آج کا استاد

جب چند پُرانے دوست یا افراد مل بیٹھتے ہیں اور استاد کا تذکرہ ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ اُن کے اساتذہ نہایت قابل ، محترم ، با وقار اور بارعب ہوا کرتے تھے اور اگر استاد کو کہیں مدرسے سے باہر دیکھ لیتے تو اُن کی نظریں جھک جاتیں یا پھر وہ راستہ تبدیل کر لیتے تھے کیوں کہ استاد نے مدرسے میں یہ سوال ضرور پوچھنا ہوتا تھا کہ آپ آج کل گھر پر نہیں پڑھتے ہیں بلکہ گلی ، محلوں میں کھیلتے یا بازاروں میں گھومتے پھرتے ہیں۔ یہ وہ سوالات ہوتے جن کے جوابات کی ہمت و جرات طالب علموں میں نہیں پائی جاتی تھی۔ وہ استاد سے نظریں ملا کر بات کرنا تو درکنار ، نظریں اُٹھا کر دیکھ تک نہیں سکتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کل کااستاد اعلیٰ اوصاف حمیدہ کا مالک و حامل تھا۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ فرماتے ہیں۔
تھے وہ بھی دن کہ خدمت استاد کے عوض
دل چاہتا تھا ہدیہ دل پیش کیجیے

ذرا خود احتسابی کی عینک لگا کر بتائیں کہ یہ وصف آج کے اساتذہ میں پایا جاتا ہے۔ میری ذاتی رائے کے مطابق اگر یہ وصف آج کے استاد میں ہوگا تو اس کا استعمال صرف اُس کے اپنے بچوں تک محدود ہوگا۔ آج کے استاد نے اپنے آپ کو کمرۂ جماعت کے خول میں مقید کر لیا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ چالیس منٹ دورانیے کا پیریڈ ہی اُس کی ذمہ داری ہے۔

ہم نے زمانہ طالب علمی یہ بات سُنی تھی اور نہ دیکھی تھی کہ آج اساتذہ ہڑتال پر ہیں اور پڑھائی نہ ہوگی۔ ہم نے یہ بھی نہیں سنا تھا کہ آج اساتذہ کی میٹنگ ہے اور پڑھائی نہیں ہوگی اوریہ تو ہرگز نہیں دیکھا تھا کہ اساتذہ تعلیمی دفاتر کے چکر لگاتے پھر رہے ہوں اور بچے رُل رہے ہوں۔ آج سب کچھ بدل چکا ہے۔ مجھے یہ لکھنے میں دشواری محسوس ہو رہی ہے کہ آج کا استاد بدل چکا ہے یا حالات نے ایسی کایا پلٹی ہے کہ جس نے استاد کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ کل کا استاد جو تعلیم و تربیت کا گہوارہ ہوا کرتا تھا ، آج وہ ایک مرجھایا ہوا پھول بن چکا ہے۔ رہی سہی کسر معاشرے کی بے رحم تھپیڑوں اور حکمرانوں کی غلط پالیسیوں نے پوری کردی ہے۔ معاشرے سے استاد کا ذکرِ خیر اُٹھ چکا ہے اور حکمرانوں کا سارا نزلہ محکمہ تعلیم اور اساتذہ پر گرتا ہے۔والدین و طالب علموں نے بحالت مجبوری استاد کے وقار کی گرتی چھت کو ٹیک فراہم کیا ہوا ہے۔

کل اور آج کے استاد کا موازنہ کرنا نہایت مشکل امر ہے ۔ البتہ سکولوں اور بچوں کی تعداد ، سہولیات اور نصاب کا سرسری جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ جس وقت ہم پرائمری سکول میں پڑھتے تھے اُس وقت تقریباً ایک درجن لڑکوں کے پرائمری سکول شہری علاقے میں تھے اور جب کہ ایک نجی سکول تھا۔ کمرۂ جماعت میں اگرچہ فرنیچر نہیں تھا لیکن طالب علموں کے بیٹھنے کے لئے ٹاٹ ( سَن کا بنا ہوا فرش ) ضرور ہوا کرتے تھے جن کی صفائی مختلف بچوں کے گروپ روزانہ کی بنیاد پر کیا کرتے تھے۔ اگر آج ہم تقریباً چار دہائیوں کے بعد سرکاری سکولوں کی تعداد دیکھیں تو اُن کی گنتی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے جب کہ نجی تعلیمی اداروں کی تعداد شہری علاقے میں درجنوں سے تجاوز کر چکی ہے۔ بچوں کی تعداد کی بات کی جائے تو ہر کمرۂ جماعت بچوں سے کھچا کھچ ملے گا۔ حکومت کی جانب سے متعین استاد اور طالب علموں کا معیاری تناسب ایک اور چالیس کہیں نہیں ملتا ہے۔ ظاہری سی بات ہے کہ ملک کی آبادی میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اسی رفتار سے ہر روز سکول جانے کی عمر والے بچوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ان وجوہات کی بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ آج کا سکول کل کی نسبت زیادہ مسائل کا شکار ہے۔ سہولیات کی صورت حال بھی کوئی حوصلہ افزا نہیں ہے۔ ان تمام مسائل سے ہٹ کر نصاب کی بات کی جائے تو آج کے استاد کو ایک ایسا نصاب تھما دیا گیا ہے جو کَٹ ، کاپی اور پیسٹ سے چوں چوں کا مربہ بن چکا ہے۔ نصاب میں ہماری اسلامی ، معاشرتی ، معاشی ، فنی ، زرعی ، سیاسی اور اخلاقی ضروریات کا خیال نہیں رکھا جاتا بلکہ انٹرنیٹ کی دنیا سے مقاصد سمیت چرا کر رائج کر دیا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں جماعت چہارم کی مطالعۂ پاکستان کی کتاب میں مواصلات کا سبق نظروں سے گزرا۔ اُس میں پوسٹ آفس ، ٹیلی گراف اور ٹیلی گرام کا ذکر تھا۔ پوسٹ آفس کے علاوہ باقی دونوں سہولیات پاکستان میں ختم ہو چکی ہیں جب کہ کئی دہائیاں پیچھے ٹیلی گراف ، ٹیلی فون اور پوسٹ آفس کے محکمے یکجا ہوا کرتے تھے۔ اَب ان کو آج کا استاد بچوں کو کیسے پڑھائے اور سمجھائے گا۔ میرے ذاتی خیال کے مطابق آج کا استاد ایسے مضامین بچوں سے صرف رَٹ وائے گا۔ ہمیں اپنے نصاب میں جگہ جگہ ایسے اسباق ملتے ہیں جن کو پڑھانے میں ایک استاد کو کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے برعکس کل کا نصاب نہایت سادہ اور آسان فہم ہوا کرتا تھااور اس کی تدوین کرنے والے ماہرین تمام پہلوؤں کا خیال رکھتے تھے جن کو پڑھانا اور سمجھانا استاد کے لئے آسان کام ہوتا تھا۔ یاد رہے کہ اُس وقت غیر تربیت یافتہ اساتذہ بھی ہوا کرتے تھے۔ بد قسمتی سے آج کے استاد کو ہم نے ایسے پھنسا کر رکھ دیا ہے کہ اُس کا ذہن مفلوج اور جسم کی چولیں ڈھیلی پڑ چکی ہیں۔
 

Prof Shoukat Ullah
About the Author: Prof Shoukat Ullah Read More Articles by Prof Shoukat Ullah: 226 Articles with 301501 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.