آخر میں بھی انسان ہوں!!

انسان ہی انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔دنیا میں انسانوں پر جتنے بھی ظلم و ستم ہو رہے ہیں وہ کوئی جانوریا کوئی خلائی مخلوق نہیں کر رہی‘بلکہ ایک انسان ہی دوسرے انسان کو برداشت نہیں کر پا رہا اوردوسرے انسان کا دشمن بنا ہوا ہے۔بہت کم سننے میں آتا ہے کہ کسی جانور نے انسان کو نقصان پہنچایا یا اس کو کھا گیا۔یہ جو ہم نے اونچی اونچی دیواریں بنا رکھی ہیں‘سیکورٹی کیمرے لگا رکھے ہیں‘سیکورٹی اہلکار اپنے دروازے پر بٹھارکھے ہیں‘یہ کسی جنگلی جانور سے بچاؤ کے لئے حفاظتی اقدام ہیں کیا؟ نہیں‘ نہیں بلکہ یہ انسانوں سے بچاؤ کے لئے دوسرا انسان کر رہا ہے۔ انسان کی ابتداء اور ارتقاء کے تمام مراحل ابد سے ازل تک وہی ہیں اور وہی رہیں گئے۔جب اﷲ تعالیٰ نے امیر اور غریب کے پیدا کرنے میں فرق نہیں رکھا تو ہم کون ہوتے ہیں کسی کو حقیر اور کم تر سمجھنے والے؟اﷲ تعالیٰ نے تھوڑی سی دولت اور عزت کیا بخشی خود کو معتبر سمجھ بیٹھے۔اور اپنے سے کم حیثیت لوگوں سے ان کے جینے کا حق بھی چھینے لگے۔

ابھی کل کی بات ہے کہ گھر کا سودا سلف لینے کے لئے میں مارکیٹ گئی اور میں اپنے دھیان میں چل رہی تھی کہ ایک خاتون کے الفاظ نے مجھے جھنجھوڑ کے رکھ دیا:’’کسی کتے کو بھی روٹی کا ٹکڑا ڈالیں تو وہ تم لوگوں سے زیادہ وفاداری کرتا ہے‘‘۔ بظاہر نظر آنے والی یہ معتبر خاتون کسی اچھے گھرانے کی پڑھی لکھی معلوم ہو رہی تھی جو اپنے پیچھے چلنے والی نازک حالت بچی سے بات کر رہی تھی۔بچی دیکھنے میں ہی بہت مجبور اور حالات سے تنگ نظر آ رہی تھی۔آنکھوں میں بے شمار سوال لیے ‘ زبان پر خاموشی کا تالا لگائے‘ ہاتھوں میں وزن اٹھائے وہ کسی زندہ لاش سے کم نہیں لگ رہی تھی۔

میرا’’سوال‘‘ہے ان سب بے ضمیر لوگوں سے اور خاص کر ان دولت کے پجاریوں سے کہ آپ ایک جیتے جاگتے انسان کو جانور سے’’تشبیہ‘‘دے رہے ہیں‘کیاکبھی آپ نے اپنی اولاد کو بھی ایسا کہا؟کبھی آپ نے سوچا کہ کتنی مجبوری میں وہ ماں باپ اپنی اولاد کو چند پیسوں کے لئے آپ کے پاس چھوڑ کر جاتے ہیں؟جب آپ ان بچوں کے سامنے اپنے بچوں کو قمیتی کپڑے، کھلونے لے کر دیتے ہیں تو ان بچوں کے دل پر کیا گزرتی ہو گی؟اپنے بچوں کو سکول بھیج رہے ہیں اور ان مظلوم بچوں سے کام کروا رہے ہیں۔مہنگے ہوٹلوں میں کھانا کھانے جاتے ہیں توان بچوں کو نمائش اور اپنے بچوں کو سنبھالنے کے لئے ساتھ تو لے جا تے ہیں مگر ان کو بے بسی کی تصویر بنا کر کسی دوسرے ٹیبل پر بٹھا دیتے ہیں۔ان کو اپنی ٹیبل پر اپنی فیملی کے ساتھ بٹھانا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔سیروتفریح پر جاتے وقت گاڑی میں کم جگہ ہونے کی وجہ سے ہم بے حسی کی حد ہی کر دیتے ہیں اور انہیں ڈگی میں بند کر دیتے ہیں۔

انسان کی انسانیت کی حالت تو اس سے بھی بدتر اور افسوس ناک ہے۔میں اپنے ایک جاننے والی کے گھر گئی تو وہ اپنی کام والی کو آواز لگا رہی تھی:رانی، رانی۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ رانی تو پچھلے مہینے ہی کام چھوڑ کر چلی گئی تھی‘کیا اب پھر وہ واپس آ گئی ہے؟کہتی نہیں وہ جو نئی لڑکی رکھی ہے اس کو رانی کہہ رہی ہوں۔میں نے پوچھا اس کو کیسے پتہ لگتا ہے کہ آپ اسے ہی آواز دے رہی ہیں‘حالانکہ اس کا نام تو کچھ اور ہے۔وہ کہتی : پہلے پہلے بہت مشکل ہوتی تھی‘میں آوازیں دیتی رہتی تھی اور اس کو پتہ ہی نہیں چلتا تھا لیکن اب وہ بھی عادی ہو گئی ہے۔کوئی ہمارے نام کا صحیح سے تلفظ ادا نہ کرے تو ہم اسے اپنا نام اس وقت تک بتاتے ہیں جب تک وہ اس کو صحیح سے ادا نہ کر لے اوریہاں صورت حال ہی عجیب ہے۔ تلفظ تو دور کی بات ہے۔ہم اپنی آسانی کے لئے اس سے اس کا نام‘ اس کی پہچان ہی چھین لیتے ہیں ۔

ہم میں سے بہت سے لوگ زندگی کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی نوکری ضرور کر رہے ہیں۔کوئی دفتر میں کام کر رہا ہے تو کوئی دوکان پر اور کوئی کسی کے گھر پر ملازمت کر رہا ہے تو ہم ان بچوں کو جو ہمارے گھروں میں کام کر رہے ہیں‘انہیں اتنی اذیت اور تنگی کیوں دیتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ اسلامی اور ہمدردانہ معاشرہ کہلاتا تھا۔جہاں لوگ ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے مگر اب ہمارے دلوں سے دوسروں کے لئے احساس کے جذبات شاید ختم ہوتے جا رہے ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اب دوسروں کے احساس کے جذبات ہمارے دلوں سے ختم ہو گئے ہیں۔ہر طرف صرف’’میں‘‘کی پکار ہے اوربغیر’’مقصد‘‘کے ہم کسی سے ملنا پسند نہیں کرتے۔ہم اپنے بچوں کی شادیاں امیر سے امیر تر لوگوں میں کرنا چاہتے ہیں جہاں سے ہمیں دولت اور اونچا سٹیٹس ملے۔

میری اپنے قارئین سے گزارش ہے کہ اپنے گھروں میں اپنے کام میں مدد کرنے کے لئے رکھے جانے والے بچوں کے ساتھ بھی اپنے بچوں کی طرح شفقت اور محبت سے پیش آئیں اور ان کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو نظرانداز کر دیں۔یاد رکھیں جو لوگ اﷲ رب العزت کی مخلوق کا خیال رکھتے ہیں‘ ﷲ رب العزت اسے دنیوی زندگی میں بھی اورپھر اخروی زندگی میں بھی کامیابی و کامرانی عطا کرتے ہیں۔

Samreen Zahid
About the Author: Samreen Zahid Read More Articles by Samreen Zahid: 10 Articles with 8352 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.