اﷲ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں علم کے ذکر کو سب سے
پہلے فر مایا اس سے علم کی فضیلت واضح ہے۔رب العا لمین نے اپنے محبوب نبی ﷺ
کو تعلیم دی اور محبوب خدا نے علم حاصل کیا علم سیکھنے سکھانے اورعلم کی
فضیلت پر قرآن مجیدمیں 187 آیت کریمہ مو جود ہیں اور احادیث کریمہ کے ذخیرہ
میں بہت سی احادیث موجود ہیں،احادیث کی کتا بوں میں علم کے باب(CHAPTER)
موجودہیں۔ قر آن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ھُوَالَّذِیْ بَعَثَ فِی
الْاُمِّیّٖنَ رَسَوْلاً مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ
وَیُزَکِّیْہِمْ وَ یُعَلِّمُہُمُ الَکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَاِنْ
کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ) 2 )وَاٰخَرِ یْنَ مِنْہُمْ
لَمَّا یَلْحَقُوْا بِہِمْ وَہُوَالْعَزِیْزُالْحَکَیْمُ(3)ذٰلِکَ فَضْلُ
اللّٰہِ یُوْ تِیْ مَنْ یَّشَآءُ وَا للّٰہُ ذُوالْفَضْلِ ا
لْعَظِیْمِ۔(القرآن سورہ الجمعہ 62 ،آیت2سے4)تر جمہ:وہی ہے جس نے ان پڑھوں
میں انھیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اﷲ کی آیتیں تلا وت فر
ماتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب وحکمت کا علم عطا فر ماتا ہے
اوربے شک وہ اس سے پہلے ضرور کھلی گمراہی میں تھے۔ اور ان سے (بعدوالے)
دوسرے لو گوں کو بھی یہ رسول پاک کرتے ہیں اور علم دیتے ہیں جو ان( مو جودہ
لوگوں) سے ابھی نہیں ملے اور وہی بہت عزت والا،بڑاحکمت والا ہے۔ یہ اﷲ کا
فضل ہے وہ اسے چاہے دے اور اﷲ بہت بڑے فضل والا ہے۔(کنزالایمان)
وَاَخَرِیْنَ مِنْہُم:اور ان سے (بعد والے) دوسرے لو گوں کو رسول کریم پاک
کرتے اور علم عطا فر ماتے ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کافیض صرف
صحا بہ کرام رضی اﷲ عنہم تک مو قوف نہیں بلکہ تا قیامت رہے گا، لوگ آپ کی
نگاہ کرم سے پاک و صاف ہوتے ہیں اور ہو تے رہیں گے،علم سیکھتے اور سیکھاتے
رہیں گے۔ابو موسیٰ وابی بردہ سے روایت ہے رسو ل اﷲ ﷺ نے فر مایا: کہ اﷲ
تعالیٰ نے مجھے جس علم و ہدایت کے ساتھ بھیجا اس کی مثال زبر دست بارش کی
سی ہے جو زمین پر سبزہ اور گھاس اگا تی ہے اور بعض زمین جو صاف ہوتی ہے وہ
پانی کو پی لیتی ہے اور بہت بہت سبزہ اور گھاس ا گاتی ہے اور بعض زمین جو
سخت ہو تی ہے وہ پانی کو روک لیتی ہے اس سے اﷲ تعالیٰ لو گوں کو فائدہ
پہنچا تا ہے۔وہ اس سے سیراب ہوتے ہیں اور سیراب کرتے ہیں،اور کچھ زمین کے
بعض خطوں پر پانی پڑتا ہے جوبالکل چٹیل میدان ہوتے ہیں۔ نہ پانی روکتے ہیں
اور نہ ہی سبزہ ا گاتے ہیں۔ تو یہ اس شخص کی مثال ہے جو دین میں سمجھ پیدا
کرے اور نفع دے، اس کو وہ چیز جس کے ساتھ میں مبعوث کیا گیا ہوں۔اس نے علم
دین سیکھا اور سیکھایا اوراس شخص کی مثال جس نے سر نہیں اٹھایا( یعنی توجہ
نہیں کی) اور جو ہدایت دے کرمیں بھیجا گیا ہوں اسے قبول نہیں کیا۔(
بخاری،باب پڑھنے پڑ ھانے والے کی فضیلت کے بیان میں،حدیث 79)
استاد اور کتاب کا احترام و حق: طالب علم جس سے بھی کچھ سیکھے اس کا احترام
اس پر فرض ہے۔ اگر سیکھنے والا،سیکھانے والے کا احترام نہیں کرتا تو وہ علم
ضائع ہو جا تاہے، جو علم عمل سے بیگانہ ہو وہ علم ایک بے معنیٰ لفظ ہے۔علم
کسی بھی نوعیت کا ہو،اس کا عطا کرنے والا بہر حال قابل عزت ہے،استاد کے لیے
جب تک ادب و احترام کا جذ بہ دل کی گہرائیوں سے نہ ہو تب تک نہ علم کا
گلزار مہکے گا اور نہ ہی علم فائدہ دے گا نہ ہی طالب علم کے قلب ونظر کوعلم
نو رانی بنائے گا۔ انسان کو کون بناتا ہے میری مراد انسان کی تخلیق نہیں۔
انسان کو آدمیت کی طرف لیجانے والے فنکار کا نام’’ معلم‘‘TEACHER ہے اسی
لیے اس کا کام دنیا کے تمام کا موں سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔
خموش،اے دل بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
معلم کائنات ﷺ نے خود کو معلم کہا۔آپ کے شاگرد یعنی صحابۂ کرام رضوان اﷲ
تعالیٰ علیہم اجمعین آپ کا کتنا احترام کرتے تھے۔ دنیا کی تاریخ ایسی مثال
پیش کر نے سے قاصر ہے۔ معزز دوستو! احترام استاد ایک عظیم جذ بہ ہے حضرت
علی کر م اﷲ علیہ فر ماتے ہیں کہ:’’ جس شخص سے میں نے ایک لفظ بھی پڑھا میں
اس کا غلام ہوں، چاہے وہ مجھے بیچ دے یا آزاد کردے‘‘خلیفہ وقت ہارون رشید
نے’’ اپنے وقت کے امام بزرگ امام مالک رحمۃ اﷲ علیہ سے درخواست کی کہ وہ
انھیں حدیث پڑھا دیا کریں۔ امام مالک نے فر مایا:’’علم کے پاس لوگ آتے
ہیں،علم لو گوں کے پاس نہیں جایا کرتا۔ تم کچھ سیکھنا چاہتے ہو تو میرے
حلقہ درس میں آسکتے ہو‘‘ خلیفہ آیا اور حلقۂ درس میں دیوار سے ٹیک لگا کر
بیٹھ گیا۔عظیم معلم حضرت امام مالک رحمۃاﷲ علیہ نے ڈانٹ پلائی فر مایا: خدا
کی تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ بوڑھے مسلمان اور اہل علم کا احترام کیا
جائے۔یہ سنتے ہی خلیفہ ہارون رشید شاگردانہ انداز میں کھڑا ہو گیا۔ اس طرح
کے بہت سے واقعات ہیں۔
احترام و ادب:کہتے ہیں’’ با ادب با نصیب․․․․ بے ادب بے نصیب․․․!!!‘‘ ایک
بار مشہور مجذوب بزرگ حضرت بہلول دانا رضی اﷲ عنہ‘ کسی نخلستان میں تشریف
رکھتے تھے، ایک تاجر کا وہاں سے گذر ہوا،وہ آپ کے پاس آیا اور سلام کر کے
باادب آپ کے سامنے دوزانوں بیٹھ گیا اور انتہائی ادب سے گذارش کی’’ حضور!
تجارت کا کون سا سامان خریدوں جس میں بہت نفع ہو‘‘ بہلول دانا نے فر
مایا:’’ سیاہ کپڑا لے لو‘‘(BLACK) تا جر نے شکریہ ادا کیا اور الٹے قد موں
چلتا چلا گیا، جا کر اس نے علاقے میں دستیاب تمام کا لا کپڑا خرید لیا۔ کچھ
ہی دنوں بعد شہر کا بہت بڑا آدمی انتقال کر گیا، ماتمی لباس کے لیے سارا
شہر سیاہ کپڑے کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا․․․ اب سیاہ کپڑاا س تاجر کے پاس
ذخیرہSTOCK)) تھا اس نے منھ مانگے دا موں کپڑا فروخت کیا اور اتنا نفع
کمایا جتنا ساری زندگی نہ کمایا تھا اور بہت ہی امیر کبیر ہو گیا، پھر کچھ
عر صے بعد وہی تا جر گھوڑے پر سوار کہیں گذرا حضرت بہلول داناوہاں تشریف
رکھتے تھے، وہ وہیں گھوڑے پر بیٹھ کررعونت(غرور،گھمنڈ، اکڑ،)ARROGANCEسے پو
چھا’’او دیوانے! اب کی بار کیا لوں‘‘حضرت بہلول دانانے فر مایا’’تربوز لے
لو‘‘ وہ بھا گا بھاگا گیا اور ساری دولت سے پورے ملک سے تر بوز خرید
لیا۔ایک ہی ہفتہ میں سب خراب ہو گئے اور وہ کوڑی کوڑی( پائی،پائی) کا محتاج
ہو گیا․․․ اسی خستہ حالی میں گھومتے پھرتے اس کی ملا قات حضرت بہلول دانا
سے ہو گئی کہا،’’ یہ آپ نے میرے ساتھ کیا کیا․․؟ حضرت بہلول دانانے فر
مایا’’ میں نے نہیں،تیرے لہجوں اور الفاظوں نے یہ سب کیا جب تو نے ادب سے
پوچھا تو مالامال ہو گیا․․اور جب گستاخی کی تو کنگال ہو گیا۔اسی کو کہتے
ہیں․․باادب با نصیب․․․․ بے ادب بے نصیب!!۔
حضور حافظ ملت اور استاد کا ادب:جلا لۃالعلم حضور حافظ ملت رحمۃاﷲ علیہ
حضور صد ر الشر یعہ رحمۃاﷲ علیہ کی بار گاہ میں ہمیشہ انتہائی باادب دو
زانوں بیٹھا کرتے، اگر صدرالشریعہ ضرورتاً کمرے سے باہر تشریف لے جاتے تو
طلبہ کھڑے ہو جاتے اور ان کے جانے کے بعدبیٹھ جاتے اور جب واپس تشریف لاتے
تو دو بارہ کھڑے ہو جاتے لیکن حضور حافظ ملت رحمۃاﷲ علیہ اس پورے وقفے میں
کھڑے ہی رہتے اور حضرت صدرا لشریعہ رحمۃ اﷲ علیہ کے مسند تد ریس پر تشریف
فر ما ہونے کے بعد ہی بیٹھا کرتے۔
کتابوں کا ادب علم کا احترام:آپ قیام گاہ پر ہوتے یا درس گاہ میں کبھی کو
ئی کتاب لیٹ کر یا ٹیک لگا کر نہ پڑھتے نہ پڑھا تے بلکہ تکیہ یا ڈیسک(DESK)
پر رکھ کر پڑھاتے، قیام گاہ سے کبھی کوئی کتاب لے جا نی ہو تی تو داہنے
ہاتھ میں لے کر سینے سے لگا لیتے کسی طالب علم کو دیکھتے کہ کتاب ہاتھ میں
لٹکا کر چل رہا ہے تو فر ماتے! کتاب سینے سے لگا ئی جائے گی تو سینے میں
اترے گی اور جب کتاب کو سینے سے دور رکھا جائے گا تو کتاب بھی سینے سے دور
رہوگی،یہ تھا استاد،علم اور کتاب کا ادب واحترام اسی ادب کی بدولت تو آج
دنیا آپ کو جلا لۃ العلم کے نام سے بھی جانتی ،مانتی ہے۔ ایسے کئی واقعات
ہیں، لکھنے سے مضمون طویل ہونے کا خدشہ ہے ۔
طا لب علم سے شفقت بھرا انداز:چند سبق آموز باتیں علما ئے کرام سے سنی ہوئی
مطالعہ فر مائیں حافظ وقاری حضرت مولانا مبین ا لھدیٰ نوری صاحب جمشید پور
جو حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کے خاص شاگر دوں میں تھے اپنے زمانہ طالب
علمی کا واقعہ کئی بار بتا یا تقریروں میں سنایا( مولانا مرحوم جن کا وصال
6ذیقعدہ1430ھ،بمطابق26اکتوبر2009ء ہوا) حضرت مولانا مبین الھدیٰ نوری مبا
رک پور سے کلکتہ،(اب بدلا ہوا نام ’’کولکاتا‘‘) تک سفر میں تھے حضور حافظ
ملت رحمۃاﷲ علیہ جب ٹرین سے اترے توآپ نے مولا نا محترم سے پو چھا آ پ نے
سفر میں کتنے پارے پڑھے تو مولانا صاحب چپ رہے حضورحافظ ملت رحمۃ اﷲ علیہ
نے فرمایااَلْحَمْدُلِلّٰہ میں نے پورا قرآن پڑھ لیا۔ سبحان اﷲ! سبحا ن
اﷲ!یہ تھے حضور حافظ ملت پھر آپ نے بہت شفقت و محبت کے ساتھ تا کید فر مائی
کی سفر حضر میں جب بھی موقع میسر آئے قرآن کریم کی تلا وت کرتے رہا
کرئیے،قرآن کی تلاوت بہت افضل عبادت ہے،حضرت مولانا مبین الھدیٰ کہتے تھے
کہ حضرت کی پیار بھری نصیحت کا اتنا اثر ہوا کہ جب سے میں سفر وحضر میں
اکثر اوقات تلاوت کیا کرتا ہوں ،اور حقیقت ہے کہ مولانا موصوف کو اکثر میں
نے تلاوت کرتے دیکھا ۔حضور حافظ ملت کی تعلیم کا یہ اثر ہی تھا کہ فراغت کے
بعد سے مسلسل بلا ناغہ انتقال کے سال تک 49محرابوں میں تلاوت قر آن کریم
تراویح میں سنایاآخری 49ویں محراب سنانے میں بہت بیمار تھے ستائیسویں شب
ختم قرآن میں خوب رو روکر دعا مانگی یااﷲ مجھے توفیق دے تا زندگی تراویح
میں ختم قرآن کرتا رہوں ایسا نہ ہو کہ بغیر سنائے رہ جاؤں موصوف کی دعائیں
اکثر قبول ہوا کرتی تھیں اسی سال 6؍ذی قعدہ 1430ھ کو آپ کا وصال ہوگیا آپ
کی تراویح کی ایک خاص بات یہ تھی کہ آپ سنت عثمانی پر عمل پیرا ہوکر تراویح
میں قرآن سناتے یعنی ہررکعت میں ایک رکوع اور رمضان کی ستائیسویں شب کو
پورا ختم قرآن ہوجاتا ۔دوسرا واقعہ انتہائی عبرت ناک ہے مطالعہ فرمائیں
حضرت مولانا بدر عالم بدر القادری صاحب حال مقیم امیسٹرڈم ہالینڈ کی زبانی
مولانا بدر عالم صاحب فارغ ہونے کے بعد ناچیز راقم کے وطن قصبہ مورانواں
،ضلع: اناؤ،یوپی میں مدرسہ ضیاء الاسلام و یتیم خانہ جو کہ تقریبا 90سال سے
زیادہ پرانا اور یوپی کے نامور مدرسہ ویتیم خانہ میں سے ہے پڑھانے تشریف لے
گئے۔آپ اکثر ہم لوگوں کو جمعہ کے دن بھی سبق پڑھاتے اور فرماتے کہ حضور
حافظ ملت رحمۃ اﷲ علیہ ہم لوگوں کو جمعہ کے دن بھی سبق پڑھاتے تھے اور کہتے
تھے آئیے تھوڑا سبق پڑھ لیجئے تاکہ علم کی برکت جاری رہے ناغہ ہونے سے برکت
زائل ہوجاتی ہے یہ تھا حضور حافظ ملت کا شاگردوں کو تعلیم دینے کا طریقہ اب
ایسے شفیق اور مشفق استاذ کہا ں؟اب تو اساتذہ گھڑی دیکھتے رہتے ہیں دور دور
تک اندھیرا ہی دکھائی دیتا ہے ایک اور سبق آموز واقعہ ملاحظہ فرمائیں حضرت
کے خاص تلامذہ میں حضرت مولانا سید رکن الدین اصدق مصباحی (پیر طریقت ،چمن
پیر بیگھہ شریف،ضلع:نالندہ،مہتمم:مدرسہ اصدقیہ مخدوم شرف،بہار شریف
،نالندہ)انہوں نے کئی بار حضور حافظ ملت کے احتیاط اور تقویٰ کو تقریروں
میں بیان کیا آپ اپنے زمانہ طالب علمی کا واقعہ یوں بیان فرماتے ہیں کہ ہم
اور کئی لوگ حضور حافظ ملت کے گھر میں بیٹھے تھے ایک صاحب آئے ہاتھ میں
مٹھائی کا ڈبہ تھا ،بیٹھ گئے مصافحہ کرتے وقت حضور حافظ ملت نے خیریت پوچھی
اور دریافت فرمایا کوئی کام ہے!انہوں نے کہا نہیں ،تھوڑی دیر بعد پھر آپ نے
پوچھا کوئی کام ہے،انہوں نے کہا نہیں ان کی لائی ہوئی مٹھائی حضور حافظ ملت
نے گھر بھیجوادی کچھ ہی دیر میں آئے شخص نے اپنی ضرورت کو بیان کیا اور
کہاکہ مقدمہ چل رہا ہے اس کی کامیابی کے لیے تعویذ چاہیے اتنا سنتے ہی حضور
حافظ ملت نے فرمایا میں نے آپ سے پہلے ہی پوچھا تھا کہ کوئی کام ہے آپ نے
کہا نہیں خیر تشریف رکھیے،حضور حافظ ملت نے فوراًان کی لائی ہوئی مٹھائی
گھر سے منگوائی اور دیکھا کہ مٹھائی ویسے ہی ہے استعمال نہیں ہوئی ہے آپ نے
الحمد ﷲ! کہاپھر آپ نے ان سے مقدمہ کی تفصیل معلوم کی ان کی بات سے یہ
معلوم ہوا وہ صاحب گھر بنارہے ہیں اور پڑوسی راج مستری (جوکہ غریب ہے) آپ
ساری بات کو سمجھ گئے اور ان کو بہت پیار سے سمجھایا کہ پڑوسی کے بہت حقوق
ہیں اور اگر وہ غریب ہے تو اس کا حق اور بڑھ جاتا ہے آپ نے سمجھایا اور
فرمایا مقدمہ میں جیت کے لیے مظلوم کی مدد کی جاتی ہے اس کو تعویذ دی جاتی
ہے اس کے لیے دعا کی جاتی ہے ،آپ کو تعویذ کی ضرورت نہیں ہے اور مٹھائی کے
ساتھ ان صاحب کو رخصت کردیا کچھ ہی دنوں بعد آپ کے سمجھانے کا یہ اثر ہوا
کہ وہ صاحب اپنے ساتھ پڑوسی عبدالحلیم راج مستری جن سے ان کا مقدمہ چل رہا
تھا لے کر آئے اور حضور کی بارگاہ میں عرض کیا حضور ہم دونوں مقدمہ ختم
کریں گے آگے نہیں لڑیں گے ۔حضور حافظ ملت نے خوشی کا اظہار فرمایا اپنی جیب
خاص سے ایک روپیہ نکال کر شیرینی منگائی اور فاتحہ دی اور بہت رقت آمیز
دعائیں فریقین اور سب کے لیے فرمائی اورفرمایا مقدمہ بازی سے بچو اپنے پیسے
حرام میں نہ خرچ کرو وغیرہ وغیرہ۔
ناچیز کو بھی اشرفیہ میں تعلیم حاصل کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔زمانہ طالب
علمی میں قاضی عبد السمیع اور اساتذہ کی بھی زبانی کئی اہم سبق آموز واقعات
سنے ہوئے ہیں جو کہ قلم بند ہونے چاہیے ناچیز کی طبیعت ناساز ہونے کی وجہ
کر نہیں ہوپاتا کاش مجھ سے کوئی واقعات پوچھتا میں بتادیتا قلم بند ہوجاتا
تو اچھا ہوتا ان شاء اﷲ اگر صحت اور حالات نے موقع دیا تو ایک کتابچہ تیار
کرنے کا ارادہ ہے حضور حافظ ملت کی زندگی کے واقعات ہمارے لیے اور خصوصیت
سے طالب علموں کے لیے بہت کارآمد ہے۔طالب علموں کو توجہ خاص کی ضرورت ہے
حضور حافظ ملت وقت کی بہت قدر فرماتے اور انتہائی پابندی سے اپنے ہرکام کو
انجام دیتے ہم تمام لوگوں کو وقت کی اہمیت پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے
ناچیز کے مضمون ’’وقت کی قدر کریں ،تساہلی اور کاہلی سے دور رہیں‘‘، ’’وقت
انمول ہے پیارے!‘‘ ضرور مطالعہ فرمائیں دعا ہے کہ اﷲ ہم سب کو حضور حافظ
ملت کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین۔ |