علم دوستی اور اسلامی تمدن کے خوشگوار اثرات

علم دوستی اور اسلامی تمدن کے خوشگوار اثرات: تعمیر افکار و کردار کیلئے ان کی ضرورت ہے

مسلمانوں کی علم دوستی اور فنی موشگافی اظہر من الشمس ہے۔ ہر عہد میں مسلمانوں نے تہذیبی، تمدنی اور ثقافتی اقدار کو فروغ دیا۔ معاشرتی اچھائیوں کی ترغیب دی۔ علم و فن کا شعور دیا۔ خیالات کو مثبت راہ دی۔ سوچ کو پاکیزگی دی۔ زبان کو مٹھاس دی۔ قلم کو چاشنی بخشی۔ بولنے، کہنے، سننے، لکھنے، پڑھنے کا ہُنر دیا۔ ایسی ایجادات قوم کو عطا کیں؛ جن سے انسانیت کو قرار و سُکھ ملا۔ دُکھوں کا مداوا ہوا۔

اپنی میراث کی تلاش:
ہم یاسیت کے شکار ہیں۔ مایوسی کی فضا میں جی رہے ہیں۔ مایوسی تو اسلام دُشمن قوتوں کی میراث ہے۔ اس لیے کہ ان کے یہاں جہل تھا، ان کے یہاں تہذیبی قدروں کا فقدان تھا۔ ان کے یہاں جینے کے آداب مفقود تھے۔ معاشرتی تغافل تھا۔ خاندانی نظام تباہ تھا۔اخلاقی خرابیاں تھیں۔ تمام برائیاں احاطہ کیے ہوئے تھیں۔

اسلام نے تہذیب دی۔ اخلاق دیا۔ علم و ہنر دیا۔ سمجھنے کا سلیقہ اور انسانیت کا شعور دیا۔ اچھائی کی راہ دی۔ برائی سے نفرت سکھائی۔ خیالات کو سدھارا، شعور کو مجتمع کیا۔ حقوق دیے۔ حقوق کی رہبری کی۔ غریبوں سے محبت سکھائی۔غریب پروری کا عملاً درس دیا۔ معاشرتی اونچ نیچ ختم کیا۔ذاتیات کی تفریق دور کی۔ اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے نظام کے نفاذ سے پتھروں کو آئینہ بنا دیا۔ ذرّوں کو چمکا دیا ؂
وہ عہد ظلم و جہالت کے دل نما پتھر
نبی سے ملتے رہے آئینوں میں ڈھلتے رہے

ہمیں اپنے ورثے کی طرف لوٹ آنا چاہیے۔ علم ہمارا ورثہ ہے۔ یورپ میں جب اندھیرا تھا، حیوانیت تھی، تب ہمارے یہاں علم کا سویرا تھا۔ نورِ علم سے سینے روشن تھے۔ پیشانیاں اسلامی اخلاق سے آراستہ تھیں اور مسلم قوم متمدن و تہذیب یافتہ تھی۔ ہم علم کے رہبر ہیں۔ ہم نے فنون کی قندیل روشن کی۔ ہمیں اُصولِ جہاں بانی سکھائی گئی۔ پھر پستی میں کیوں پڑ گئے؟ کیوں ذلت کی وادیوں میں اُتر رہے ہیں؟ کیوں اپنے رشتوں کی استواری- منفی فکروں سے کر رہے ہیں؟ اس رُخ سے سوچنا چاہیے! جہاں مستقبل تاریک ہو، جہاں نتیجہ منفی ہو؛ ایسی راہ سے دوری میں ہی بھلائی ہے!!

مثبت نظارہ:
ہم میں جوہرِ علم و شعورِ دیں موجود ہے۔ لیکن ہم نے ان عظیم اقدار کو بھلا دیا جو ہماری میراث تھیں۔ ہم زمانے کی نیرنگیوں میں کھو گئے۔ اپنا منصب بھلا دیا۔ جب کہ علم ہماری پونجی ہے۔ فن ہمارا ورثہ ہے۔ تعمیر قلب و نگاہ کا فریضہ ہمارے صوفیا نے انجام دیا۔ باطل کی تطہیر اولیاء اﷲ نے کی۔ کون سا شعبہ ہے جو ہمارے اسلاف کی خدمات سے فیض یاب نہیں! کون سی شاخ ہے جس کی ٹہنیاں ہمارے ثمر سے لدی نہیں! کون سی چوٹی ہے جس کے سرے پر ہماری عظمتوں کے پھریرے نہیں لہرا رہے!بلکہ علوم و فنون کی بلندیوں کوسر کرنے والی ذات ماضی قریب میں بھی گزری ہے، اعلیٰ حضرت محدث بریلوی- جن کی تصانیف کے رنگِ تحقیق نے غزالی کی یادیں تازہ کردیں اور علماے سلف کے نقوش اجاگر کر دیے۔

یاسیت سے نکلیے۔ اُمیدوں کے ساتھ آگے بڑھیے۔ کامیابی قدم چومے گی۔ مسافتیں سمٹیں گی۔ مصائب دور ہوں گے۔ رحمت کے بادل اُمڈیں گے۔ مینھ برسے گا۔ کشتِ ایماں سرسبز و شاداب ہوگی۔کشتِ عمل لالہ زار ہوگی۔ یقیں کی وادیاں ہری بھری ہوں گی۔ مسلم بستیاں علم و فضل کی آماج گاہ بنیں گی۔ عزم محکم سے نفرتوں کی تہیں چاک ہوں گی۔یقیں کے اُجالے پھیلیں گے۔ نفرتوں کی تہیں چاک ہوں گی۔ محبتوں کی صبح نمودار ہوگی۔

ہم نے مثبت نظارہ دیکھا۔ قوم کو رُخ دیا جائے تو قوم چل پڑتی ہے۔ مثبت رُخ بتائیں- مثبت چلتی ہے۔ فروغِ علم کے تئیں کتبِ سلفِ صالحین سے قریب کرنے کی ایک کوشش مالیگاؤں فیسٹیول میں نوری مشن نے کی۔ کتابوں کا عظیم، علمی و تحقیقی خزینہ مہیا کرایا۔ نوری مشن اسٹال- علم و فضل کی آماج گاہ بن گیا۔ لوگ ٹوٹ پڑے۔، تشنہ لب آئے۔ اثاثۂ سلف لے گئے۔ سیرت کا پیغام گھروں میں پہنچا۔ خوش گوار انقلاب آگیا۔ کارواں در کارواں، غول در غول آئے۔ اپنی علمی میراث کو بشکلِ کتاب لے گئے۔ علم کے موتی چُنے گئے۔ دامن میں بھرے گئے۔ بچوں نے فیض علم لیا۔ طبقۂ نسواں نے کتابوں سے رشتہ استوار کیا۔ قوم پیاسی ہے۔ علم کی پیاس بجھانے کا ساماں کیجیے۔ پھر نتائج دیکھیے۔ ہم پستی کا رونا رو چکے۔ یاسیت کے غار گہرے ہوئے۔ اب اُمیدوں کی صبح طلوع کرنی ہے۔ یہ صبح صدموں میں غلطاں رہنے سے نہیں اُبھرنے والی! یہ صبح اپنی ہی بستی سے اُبھرے گی۔ پیاس بجھائیے۔ دین کا علم دیجیے۔ دُنیا کا ہُنر دیجیے۔ فکر و شعور میں ناموسِ رسالت صلی اﷲ علیہ وسلم کے تحفظ کا جذبہ بیدار کیجیے؛ تاکہ علم رحمت بن جائے۔ ذاتِ مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم سے نسبت و تعلق کی بنیاد پر علم کی برکتیں ملیں گی اور بلندیاں زیر ہوں گی۔ اقبالؔ نے کہا تھا ؂
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمد ﷺ سے اُجالا کر دے

یقیں کی منزل ملے گی۔ شرط ہے یاسیت سے نکلنا۔ عزم کی شاہراہ پر چل پڑنا۔ ہم نے کتاب دوستی کے نظارے خوب دیکھے۔۲۰۱۷ء میں اردو کتاب میلے میں بھی یہ ذوق دیکھا۔ کتابوں کی سمت اپنی قوم کو راغب دیکھا۔ کوشش کیں ۔ کامیابی صد فی صد ملی۔ آپ بھی کتاب دوستی کا رجحان بنائیں،پڑھیں پڑھائیں۔سیکھیں سکھائیں۔ موبائل میں لمبے چوڑے وقت لگا دینا دانش مندی نہیں۔ کچھ لمحات کتابوں کو دیں۔ نتائج عمدہ ملیں گے۔ علم بڑھے گا۔ مطالعہ کا ذوق پروان چڑھے گا۔ایسے ماحول کی برکتوں سے جہل کی تاریکیاں اُمید کے اُجالوں میں تبدیل ہوں گی۔

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 254625 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.