الفور سب
کے پیٹ انکے لڑکپن کی حالت میں بحال کردیے جائیں ۔ایکش کی صورت میں پوری
قوم سدھرتی معاف کیجیے گا سنورتی دکھائی دیگی۔لیکن آلائشوں کو ٹھکانے لگانے
کا موثر بندوست ضرور ہونا چاہیے ورنہ شہری حکومت کی کارکردگی سب کے سامنے
ہے تجاوزات کو گرانے کے بعد سے پورا شہر ملبہ کا ڈھیر بنا ہوا دکھائی دیتا
ہے۔
ہمارے سیاست دانوں کو ہی دیکھ لیجئے کتنا کچھ کھا پی جاتے ہیں اور ڈکار بھی
نہیں لیتے۔
مجال ہے کہ کچھ ظاہر ہونے دیں ۔
آئے دن اندرون ملک سے بیرون ملک دوڑ یں لگائے رکھتے ہیں تاکہ جو بھی کھایا
پیا وہ باہر جاکر باآسانی ہضم کرسکیں ۔
دلاور فگار کے اس مشورے پر عمل پیرا ہیں کہ
~جتنا کھانا کھا گیا ہے اتنی مزدوری تو کر
لیکن گھبرانے کی چنداں ضرورت نہیں نیب بڑی دلجمعی سے سیاستدانوں کے پوشیدہ
امراض کی جدید طبی طریقوں سے تشخیص کرنے میں مصروف ہے۔جلد علاج بھی ڈھونڈ
نکالے گا۔کچھ مریض سیاستدانوں کو اینستھیزیا دیا جاچکا ہے اور کچھ کی سرجری
جاری ہے۔ممکن ہے کہ آپریشن کے بعد انکے معدے کا سائز مختصر کردیا جائے تاکہ
آئندہ کم کھائیں اور سارا مال اکیلے اکیلے کھانے کے بجائے مل بانٹ کر کھانے
کی عادت اپنا لیں
پوری قوم کی نظریں نیب پر لگی ہیں ۔امید کی جاسکتی ہے انکی اس حکمت عملی کے
نتیجے میں جلد ہی ہمارے یہاں صحتمند قائدین جنم لینے لگیں گے۔
دلاور فگار نے کیا خوب فرما یا
قورمہ اسٹو پسندہ کوفتہ شامی کباب
جانے کیا کیا کھا گیا ہے یہ معدہ خراب |