لانس نائیک محمد محفوظ شہید ( نشان حیدر )

(پاکستانی قوم کے عظیم ہیرو جنہوں نے 1971ء کی جنگ میں اپنی بہادری سے ایسی داستان شجاعت رقم کی کہ دشمن بھی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا۔)

16" دسمبر 1971ء کو سقوط ڈھاکہ کا سانحہ رونما ہوا۔ 17 دسمبر 1971ء کو مغربی محاذ پر شام ساڑھے سات بجے جنگ بندی پر عمل شروع ہونا تھا ۔ مگر مکار دشمن اپنی روایتی مکاری کا سہارا لے کر زیادہ سے زیادہ علاقہ ہتھیانے کے چکر میں تھا ۔ اس نے دن کے دو بجے پاکستانی علاقوں تھٹہ قلاراں اور تھٹی کوڈا میں موجود پاکستانی فوجی دستوں پر گولہ باری شروع کردی ۔ شام ساڑھے پانچ گولہ باری کا دائرہ پل کنجری گاؤں تک بڑھادیا ۔پونے چھ بجے یونٹ کمانڈر کو اطلاع ملی کہ دشمن نے بستی کے شمال مشرق میں سموک سکرین بنالیا ہے اور جنوب مشرق کی جانب سے پانچ سو گز فاصلے پر واقع بند سے دشمن نے ‘ گاؤں میں موجود پاکستانی فوجیوں کو مصروف جنگ کرلیا ہے ۔مسلسل گولہ باری کی زد میں آکر گاؤں میں موجود پاک فوج کے جوان باری باری شہید ہوگئے اور دشمن بل راجباہ کے راستے بستی میں داخل ہونے اور قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔

چنانچہ بستی پل کنجر ی کو بھاری قبضے سے آزادکروانا پاک فوج کے لیے ایک چیلنج بن گیا ۔ چونکہ اس علاقے کے دفاع کی ذمہ داری 43پنجاب کے سپرد تھی اس لیے بٹالین کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل محمد اقبال سے کہاگیا کہ وہ بستی اور پل کنجری گاؤں پر دوبارہ قبضے کے لیے جستجو کریں ۔اس مقصد کے لیے تین ٹاسک فورس تشکیل دی گئیں ۔ جس میں 43پنجاب کی برایؤ بی کمپنی ‘ 15 پنجاب کی الفا کمپنی اور ڈیلٹا کمپنیاں شامل تھیں ۔15 پنجاب کے ایک سنیئر افسر میجر نعمت اﷲ کو ٹاسک فورس کاکمانڈ ر مقرر کیاگیا جبکہ 15 پنجاب کی الفا کمپنی کی قیادت کیپٹن فضل معید کے ہاتھ میں تھی ۔ڈیلٹا کمپنی کو یہ فریضہ سونپا گیاکہ وہ نالے کے ساتھ ساتھ ایڈوانس کرے گی اور گاؤں کے شامل مغرب میں واقع خشک تالاب کے قریب جمع ہوکر حملہ آور ہوگی ‘ مشکل یہ تھی کہ 15 پنجاب کی دونوں کمپنیوں کے لیے یہ علاقہ اجنبی تھا ۔

43 پنجاب کی دونوں پلاٹونوں نے شمال اور جنوب کی جانب سے پل کنجری کو گھیرے میں لے کر ٹھیک ساڑھے چار بجے حملے کا آغاز کردیا تاکہ دشمن کے ردعمل سے اس کی تعداد ‘ اسلحے کی نوعیت اور گاؤں میں موجودگی کے بارے میں معلوم کیاجاسکے ۔ مگر دشمن اپنی مکاری سے دھوکہ دینے میں کامیاب ہوگیا اور اس فائرنگ کا کوئی جواب نہ دیاالبتہ 500 گز شمال مشرق کی جانب سے توپ خانے اور خودکار ہتھیاروں سے فائر شروع کردیا ۔اس سے اس خیال کو تقویت ملی کہ اول تو گاؤں میں دشمن نہیں ہے اگر ہے بھی تو وہ مقابلے کی پوزیشن میں نہیں۔ اس لیے 43 پنجاب کی برایؤکمپنی کی دونوں پلاٹونیں پیچھے ہٹ گئیں ۔ الفا کمپنی بل کنجری گاؤں کے بالکل متوازی سمت اپنی صف بند ی میں مصروف تھی ۔ دائیں جانب سے حملہ آور ہونے کی ذمہ داری نائب صوبیدار محمد ریاض کی کمان میں پلاٹون نمبر 1کی تھی ‘ پلاٹون نمبر 2جس کی قیادت حوالدار محمد شریف کررہے تھے‘ کو درمیان میں رکھا گیا جبکہ پلاٹون نمبر 3کو حوالدار اصغر علی کی قیادت میں بائیں جانب حملہ آور ہونے کا ٹاسک سونپا گیا۔ اسی پلاٹون میں نشان حید ر حاصل کرنے والا پاک فوج کا عظیم سرفروش لانس نائیک محمد محفوظ شامل تھا۔

ٹھیک صبح ساڑھے چھ بجے حملہ کا دوبارہ آغاز ہونا تھا ۔لیکن گاؤں سے 70گز پہلے ایک خشک نالہ تھاجس کی چوڑائی آٹھ فٹ اور گہرائی بھی چھ فٹ تھی‘ کنارے پر بے شمار جھاڑیاں اور سرکنڈے اگے ہوئے تھے‘ جس کی وجہ سے وہ نالہ آنکھوں سے اوجھل تھا ۔اندھیر ا ابھی چھٹا نہیں تھا‘ریکی نہ ہونے کی بنا پر یہ نالہ پاک فوج کے جوانوں کے لیے بڑی رکاوٹ بن گیا الفا کمپنی کے بیشتر جوان بے دھیانی میں پیش قدمی کرتے ہوئے اس نالے میں جاگرے اور زخمی ہوگئے ۔ چونکہ مشین گن ‘ رائفلیں ‘ وائر لیس سیٹ اورایمونیشن کا بوجھ ہر جوان کے کندھے پر موجود تھا۔ جس کی وجہ سے حملہ کی تندہی اور تیزی جاتی رہی ۔ اسی اثنامیں دن کااجالا پھیل چکا تھا‘دشمن‘ مکانوں کی کھڑکیوں ‘ چھتوں اور دیواروں کی اوٹ میں چھپا ہوا تھا۔ اسے گاؤں کی جانب بڑھتے ہوئے پاک فوج کے جوان صاف دکھائی دے رہے تھے‘اس نے مشین گنوں اور خودکار ہتھیاروں سے بے دریغ فائرنگ شروع کردی یہ فائرنگ اس قدر شدید تھی کہ شاید ہی زمین کا کوئی حصہ محفوظ رہا ہو۔ تینوں پلاٹونوں کے آدھے سے زیادہ جوان ‘دشمن کی مسلسل فائرنگ کی زد میں آکر جام شہادت نوش کرچکے تھے ‘اس مشکل حالات میں بھی پاک فوج کے تین جوان زمین پر رینگتے ہوئے کہنیوں کے بل اس مورچے کے بالکل قریب جا رہے تھے جہاں سے مسلسل سٹین گن کا فائر آرہاتھا ‘ جنگ بندی ہونے کی بنا پر توپ خانے کا فائر میسر نہ تھا‘ زمین پر رینگنے والے تین میں سے دو جوان بھی فائرنگ کا شکار ہوگئے ۔لانس نائیک محفوظ ابھی مورچے سے کچھ دور تھا کہ گن کا ایک شل ان کی ٹانگوں پر لگا ‘ جس سے ٹانگیں شدید زخمی ہوگئیں‘ اس نے پھر بھی ہمت نہ ہاری اور رینگتا ہوا دشمن کے مورچے تک پہنچ گیا تو گولیوں کی ایک بوچھاڑ لانس نائیک محفوظ کے سینے کو چھلنی کرگئی ‘ یہی وہ لمحہ تھا جب اس نے نعرہ تکبیر لگایا اور پوری طاقت سے اچھل کر بھارتی فوج کے گنر کا گلہ دبوچ لیا اور موت کے گھاٹ اتار دیا ‘ قریب ہی موجود دوسرے بھارتی فوجیوں نے اپنی سنگینیں‘ لانس نائیک محفوظ کے سینے میں پیوست کردیں جس سے پاک فو ج کایہ عظیم مجاہد جام شہادت نوش کرگیا ۔ 18دسمبر 1971ء کو شام پانچ بجے فلیگ میٹنگ کے دوران بھارتی کمانڈ ر لیفٹیننٹ کرنل سریش پوری نے لانس نائیک محمد محفوظ شہید کی نعش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس نوجوان نے جس بہادری کا مظاہرہ کیا اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا ۔"

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 661716 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.