صبح ہوتی ہے لوگ نیند سے بیدار ہوتے ہیں اور ضروری حاجات
سے فراغت کے بعد ناشتہ کرتے ہیں اور اپنے کام پر چلے جاتے ہیں، کوئی اپنی
دکان کھولتا ہے تو کوئی اپنے کارخانہ یا فیکٹری میں چلا جاتا ہے ، مزدور
پیشہ اپنی مزدوری پر چلے جاتے ہیں اور ملازمت پیشہ اپنی ڈیوٹی پر۔ اور جب
شام ہوتی ہے تو اپنے کام سے واپس آتے ہیں رات کا کھانا کھاتے ہیں ، گھر
والوں کے ساتھ کچھ گپ شپ لگاتے ہیں اور پھر سونے کیلئے بستر پر چلے جاتے
ہیں اور پھر صبح ہو جاتی ہے اور یہی کام دوبارہ شروع ہو جاتاہے۔
اسی طرح زندگی کے دن بیت جاتے ہیں بقول شاعر......
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یونہی تمام ہوتی ہے
انسان اپنی زندگی کے بارہ میں منصوبہ بندی کرتا ہے کہ میں نے مستقبل میں
کیا بننا ہے ڈاکٹر، انجنیئر، ایک کامیاب بزنس مین یا کوئی اور ، بہر حال
اسکے تمام خیالات اپنی اسی زندگی کو بہتر بنانے کے متعلق ہی ہوتے ہیں۔
مثلاً ایک سیاستدان کی سوچ یہی ہوتی ہے کہ کس طرح میں نے آیندہ الیکشن
جیتنا ہے اور اپنے مد مقابل کو شکست فاش دینی ہے؟ جبکہ ایک کارخانہ دار کی
کوشش یہ ہوتی ہے کہ کس طرح اسنے ترقی کرکے آیندہ سال ایک نیا کارخانہ لگانہ
ہے او ر ایک فلمساز دن رات اسی غم میں گھلا جارہا ہے کہ کس طرح اسکی نئی
فلم سو کروڑ روپے کمانے والی فلموں کے کلب میں شامل ہو سکتی ہے؟
بہرحال زندگی کے ان مسائل میں یہ خیال کم ہی لوگوں کو آتا ہے کہ انکا اس
زندگی میںآنے کا کوئی اور مقصد بھی ہے؟ اگر کسی سے اس موضوع پر بات کی جائے
یعنی اسے دین کی دعوت دی جائے کہ بھئی یہ کائنات ایسے ہی وجود میں نہیںآگئی
بلکہ اسے کوئی بنانے والااور اسکے نظام کو چلانے والا بھی ہے جس نے اسے بے
کار پیدا نہیں کیا اور انسان کو اس نے اپنی عباد ت کیلئے پیدا کیا ہے اور
وہی اسکا روزی رساں اورنفع نقصان کا مالک ہے اور اس زندگی کے بعد ایک اور
زندگی آنے والی ہے جو کبھی ختم نہ ہوگی اسکی تیاری کرنی بھی ضروری ہے۔
یہ سن کر اسکا جواب عام طور پر یہ ہو تا ہے کہ یہ سب مولویوں کی باتیں ہیں
سوچ لیں گے اس موضوع پر بھی پہلے اپنے ضروری مسائل توحل کر لیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے’’آپ فرما دیجئے اے نبی پاکﷺ کیا میں تمھیں ان لوگوں
کے بارہ میںآگاہ نہ کردوں جو باعتبار اعمال سب سے زیادہ خسارہ میں ہیں؟ یہ
وہ لوگ ہیں کہ جن کی دنیاوی زندگی کی تمام تر کوششیں بے کار گئیں اور وہ
اسی گمان میں رہے کہ وہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے
اپنے پروردگار کی آیتوں اور اسکی ملاقات سے کفر کیا اس لئے ان کے اعمال
غارت ہو گئے اور روز قیامت ہم انکے اعمال کا کوئی وزن قائم نہ کریں گے۔ حال
یہ ہے کہ انکا بدلہ جہنم ہے کیونکہ انھوں نے کفر کیا اور میری آیتوں اور
میرے رسولوں کو مذاق میں اڑایا۔
جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے کام بھی اچھے کئے انکے لئے الفردوس کے
باغات کی مہمانی ہے جہاں وہ ہمیشہ رہا کریں گے جس جگہ کو بدلنے کا انکا
کبھی ارادہ ہی نہ ہوگا‘‘( الکھف: 108)۔
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے لہٰذا
شیطان انسان کے تمام کام اسکی نظروں میں صحیح کرکے دکھادیتا ہے اوراسکے دل
میںیہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ تم جو کچھ بھی کر رہے ہو وہ منشاء خداوندی ہے کے
عین مطابق ہے لہٰذا بے فکر ہو جاؤ اور اپنے کام میں لگے رہو !
اس لئے ا نسان ساری زندگی شیطان کے اشاروں پر چلتا ہے اور جو کچھ بھی اسکی
ہدایات کے مطابق کرتا ہے اسے صحیح سمجھتا ہے، صرف اللہ کے وہ خاص بندے جن
پر شیطان کا زور نہیں چلتا وہ اس سے محفوظ رہتے ہیں اور اپنی آخرت کو
سنوارے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔
لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان کھانے پینے اور خواہشات نفسانی کو پورا
کرنے کی اس تکون سے باہر نکلے اور غور فکر کرے کہ میری زندگی کا کوئی اور
مقصد بھی ہے تاکہ روز قیامت اسے اللہ تبارک و تعالیٰ کی
رضا مندی نصیب ہو اور وہ جنت کے اعلیٰ مقامات کو پا سکے۔
|