شہرقائد کوماحولیاتی آلودگی سےتباہ کرنےکی کوشش جاری ہیں
یہ بات ہرذی شعور جانتاہےکہ شہروں میں کنکریٹ کلچر کا متبادل پارک ہوا کرتے
ہیں، کراچی شہر کے ماضی میں جھانکا جائے تو یہ بات اس طرح باآسانی سمجھی
جاسکتی ہے کہ ہر پانچ سے چھ گلیوں میں ایک بڑی جگہ کو میدان یا پارک کیلئے
مختص کیا جاتا تھا تاکہ علاقہ مکین پرفضا مقام کا سکون حاصل کرنے کے ساتھ
ہریالی سے لطف اندوز ہوسکیں، کراچی میں قبضہ مافیا کے گروپس نے شہر کو
اجاڑنے کیلئے پارکوں کو غیر ضروری اور غیر اخلاقی سر گرمیوں کا مرکز بنا کر
پہلے لوگوں کو اس سے دور کیا اور بعدازاں انہیں اپنے مذموم مقاصد کیلئے
استعمال کرنا شروع کیا اس عمل میں علاقوں کے لحاظ سے ہر اکائی نے فائدہ
اٹھایا چائنا۔ریشین۔امریکن۔ کٹنگ کر کے میدان، پارکس ،ندیاں، نالے غرض
قبرستان تک نہ چھوڑے گئے، وفاقی، صوبائی، بلدیاتی اور شہری ادارے اور
حکومتیں جاگتے کراچی کو اندھیروں میں ڈبوتے رہے لیکن پرسان حال کوئی نہیں
تھا پھر قصور وار کسے ٹہرایا جائے کہ آپ جاگ رہے تھے تو ایسا کیوں ہوگیا؟
پارکوں ومیدانوں کی سر زمین کراچی میں آج بچے کُچے پارک اور میدان تباہ
حالی کا شکار ہیں اور کوئی بعید نہیں ہے کہ موقع ملتے ہی انہیں بھی کسی
قانونی یا غیر قانونی طریقے سے استعمال کر لیا جائے، کراچی میں اجڑتے
پارکوں کی تفصیلات لانڈھی سے لیکر اورنگی، سرجانی ٹاؤن تک ہے مگر وہ پارک
جو آمدنیوں کے بہترین ذرائع تھے ان کا اجڑنا کراچی کے شہریوں کیلئے قطعی
قابل برداشت نہیں ہے ہل پارک اجڑ رہا ہے بلدیہ عظمٰی کراچی لیپا پوتی کر کے
اس کا کام چلا رہی ہے عزیز بھٹی پارک اجڑ چکا ہے جھیل پارک کچھ دن بہتر
رہتا ہے پھر توجہ کا طالب بن جاتا ہے سفاری پارک کو نجی سپردگی میں دئیے
جانے کی اطلاعات عام ہیں اور کچھ اچھی حالت میں ہے۔شان پارک۔ منظورکالونی
سمیت ضلع وسطی، غربی، کورنگی اور ملیر میں بڑے بڑے پارک تباہ حالی کا شکار
ہیں جس کی بہتریۓ کیلئے نہ تو بلدیہ عظمٰی کراچی کوئی خاص کام کرتی دکھائی
دے رہی ہے اور نہ ڈسرکٹ میئونسپل کارپوریشنز کے پاس ان پارکوں کو سدھارنے
کے منصوبے ہیں اور نہ ہی پارکوں کےلیئے ماہرنباتات ہیں جس کی وجہ ان اداروں
میں نان کیڈر افسران کی تعیناتی کرکےدوستی اوروفاداریاں نبھائی جارہی ہیں
شہرقائد کی اس صوتحال اربن فاریسٹ منصوبہ بھی تاخیرکاشکارہورہاہےبلدیہ
عظمٰی کراچی اورڈی ایم سیز کے کٹوروں میں اتنی رقم موجود ہے کہ چند مخصوص
پارکوں کو درست رکھتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ سب اچھا ہے حقائق اس کے بالکل
منافی ہیں تذکرہ کردہ پارکوں سمیت شہر کے درجنوں پارک اجڑرہے ہیں اور ان کی
تباہی کا منظر قبضہ مافیا کی نظروں سے اوجھل نہیں ہے انہیں جب موقع میسر
آئیگا وہ اس قسم کی جگہوں کو ملیا میٹ کر کے کنکریٹ جنگل میں تبدیل کر دیں
گے جس کے بعد روایتی جملے سننے کو مل جائیں گے کہ فلاں مقصد کیلئے یہ جگہ
تھی جسے وا گزار کروالیا جائیگا جبکہ کراچی کا ان پڑھ جاہل ترین شخص بھی یہ
بات واضح طور پر کہہ دے گا کہ اب کچھ نہیں ہونے والا، کراچی کو ہرا بھرا
رکھنے کیلئے پارکوں کی بحالی کی اشد ضرورت ہے ہمارے پاس اب اتنی جگہیں
دستیاب نہیں ہیں کہ جہاں ہریالی پھیلا کر شہر کی بدترین آلودگی کا قلع قمع
کرسکیں جو دستیاب پارک ومیدان ہیں انہیں قائم ودائم رکھکر ہی شہریوں کو
پرفضا تفریحی سہولیات میسر کی جاسکتی ہیں، پارکوں کو منی جنگل کہا جاتا ہے
کیونکہ شہروں میں ہریالی کیلئے ان سے بہتر جگہیں میسر نہیں ہوتی ہیں، سندھ
حکومت کو کراچی کے پارکوں کی بحالی سے دلچسپی ہے تو فوری طور پر براہ راست
یا بلدیاتی اداروں کے ذریعے اجڑتے پارکوں، میدانوں کی بحالی پر کام کرے
کیونکہ میدانوں اور پارکوں کا اجڑنا شہروں کو تہس نہس کرنے کیلئے کافی
ہے.افسوس ناک صورتحال کااگر جائزہ لیاجائے تو مین یونیورسٹی پرلگائے گئے
کھجوروں کےدرخت بھی اجڑکرشہر قائد کی خوبصورت کوگہن لگارہے ہیں لاکھوں
روپوں کی لاگت سے لگائے گئے ان درختوں کی حالت دیکھ کر اپنے شہریوں پرترس
آتاہےکہ یہ ہمارے زمہ داران ہمیں ایک صاف ماحولیاتی آلودگی سے پاک شفاف
ماحول بھی فراہم نہیں کرسکتے ہیں شہرقائدکےان اجڑتےپارکوں کے زمہ دار”تمام“
متعلقہ بلدیاتی ادارےاورڈی ایم سیزکےساتھ واٹربورڈبھی ہےکسی ایک جماعت پریہ
ٹوپی ڈالنابالکل غلط ہوگا۔ |