میں پاگل نہیں ہوں، پھر کیوں مجھے پاگل خانے میں ڈالا گیا
ہے؟۔۔۔ آپ ہی بتائیں۔۔۔ پروفیسر صاحب۔۔؟ رحیم خان نے اپنے پیروں سے بندھی
ہوئی زنجیر جھنجھنائی ۔۔۔اور سارے پاگل اُس کی طرف دیکھنے لگے۔ مجھے رحیم
خان کے ساتھ اس پاگل خانے میں رہتے ہوئے چھ ماہ سے اوپر ہوگئے ہیں۔ رحیم
خان انتہائی باتونی، ہنس مکھ ، وجیہہ اور من موہنی شخصیت کا مالک ہے۔ بلا
کا ذہین ،لیکن کبھی کبھی اپنا آپا کھو بیٹھتا ہے۔ ۔ اُس کا غصہ کبھی بھی بے
جا نہیں ہوتا، کیونکہ اُسے لگتا ہے، کہ دُنیا میں ایک و ہی سیدھے راستے پر
ہے باقی سب گمراہ۔۔۔ لیکن اُسے میں نے کبھی چُپ نہیں دیکھا جب بھی دیکھا ہے
بولتے ہوئے دیکھا ہے۔ وہ بھی خود کو تندرست اور ذہین سمجھتا ہے اور میں بھی
ٹھیک ٹھاک ہوں ۔۔۔لیکن مجھے بھی ڈاکٹروں نے نجانے کیوں پاگل سمجھ کر یہاں
قید کر دیا۔۔۔میرے پیروں میں رحیم خان کی طرح زنجیر نہیں ۔۔ میں تو کھل کر
چلتا پھرتا ہوں اور یہاں پر موجود سٹاف سے بات چیت بھی کرتا ہوں ۔۔۔میں ایک
سکول ٹیچر ہوں، لیکن جانے کس خوش فہمی میں سارا سٹاف اوراُن کی دیکھا
دیکھی، سارے پاگل مجھے پروفیسر صاحب کہتے ہیں۔۔۔؟۔۔۔ میں ہر شام سونے سے
پہلے اپنی ڈائری میں کچھ نہ کچھ گزرے ہوئے دن کے بارے میں ضرورلکھتا ہوں ،
اور سارے پاگل مجھے ڈائری لکھنے کے دوراں عجیب سی نظروں سے گھورتے رہتے
ہیں۔۔۔ چند ایک بے ضرر قسم کے پاگل تو پاس آکر بیٹھ جاتے ہیں اور فرمائشیں
کرتے ہیں،کہ حکومت کو ہمارے بارے میں بھی بتا دو۔۔۔ رحیم خان بھی تو
روزمُجھ سے اصرار کرتا ہے، کہ اس ڈائری میں ہم سب کے بارے میں لکھنا!۔۔۔
اور باہر جاکر چھاپ دینا تاکہ سب کو ہمارے بارے میں پتہ چلے، کہ ہم پر
حکومت کیا کیا مظالم ڈھا رہی ہے!۔۔۔ ہم سب مُحبت سے لبریز،اور حق پرست
دانشوروں کو ڈاکٹر پاگل سمجھ رہے ہیں۔۔۔ اور میں سب سُن کر ہنس دیتا ہوں،
ہاں ضرور بتاؤں گا، باہر جاکر!۔۔۔
ہم پاگل خانے کے اُس حصے میں ہیں جہاں پھل کھانے کے لیے بھی چاقو چھری
رکھنے کی اجازت نہیں بلکہ دھاتی چمچ کی بھی ممانعت ہے ،مبادا،کوئی اپنی یا
کسی دوسرے کی شہہ رگ نہ کاٹ ڈالے ، نہ رسی ،تار اور ایسا کپڑا چھوڑا جاتا
ہے جس سے پھانسی لگائی جاسکے۔ بجلی کے بلب اونچے چھتوں سے لٹکے ہوئے ہیں
لیکن ان کی ساری وائرنگ اور جلنے بجھنے کے سوئچ بھی پہرے دار کے کمرے میں
لگے ہوئے ہیں۔۔۔ ہمیں نرم پلاسٹک کی تھالیوں اور چمچوں سے کھانا دیا جاتا
ہے، اورسارے گلاس بھی ڈسپوزایبل ہیں۔میں اپنے بارے میں تو روز لکھتا ہوں
لیکن ،آج میں اپنے بارے میں کچھ نہیں لکھوں گا بلکہ آج رحیم خان نے مجھے
اپنی زندگی کی کہانی سُنائی ہے،وہی لکھوں گا۔۔۔
میں تعلیمی قابلیت کے لحاظ سے اوسط درجے کا طالب علم تھا، نہ غبی اور نہ
پوزیشن لینے والا بلکہ یوں کہیں کہ میں کبھی کلاس میں موجود ہی نہ تھا
،اُستاد جب بھی پڑھانا شروع کرتا، میں اپنی ایک الگ دُنیا تخلیق کر لیتا جس
میں ہوائی گھوڑے اُڑتے ، پریاں اپنے پر پھڑپھڑاتیں،سفید دودھیا روشنی کی
آبشاریں گرتیں،سبزے کے وسیع میدان اور اُس میں مدہم ہواؤں سے رقص کرتے ہوئے
نیلے نیلے پھول ہوتے،جگنو اور تتلیاںآ، آکر میرے ہاتھوں پیروں کے بوسے
لیتیں، اور سکول کے چار پانچ گھنٹے ان ہی سوچوں میں گزر جاتے۔۔نہ میں سویا
ہوتا اور نہ جاگتا، بلکہ ان کے درمیان کی ایک دُنیا میں رہتا ۔۔۔۔ سکول میں
نہ میں کچھ سمجھتاکیونکہ میں کچھ سننے کی کوشش ہی نہ کرتا، اور نہ اساتذہ
کچھ سمجھانے پر بضد ہوتے کیونکہ چالیس بچوں کی کلاس میں کون اتنی خبر
رکھے۔۔۔ رفتہ رفتہ وقت گزرتا گیا اور جب میٹرک کے امتحان ہورہے تھے ،تو
ظہرہ آنٹی پشاورسے چند دنوں کے لیے ہمارے ہاں لاہور،رہنے آئی، اُس کے ساتھ
اُس کی اکلوتی بیٹی شائستہ بھی تھی جو شاید آٹھویں میں پڑھ رہی تھی،انتہائی
خود سر اور اڈیل قسم کی لڑکی ۔۔۔ مجھے پہلی نظر میں تو نہیں،لیکن کچھ
ملاقاتوں کے بعد بہت ہی اچھی لگنے لگی۔۔۔ وہ ہر وقت مُنہ پھلا ئے رہتی، بات
بات پہ شکایتیں لگاتی،اور چھوٹی سے چھوٹی بات کا بتنگڑ بناتی۔ لیکن اُس کی
ان باتوں میں بھی معصومیت تھی۔ اُس میں اتنی ذہانت ضرور تھی کہ لوگوں کے
سامنے جھوٹ موٹ کی ہنسی ہنس لیتی،کیونکہ اکثر عورتیں یہ اداکاری اچھے طریقے
سے کرتی ہیں۔ وہ اپنے سے بڑی عمر کی عورتوں کی بیچ بیٹھ کر اُن کی باتیں
غور سے سُنتی اور پھر اسی انداز میں بولنے کی کوشش کرتی ، جس میں کبھی کبھی
گالیاں بھی شامل ہوجاتیں۔ بڑی کرسی میں پیر اوپر کرکے گھٹنوں پر گال رکھتی
اور گھر میں ہونے والے والی چہل پہل کا جائزہ لیتی۔ اکثر چپ رہتی لیکن جب
بھی مُنہ کھولتی شکایتیں لگاتی یا کسی چیز سے بیزاری کا اظہار کرتی۔
جب سے شائستہ سے بات چیت شروع ہوئی ،میرے ذہن سے اُڑنے والے گھوڑے،پریاں
،جگنو اور تتلیاں محو ہوگئیں،دن رات آنکھوں کے سامنے شائستہ چلتی پھرتی
رہتی ،کبھی مُنہ پھلائے کتاب کے پنے اُلٹ رہی ہے تو کبھی عورتوں کے درمیان
بیٹھی جھوٹ موٹ کی ہنسی ہنس رہی ہے اور گالیاں سیکھ رہی ہے،کبھی میرے پاس
آکر مجھ سے کسی کی شکایتیں لگا رہی ہے ،تو کبھی،اپنی سہیلیوں کے طرزِ عمل
میں مین میخ نکال رہی ہے۔۔۔۔یہ ایک نہ رُکنے والی فلم میرے ذہن میں شروع
ہوچکی تھی۔۔حالانکہ اُس سے مہینوں اور سالوں ملاقات نہ ہوتی۔۔لیکن میرے ذہن
کی فلم میں روز نئی نئی اداؤں کا اضافہ ہوتا رہتا ۔میرے تصور میں ہم،کبھی
لانگ ڈرائیو پر نکل کرراستے میں فلمی گیت سُنتے، شام تک پارک کے بینچوں پر
بیٹھے رہتے، کبھی واہگہ بارڈر پر ملی نغموں کی تال پر ہاتھ اُٹھا کر جھومتے
اور کبھی شاہی قلعے کی دیواروں کے ساتھ ٹیک لگائے ایک دوسرے کو تکتے
رہتے۔۔۔فورٹ ریس کے سینما میں رات گئے کا شو دیکھتے۔۔۔ کبھی گھنے پیڑوں میں
شام کے وقت چہچہاتے پنچھیوں کے شور سے لطف اُٹھاتے تو کبھی داتا دربار کے
برآمدے میں دوزانوں ہوکر داتا صاحب کا،ا پنے ملن کے لیے شکریہ ادا کرتے۔۔۔
اورداتا صاحب کے گنبد کے کبوتروں کو شائستہ کے ہاتھ سے دانہ کھلاتے۔
وقت گزرتا گیا اور میں اپنی تعلیمی منازل طے کرتا رہا لیکن اپنی ہر ڈگری
مجھے شائستہ کے قرب کا ایک مائل سٹون لگتی ،کیونکہ میں نے کبھی بھی شائستہ
کے علاؤہ اپنی زندگی میں کسی اور چیز کے بارے میں سوچا ہی نہیں تھا، میرے
ہم جماعت ڈاکٹر ، انجینئر ،بینک مینیجرزاور پتہ نہیں کون کون سے پروفیشن کے
سپنے دیکھتے لیکن۔۔۔۔۔ میری زندگی کا مقصد صرف شائستہ کا ساتھ تھا۔۔۔ وہ
ساتھ تھی تو زندگی ہر رنگ میں گلزار تھی اور اُس کے بغیریہ بنجر صحرا سے
بھی تکلیف دہ اور بے وقعت۔۔۔ اُس کو منفی کرنے کا مطلب زندگی کو صفر سے ضرب
دینے کے مترادف تھا، دولت شہرت سب فضولیات تھیں۔۔۔ اس لیے میں نے کبھی اُس
کے سوا کچھ سوچا ہی نہیں تھا۔۔۔ کیریئر کیا ہوتا ہے۔۔۔؟۔۔۔ کبھی غور ہی
نہیں کیا۔۔۔کیونکہ شائستہ سے آگے مجھے کچھ نظر ہی نہیں آتا!۔۔
فیملی تعلقات کے باعث شائستہ اور اُس کے گھر والوں کا آنا جانا لگا رہتا۔۔
عید بقر عید پر ملاقات ہوجاتی ۔۔۔خوب ہنس کے باتیں ہوتیں۔۔۔وہ کالج
یونیورسٹی سے فارغ ہو کر گھر بیٹھ گئی تھی ۔۔ میں نے بھی جیسے تیسے اپنے
امتحانات پاس کرکے کچھ روزگار حاصل کر لیا تھا۔ جس سے سفید پوشی برقرار
رکھی جاسکے۔ ۔۔۔کچھ مقابلے کے امتحانات کی تیاریاں بھی ہورہی تھی، کیونکہ
یہ بھی شائستہ کو حاصل کرنے کا ایک راستہ تھا ،ورنہ مجھ میں پاس کرنے کی
اہلیت باالکل بھی نہ تھی۔۔۔ والدین اکثرشادی کے لیے اصرار کرتے لیکن میں
تعلیم حاصل کر رہا ہوں۔۔۔، کچھ بننا چاہتا ہوں۔۔۔، کہہ کر ٹال دیتا، کیونکہ
شائستہ سے آگے میری آنکھیں اندھی تھیں۔۔۔
پھر ایک دن شائستہ کی منگنی کی خبر سُنی۔۔۔ پتہ نہیں کیوں شائستہ نے کسی
اور سے شادی کا فیصلہ کیا۔۔۔؟۔۔۔ لیکن اُسے تومیری محبت کا پتہ ہی نہیں
تھا۔۔۔!۔۔۔ میں نے نجانے کونسے ڈر کی وجہ سے اپنی محبت کا اظہار نہیں کیا۔
کیا ٹھکرائے جانے کا خوف تھا۔۔؟ ۔۔۔یا کچھ اور۔۔۔۔کچھ اور کیا تھا؟۔۔۔۔کیا
شائستہ کو میں پسند نہیں تھا۔۔۔؟۔۔۔ لیکن جب بھی ملاقات ہوتی وہ میرے ساتھ
ہی باتوں میں لگ جاتی میرے پاس گھنٹوں بیٹھی رہتی۔۔۔ مجھ سے ساری باتیں
کرتی۔۔۔ وہ تو مجھے ہر دُکھ درد میں شریک رکھتی ، ہر خوشی کی خبر
سُناتی۔۔۔۔ اور ہر مذاق میں شریک بناتی ۔۔۔جب بھی کسی کی غیبت کرنی ہوتی تو
میرے سامنے ہی کرتی۔۔۔۔ جب بھی ملتی سارے عرصے کی سٹور کی ہوئی باتیں حافظے
سے اُگل اُگل کر مُجھ تک پہنچاتی ۔۔۔ میرے پاس بیٹھ کے اُسے بھی اچھا
لگتا۔۔بلکہ بہت اچھا لگتا۔۔۔لیکن ۔۔۔ لیکن میں کیا چاہتا تھا۔۔؟۔۔سب گھر
والوں کے سامنے وہ میرے ساتھ بیٹھی باتیں کرتی رہتی۔۔۔۔ اس سے زیادہ ایک
لڑکی اور کیا،اظہار کر سکتی ہے؟۔۔۔ لیکن میں نے ۔۔۔اظہار کیوں نہیں ۔۔؟۔۔
جب وہ اپنے رشتے کے بارے میں بتا رہی تھی۔۔۔جب وہ رشتہ کے لیے آنے والی
عورتوں کے بارے میں بتا رہی تھی ۔۔۔۔ تو میں نے کیوں ہنس کر کہا ۔۔ہاں بہت
اچھا رشتہ ہے، خوش رہو گی۔۔۔ میں ہر بات پر کیوں انجان بننے کی اداکاری
کرتا ۔۔؟۔۔ میں کیوں اپنی دلچسپی کا اظہار نہ کرتا ۔۔۔میں کیوں اُس کے لیے
اپنے دل میں موجود،اُسکاپیار اُس سے چُھپاتا رہا۔۔۔ میں کیوں چُپ رہا جب
اُس نے باتوں باتوں میں پوچھ لیاتھا کہ :۔۔۔۔کسی خاص کے انتظار میں بیٹھ کر
بوڑھے ہو جاؤگے، شادی کرلو! ۔۔۔ لیکن میں نے بات ہنسی میں اُڑادی تھی۔۔۔ہاں
کسی بہت ہی خاص کا انتظار ہے،جواب میں کہاتھا۔۔!۔۔۔ لیکن اُس نے بھی تو
کبھی نہیں کہا کہ تم مُجھے اچھے لگتے ہو۔۔مجھے تم سے پیار ہے!۔۔۔وہ بھی تو
یہی کہتی تھی، کہ تم بہت اچھے انسان ہو!۔۔۔ اور اچھے انسان تو دُنیا میں
کروڑوں ہیں ۔۔۔ اُسے بھی تو کہنا چاہیے تھا کہ ۔۔۔ تم مجھے اچھے لگتے ہو۔۔۔
میں تو مرد تھا۔۔۔ میں کیسے کہتا؟۔۔۔کہ تم مجھے اچھی لگتی ہو!۔۔۔میں تم سے
پیار کرتا ہوں!۔۔۔میں تمہارے بن ادھورا ہوں!۔۔۔ تم میری جان ہو!۔۔۔۔ یہ
زندگی تیرے لیے ہی وقف ہے۔۔۔ یہ کوئی فلم تھوڑی ہے؟۔۔۔یہ تو زندگی ہے
!۔۔۔اگر وہ بُرا مان جاتی تو میں ایک دوست ۔۔۔ایک بے تکلف دوست سے بھی
محروم ہوجاتا۔۔۔پتہ نہیں وہ کیا سوچتی میرے بارے میں ؟۔۔۔ ہاں پروفیسر
صاحب۔۔۔؟۔۔۔ وہ کیا سوچتی میرے بارے میں ؟۔۔۔رحیم خان نے اپنی باتوں کا
سلسلہ توڑتے ہوئے ۔۔۔میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کیا ؟۔۔۔وہ کیا
سوچتی میرے بارے میں ۔۔۔پروفیسر صاحب۔۔۔ اُس کی اُلجھی ہوئی میلی کچیلی
داڑھی کے بالوں میں آنسوؤں کے قطرے شبنم کی طرح چمک رہے تھے۔۔۔ اور نتھنوں
سے بھی پانی کے چند قطرے ٹپکنا شروع ہوچکے تھے۔۔۔ اُس نے اپنی کھلی ،لٹکتی
ہوئی آستین سے ناک پونچھتے ہوئے میرے ہاتھ کو چھوکر تھپتھپایا۔۔۔۔پروفیسر
صاحب !۔۔۔۔ شائستہ کو ہی اظہار کرنا چاہیے تھا!۔۔۔ ہاں۔نا۔۔ پروفیسر
صاحب۔۔؟۔۔ کرنا چاہیے تھا ۔۔نا۔۔؟۔۔ ۔ اگر اُسے مجھ سے محبت تھی تو اُس کے
لیے تو اظہار آسان تھا ۔۔۔کسی کاغذ پر انگریزی کے تین الفاظ لکھ کر تھما
دیتی ۔۔میں کیسے نا کہتا!۔۔۔۔۔لیکن نہیں! ۔۔۔وہ کسی اور کی ہوگئی۔۔۔ہنسی
خوشی!۔۔۔۔ میں کیسے اظہار کر تا ۔۔۔پشتون خاندانوں میں !۔۔میں کیسے اظہار
کرتا؟۔۔۔ پروفیسر صاحب !۔۔آپ ہی بتائیں میں کیسے اظہار کرتا؟۔۔۔۔آج بھی وہ
ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ کا سٹینڈ بنا کر میرے سامنے کر سی پر چُپ چاپ بیٹھ جاتی
ہے اور مجھے گھورتی رہتی ہے۔۔۔ کیا سب میری غلطی تھی؟۔۔۔وہ بھی تو کہہ سکتی
تھی،کہ تم مجھے اچھے لگتے ہو!۔۔۔ وہ کہہ سکتی تھی نا؟۔۔۔۔ وہ سامنے کرسی
دیکھ رہے ہو۔۔۔ٹھیک میری چارپائی کے سامنے۔۔۔دیکھ رہے ہو ، نا۔۔۔ پروفیسر
صاحب؟۔۔۔ اُس پرروز بیٹھتی ہے۔۔۔۔۔ اپنے پیروں کے گرد ہاتھ کس کر باندھ
لیتی ہے، اوراپنے گھٹنوں پر گال رکھ کر مُجھ پہ ہنستی رہتی ہے۔۔۔ میں اگر
ڈر رہا تھا ۔۔تو وہ بھی تو کہہ سکتی تھی؟۔۔۔۔۔ہاں پروفیسر صاحب!۔۔۔ہے۔۔
نا؟۔۔۔ اُس نے زنجیر پھر سے پکڑ کر زور زور سے جھنجھنائی۔۔رحیم خان بول رہا
تھا۔۔۔اور میں سُن رہا تھا۔۔۔ہم دونوں کی داڑھیاں تر تھیں۔۔۔۔کیا ایسا بھی
ہوتا ہے۔۔؟۔۔ کہ اتنے پاس آکر بھی لوگ بچھڑ جاتے ہیں۔۔؟۔۔ کیا ایسا ہوسکتا
ہے۔۔۔؟؟؟؟۔۔۔کیا شائستہ کو بھی رحیم خان سے محبت تھی۔۔۔۔؟؟؟۔۔۔۔کیا یہ رحیم
کی ہی کہانی ہے۔۔۔۔۔؟؟؟۔۔۔ میں کیا لکھ رہا ہوں۔۔۔۔؟؟؟۔۔۔۔۔چُپ ہو جاؤ رحیم
خان۔۔۔۔ اب چُپ۔۔۔۔!!!!!!۔۔۔۔۔۔۔۔ |