ادارہ نیب آج کل متحرک اور بڑے بڑے ناموں پر ہاتھ
ڈال رہا ہے۔ اس سے قبل نیب کے کردار کو سیاسی طور پر لیا جاتا رہاہے اور
نیب پر الزامات عاید کئے جاتے رہے ہیں کہ نیب کو سیاسی مقاصد کے لئے بنایا
گیا تھا ۔ پرویز مشرف دور کے بعد اٹھارویں ترمیم کرنے والی کلیدی جماعتوں
نے نیب کے قوانین میں سقم نہیں دیکھا اور نہ ہی نیب کے حالیہ کردار کے
حوالے سے انہوں نے کبھی سوچا ہوگا ۔ پی پی پی اور نون لیگ نے اپنے اپنے دور
حکومت میں نیب سے کوئی خطرہ بھی محسوس نہیں کیا ہوگا۔ لیکن موجودہ حکومت
میں پہلے پاکستان مسلم لیگ(ن) ، پھر پاکستان پیپلز پارٹی اور معدودے چند
پاکستان تحریک انصاف کے اہم رہنماؤں کی گرفتاریوں کے بعد سیاسی جماعتوں میں
بڑی ہلچل مچی ہوئی ہے۔
کم ازکم پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے آئین کے مطابق نیب
کے لئے جس چیئرمین پر اتفاق رائے کیا تھا ۔ وہ اب ان کے لئے بڑی مشکلات کا
سبب بنا ہوا ہے۔ شاید کچھ ایسا معاملہ الیکشن کمیشن کا بھی تھا کہ دونوں
جماعتوں نے الیکشن کمیشن کے سربراہ کو منتخب کرنے میں اپنا کردار ادا کیا
تھا ، سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی کامیابی پر پاکستان تحریک انصاف
خوش نہیں تھی اور الیکشن کمیشن کو آڑے ہاتھوں رکھا ۔ تو اب عمران خان کے
وزیر اعظم بن جانے کے بعد تمام انتخابی عمل پر اپوزیشن جماعتوں سمیت خود
تحریک انصاف نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا ۔ الیکشن کمیشن اور نیب کے
سربراہ کو اپوزیشن لیڈر اور وزیر اعظم منتخب کرتے ہیں ، اپوزیشن لیڈر تمام
پارلیمانی پارٹیوں سے مشاورت کے بعد دونوں اہم سربراہوں کا انتخاب کرتے ہیں۔
موجودہ حکومت نے نیب کے سربراہ کا انتخاب کیا یا پھر وزیر اعظم کے پاس ایسا
کوئی صوابیدیدی اختیار موجود ہے کہ وہ دونوں اداروں کے سربراہوں کو خود
مقرر کرسکتے ہیں۔ اب اگر نیب پر اپوزیشن جماعتوں سمیت حکمران جماعت بھی
تحفظات کا اظہار کررہی ہے تو اس کی کوئی بنیادی وجہ ضرور ہوگی ۔
واضح رہے کہ نیب کے موجودہ چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال ، اس وقت
مسنگ پرسن کمیشن کے سربراہ ہیں اور ایبٹ آباد تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ بھی
رہ چکے تھے ۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایبٹ آباد تحقیقاتی کمیشن میں
انہوں نے ایک اہم افسر کو طلب کیا ، نوٹس پر افسر نہیں آئے تو انہوں نے
پیغام بھیجا کہ خود آئیں گے یا بندے بھیج کر بلوایا جائے ؟۔جس کے بعد اگلی
پیشی پر افسر پیش ہوگئے ، کمیشن نے تحقیقات کے لئے مسلح افواج کے سربراہوں
کے بھی طلب کرکے بیان ریکارڈ کروائے تھے ۔ اُس وقت کے بَری فوج کے سربراہ
کے سوا دیگر مسلح افواج کے سربراہوں نے کمیشن کے سامنے پیش ہوکر اپنے
بیانات ریکارڈ کرائے تھے۔انہیں اُس وقت سے بڑا متحرک چاق و چوبند مانا جاتا
رہاہے۔
پرویز مشرف کے دور حکومت سن 2000میں بلوچستا ن ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقرر
ہوئے جس کے دو ہفتے انہیں سپریم کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کردیا گیا ۔ تاہم سن
2007میں جب سابق صدر پرویز مشرف نے ایمرجنسی لگائی تو انہوں نے قبول کرنے
سے انکار کردیا ، جس کے بعد انہیں گھر میں نظر بند کردیا گیا
تھا۔اکتوبر2017میں حکمراں جماعت اور اپوزیشن کی جانب سے متفقہ منظوری کے
بعد انہیں 4برسوں کے لئے نیب کا چیئرمین مقرر کردیا گیا اور اب سن 2019میں
نیب کو مختلف نوعیت کے دباؤ کا سامنا ہے۔ کم ازکم اِس وقت کوئی سیاسی جماعت
ایسی نہیں جو انہیں دباؤ میں لا سکے۔ چیئرمین نیب کو اپنے کسی مقاصد کے لئے
استعمال کرنا کم ازکم کسی بھی سیاسی جماعت کے بس کی بات نہیں ۔ خاص طور
پرپاکستان تحریک انصاف کے وزیر اعظم جو اپنے کمزور فیصلوں وقوت ارادی( یو
ٹرن) کی وجہ سے خاص شہرت حاصل کرچکے ہیں ، راقم نہیں سمجھتا کہ وزیر اعظم
عمران خان انہیں (جاوید اقبال)خصوصی ڈکٹیشن یا دباؤ میں لا سکتے ہیں۔
موجودہ تمام حالات و واقعات کا اجمالی جائزہ لیا جائے تو واضح طور پر نظر
آتا ہے کہ دو اہم ترین کمیشن کے سربراہ رہنے کی وجہ سے بہت مضبوط اعصاب و
کوئی بیرونی دباؤ قبول نہ کرنے والی شخصیت ہیں۔ تاہم نیب کی جانب سے جو بھی
اقدامات ہو رہے ہیں وہ ایک مخصوص سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس کو سمجھنے کے
لئے عالمی کرپشن ڈے پر چیئرمین نیب کی تقریر کے ایک اقتباس کو موجودہ سیاسی
حالات کے تناظر میں سمجھیں ۔ چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے کہا
تھا ’’کہ گزشتہ ایک سال میں ماضی کے اور موجودہ ارباب اختیار کو یہ احساس
دلانے میں کامیاب ہوگیا ہوں کہ جو کرے گا وہ بھرے گا، ہر آدمی جس نے کرپشن
کی ہے اسے حساب دینا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ 30 سال سے برسراقتدار لوگ
شاید فراموش کرگئے کہ یہ عہد مغلیہ اور شہنشاہوں کا دور نہیں، اب ظل الہیٰ
کا دور ختم ہوچکا ہے اور عام آدمی کو بھی پوچھنے کا حق ہے کہ آپ نے ایسا
کیوں کیا اور نیب کو تو یہ قانونی حق حاصل ہے۔ کسی کی عزتِ نفس کو ٹھیس نہ
پہنچے، یہ سامنے رکھ کر پوچھا جاتا ہے، لیکن پوچھا جائے تو جواب دینا فرض
ہے، اتنا حساس بھی نہیں ہونا چاہیے، لاکھوں کی جگہ کروڑوں اور اربوں خرچ
ہوں گے تو جس نے کرپشن کی ہے اسے حساب دینا ہوگا، پہلے جن لوگوں کے پاس 70
سی سی موٹرسائیکل تھی اب دبئی میں ٹاور ہیں، نیب نے اگر یہ پوچھ لیا کہ
ٹاور کہاں سے آئے تو کیا گستاخی ہو گئی؟ اگر حساب مانگنا جرم ہے تو یہ جرم
ہوتا رہے گا‘‘۔
مملکت میں آمریت جب بھی آئی تو برطرف کی جانے والی حکومت پر کرپشن کا الزام
لگا ۔18ترمیم کے بعدآرٹیکل58-Bکے خاتمے سے مارشل لاء لگنے کے امکانات بھی
ختم ہوگئے ۔ جس کے بعد اگر حکمران طبقہ پریشان ہوا تو آرٹیکل 184/3جوڈیشنل
ایکٹو ازم تھا ۔ موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان کی بھرپور توجہ عدالتی نظام پر
ہے اور سابق چیف جسٹس کی’’ طرح‘‘ سیاسی مقدمات کو متعلقہ اداروں کی جانب
دھکیل رہے ہیں۔لہذا اب حکمراں جماعت سمیت اپوزیشن جماعتیں و بیورو کریسی
ادارہ نیب کے لامحدود اختیارات کی وجہ سے پریشان و خوف زدہ ہیں۔نیب کے
کارکردگی اور احتساب کے لئے طے گئے پیمانوں پر درست یا غلط ہونے کی بحث و
قانونی حیثیت اپنی جگہ برقرار ہے ۔ لیکن اس وقت یقینی طور پر ایک بڑی فہرست
ایسی ہے جس میں بڑے بڑے سیاسی رہنماؤں اور بیورو کریسی سے تعلق رکھنے والوں
کے نام ہیں۔ ایک کے بعد ایک کی گرفتاری پر سیاسی انتقام کا سہارا لینا کم
ازکم چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی پالیسی کے سامنے کارگر
نہیں۔امید کی جاسکتی ہے کہ ادارہ نیب بلا امتیاز و سیاسی وابستگی کا بالائے
طاق رکھ ایک ایسی مثال قائم کردے جس سے قوم کو مثبت خبروں کی نوید ملے۔ |