علامہ اقبال نے تو یہ شعر کسی
غریب کسان کی حالتِ زار دیکھ کر کہا ہو گا۔ مگر ایک آزاد اسلامی ریاست کا
خواب دیکھنے والے اس عظیم مفکر کو کیا معلوم کہ اس کے خواب کی تعبیر وقت کے
ساتھ ساتھ اتنی بھیانک ہو جائے گی کہ لوگ پناہ مانگنے لگیں گے۔
آج ملک و قوم کی حالت زار پر رونا آتا ہے، ملک کے سرکاری خزانے خالی ہو گئے
ہیں، سرکاری اداروں میں ملازمین کو تنخواہیں دینے تک کے پیسے ختم ہو گئے،
عام آدمی بنیادی سہولتوں سے محروم ہو رہا ہے اور غریب آدمی تو ضروریاتِ
زندگی سے بھی ناآشنا نظر آتا ہے ایک ایسا دیس ہے جہاں چند فیصد امیر طبقہ،
امیرترین ہورہا ہے جبکہ غریب کو کھانے کو روٹی، پینے کو صاف پانی اور سر
چھپانے کو گھر نہیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان جہاں بیشمار طبقاتی نظام لاگو ہیں صحت و صفائی سے
لیکر بچوں کی پڑھائی تک اور پھر سرکاری اعلٰی عہدوں پر فائز ہونے تک مختلف
طبقے کے لوگوں کے لئے مختلف قوانین ہیں کہیں کوٹہ سسٹم کا فاشٹ نظام تو
کہیں اقربأ پروری کا جال، کہیں رشوت اور کہیں سفارش غرض عام آدمی کے لئے
جینا بھی حرام اور مرنا بھی۔
قائداعظم کے بنائے ہوئے پاکستان میں آج کہیں بھی اقبال کا ذہین اور ہونہار
نوجوان نظر نہیں آتا۔ 63 سالہ دور میں ایسی کوئی مملکت نہیں بنی جس کے
بیشتر وزیر کروڑ پتی ہوں، انکی ملیں ہوں، کارخانے ہوں گودام ہوں اور اپنی
ہی قوم کو لوٹ کر ان کی تجوریاں بھری ہوئی ہوں۔ یہی کافی نہیں جعلی ڈگریوں
اور کرپشن کو اپنا حق سمجھنے والے بھی وزارتوں پر قابض ہیں۔ |