تحریر: صدف نایاب، اسلام آباد
’’یہ پراجیکٹ ہمیں جلد از جلد ختم کرنا ہوگا کیونکہ ڈیمو دینے کی آخری
تاریخ چودہ فروری ہے‘‘، علی نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے اپنے دوست عمر سے کہا۔
’’ہاں!صحیح کہا۔ ڈیمو زبردست ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ اس کے بعد ترقی کے
بھی امکان ہیں‘‘، عمر نے ہنستے ہوئے کہا۔’’ارے یاد آیا چودہ فروری کو تو ہم
دل والوں کا بھی دن ہے، ویلنٹائن ڈے‘‘، علی نے دل پر ہاتھ مارتے ہوئے
کہا۔’’مگر میں تو اسے بے حیائی کا دن کہتا ہوں۔ انگریزوں کی دی ہوئی تعلیم
پر ہم مسلمان جس طرح عمل پیرا ہیں۔ اﷲ ہی ہدایت دے ہمیں۔ لاکھوں زندگیاں اس
دن جھوٹی محبتوں کے پیچھے ختم ہو جاتی ہیں‘‘، عمر بولا۔
’’اگر انسان تھوڑی دیر کو کسی سے دل لگی کر لے یا دو میٹھے بول بول لے تو
اس سے کوئی اسلام خطرے میں نہیں پڑ جاتا‘‘، علی کو مذید شوخی سوجھی جس پر
عمر نے کوئی جواب نہ دیا اور یوں ان کا راستہ کٹ کر گھر تک جا
پہنچا۔’’رابعہ آج شام کو تم مل سکتی ہو‘‘؟ ’’ہاں ہاں ضرور کیوں نہیں‘‘۔
رابعہ نے جلدی سے حامی بھر لی۔ رابعہ علی کی بتائی ہوئی مطلوبہ جگہ پر
پہنچی اور میز پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگی۔ اتنے میں ساری لائٹیس بند
ہوگئیں اور زبردست سا ایک گانا چلنے لگا ساتھ ہی علی اپنے اوپر پڑنے والی
تھوڑی سی روشنی میں پھولوں کا گلدستہ لیے نمودار ہوا اور رابعہ کے قدموں
میں جا بیٹھا۔ رابعہ تھوڑی دیر کے لیے حیران رہ گئی۔
’’یہ سب کیا ہے؟‘‘ آج میں تمھیں اپنے دل کی بات بتا دینا چاہتا ہوں۔ اس کے
لیے آج سے بہتر کوئی دن نہیں ہو سکتا تھا۔ ’’ہیپی ویلنٹائن ڈے‘‘۔ ’’بہت
شکریہ میں بھی زندگی بھر تمھارا ساتھ دوں گی‘‘، رابعہ نے شرماتے ہوئے علی
کو اپنی محبت کا یقین دلایا۔ابھی علی اور رابعہ انہی خوش گپیوں میں مگن تھے
کہ علی کے موبائل کی گھنٹی بجی دوسری طرف سے آنے والی آواز غالبا بہت غصے
میں بھری تھی۔ ’’کہاں ہو علی! میں کب سے تمھارے فون کا انتظار کر رہی ہوں۔
آج ویلنٹائن ڈے ہے یار تم نے مجھے وش بھی نہیں کیا‘‘۔علی ندا کی باتیں سن
کر تھوڑی دیر کے لیے گھبرا سا گیا۔ ’’ہاں ہاں مجھے یاد ہے سب۔ وہ میں تم سے
بعد میں بات کرتا ہوں پھر بتاتا ہوں ملنے کا‘‘، اتنا کہہ کر علی نے جلدی سے
فون بند کر دیا۔ ’’کیا ہوا علی کس کا فون تھا‘‘، رابعہ نے کچھ شک کی نظروں
سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’کچھ نہیں چلو تمھیں گھر چھوڑ دوں‘‘، یہ کہہ کر علی جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا۔
ندا علی کی یونیورسٹی کی دوست تھی جب کہ رابعہ علی کی کزن تھی۔ کافی سالوں
سے علی ان دونوں سے دوستی رکھے ہوئے تھا جو کہ محظ اس کے نزدیک ایک دل کا
بہلاوا تھا۔ علی جیسے ہی گھر پہنچا۔ اس کی ماں روتی ہوئیں آکر اس کے گلے لگ
گئیں۔ ’’کیا ہوا ماں ابھی تھوڑی دیر پہلے تک تو سب ٹھیک تھا‘‘، علی بھی
بدحواس سا ہو رہا تھا۔ بڑی مشکل سے اس کی والدہ نے روتے ہوئے بتایا ’’بیٹا
تیری بہن کی عزت پامال ہو گئی۔کسی لڑکے نے تیری معصوم بہن کو کئی سال سے
اپنے پیچھے لگایا ہوا تھا اور آج۔۔۔‘‘ اس کے بعد ماں آگے نہ بول سکی۔ علی
کے تو جیسے قدموں تلے زمین ہی نکل گئی۔
ندا کے فون ابھی تک آرہے تھے۔ علی نے فون اٹھایا ’’کیوں کر رہی ہو مجھے فون؟
کیا لگتا ہوں میں تمھارا؟ تم جیسی بیوقوف لڑکیاں اپنی زندگیاں بھی برباد
کرتیں ہیں اور ہماری بھی۔ آج سے میرا تم سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔ ’’علی یہ کیا
کہہ رہے ہو تم؟ تمھاری خاطر تو میں نے اپنے والدین سے جھگڑا کیا۔ اچھا بھلا
پر وقار لڑکے کا رشتہ ٹھکرایا اپنے کتنے تعلیمی سال تمھارے لیے برباد کر
دیے‘‘۔ ’’اس سب کی ذمہ دار تم خود ہو‘‘، یہ کہہ کر علی نے فون پٹخ دیا۔
’’امی آپ فکر نہ کریں میں کیس کروں گا‘‘، علی نے اپنے آفس کے مؤثر افراد کے
ساتھ مل کر اس لڑکے کو پکڑوا لیا۔ آج پہلی پیشی تھی۔ ’’آرڈر آرڈر۔ ویلنٹائن
ڈے پر پیش ہونے والے ایسے تمام ملزمان کو سخت سزا سنائی جاتی ہے۔ ساتھ ہی
عدلیہ کی طرف سے حکم صادر کیا جاتا ہے۔ ویلنٹائن ڈے کا مکمل بائیکاٹ کیا
جائے۔ یہ بے حیائی اور فحاشی کو پھیلانے کا کھلا ذریعہ ہے اس کا ہماری
اسلامی اقدار و روایات سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ سرا سر غیر مسلموں کا تہوار
ہے۔ بازاروں میں بکنے والا عریانی اور بے شرمی پر مبنی لباس، ایسے کارڈز،
ٹی وی شوز سب پر پابندی لگائی جاتی ہے۔ ساتھ ہی یہ فیصلہ بھی کیا جاتا ہے
کہ والدین کے لیے اسلامی طرز زندگی پر اپنی اولاد کی تربیت کے لیے اصلاحی
پروگرام نشر کیے جائیں گے تاکہ لڑکے لڑکیوں دونوں کی زندگییوں کو تحفظ مل
سکے۔ عدالت برخاست ہوتی ہے‘‘۔
علی آج بہت خوش تھا کہ اس نے اپنی بہن کو انصاف دلوادیا مگر ساتھ ہی اس کے
دل میں ایک قلق تھا جو اسے اس خوشی کو منانے نہیں دے رہا تھا۔ ’’ندا میں تم
سے معافی مانگتا ہوں۔ خدا کے لیے میری وجہ سے اپنی زندگی برباد نہ کرو مجھے
بھول جاؤ اور اپنے والدین کی بات سنو‘‘، ندا نے یہ سنتے ہی فون بند کر دیا۔
شاید ندا نے بھی اپنی زندگی بچانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ادھر علی بھاگا
بھاگا رابعہ کے گھر پہنچا اور اسے ہمیشہ کے لیے اپنے گھر کی رونق بنانے کا
فیصلہ کیا۔ جسے رابعہ نے سچ جاننے کے باوجود قبول کر لیا۔ |