عورت کی تربیت کیوں ضروری ہے؟

کہا جاتا ہے کہ اگر ایک گھر میں سے ایک لڑکی تعلیم یافتہ ہو جائے تو اس خاندان کی کئی نسلیں سنور جاتی ہیں۔لیکن آج کل کے معاشرے میں ہمیں یہ چیز بالکل نظر نہیں آتی۔آج کل لڑکیوں کے پاس ڈگریاں تو ایم فل کی ہوتی ہیں لیکن ان کو یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ بات کیسے کرنی ہے؟

وہ بالکل بھی اس قابل نہیں ہوتیں کہ اگر ان کو کوئی ذمہ داری دی جائے اور وہ اس کو بطریق احسن پورا کر سکیں۔آج کے تعلیمی ادارے ڈگریا ں تو بانٹ رہے ہیں لیکن بچوں کے اندر جو خوبیاں ہونی چاہیے وہ ہرگز نہیں بانٹ رہے۔تربیت سے آجکل کے اساتذہ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ خاص طور پر بچیوں میں اس چیز کی بہت کمی ہے۔ بچیوں کی تربیت مناسب انداز میں نہیں کی جارہی جس کی وجہ سے ان کے دھوکے میں آنے کے چانسز بہت ذیادہ بڑھ جاتے ہیں۔تھوڑی سی چکنی چپڑی باتیں کرکے لڑکے ان کو باآسانی بلیک میل کر لیتے ہیں۔

گورئمنٹ ای لائبریری اوکاڑہ مین منعقدہ ایک سیمینا ر کے دوران ایک لڑکی نے بتایا کہ اس کے والد نے ان کو نہ صرف اچھی تعلیم دلوائی بلکہ ان کی تربیت بھی اس انداز میں کی کہ جب وہ اپنے گھر کو چلانے کے لیئے جائیں تو ان کے اندر کو ن کون سی خوبیاں ہونی چاہیے۔یہ ساری باتیں ان کے ان کے والد نے بتائیں۔ لیکن ایسا سب والدین نہیں کرتے یا سب استا دنہیں کرتے۔کیا ہمارے اس طرح کے ادارے نہیں ہونے چاہیے جوباقاعدہ بچیوں کی تربیت کریں اور ان کو وہ تما م باتیں بتائیں جو عملی زندگی میں ان کے کام آسکیں۔جواب میں میں نے یہ بتا یا کہ اس طرح کے اداروں کی اشد ضرورت ہے۔ دراصل یہ فرض تعلیم اداروں کا ہے اور دوسرے نمبر پر والدین کا ہے۔لیکن اگر دونوں ہی اس ضمن میں کچھ نہیں کررہے تو پھر ہمیں اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔لڑکیوں کے لیئے باقاعدہ اس طرح کی کلاسز کا آغاز کیا جائے جو بچیوں کو یہ سکھائیں کہ ان کی زندگی میں کیا اہم ہے؟۔برداشت کیا ہوتی ہے؟۔ کس طرح کے لوگوں پر اعتبار کیا جاسکتا ہے اور کس طرح کے لوگوں پر اعتبارنہیں کیا جاسکتا۔کوئی بھی فیصلہ لیتے وقت کن کن باتوں کو مدِنظر رکھنا چاہیے۔اولاد کی تربیت کیسے کرنی ہے؟۔ گھر داری کے اصول کیا ہیں؟۔اپنی عزت کی حفاظت کیسے کرنی ہے؟۔دوست کس طرح کے ہونے چاہیں۔کس بندے سے کیا بات کرنی ہے؟۔ انسانی زندگی میں عبادت کی اہمیت کیا ہے؟۔اپنی قدر میں اضافہ کیسے کرنا ہے؟۔اپنے اخلاق اور عادات واطوار میں کیا بہتری لانی ہے؟۔والدین کا مقام کیا ہے؟۔بھائی اور بہنوں کے حقوق کیا ہیں؟۔گھر سے باہر نکلتے ہوئے کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے؟۔ استا د کا مقا م کیا ہے؟۔استا د سے کس قسم کی گفتگو ہونی چاہیے؟۔ اچھے استا دمیں کون کونسی خوبیا ں ہونی چاہیے؟۔ زندگی کے مقصد کا تعین کیسے کیا جائے؟۔جب مقصد کا تعین کر لیا جائے تو اس کا حصول کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔کونسے شعبے کا انتخاب کیا جائے؟۔

اس کے علاوہ اور بہت سے ایسے سوال ہیں جن کا جواب آج کی بچیوں کو نہیں ملتا۔ ماں باپ کا ہاتھ بٹانے کے لیئے اگر ملازمت کر لی تو ان کی شادی کی عمریں نکل جاتی ہیں۔ اگر اچھی تعلیم حاصل کر لی تو ان کا رشتہ ڈھونڈنا مشکل ہو جاتاہے۔اگر شادی ہو جائے تو گزارہ نہیں ہوتا۔شادی سے پہلے اتنے خواب سجائے ہوتے ہیں کہ جب وہ ٹوٹتے ہیں تو رشتہ ہی ٹوٹ جاتا ہے۔جب عورت بہو بنتی ہے تو سسرال کا فرائض کا اس کو علم نہیں ہوتا۔جب وہی عورت ماں بنتی ہے تو بچوں کی تربیت کا کوئی علم نہیں ہوتا۔شوہر سے کیا کیا حقوق وفرائض لینے ہیں ان کا علم نہیں ہوتا۔ ڈگریوں کے چکرمیں کھانے پکانے کا کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ نئے نئے فیشنو ں کے چکر میں گھر گھرستی کا کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بیٹیاں واقع کامیاب زندگی گزاریں تو تعلیم کے ساتھ ان کی ہر معاملے میں تربیت کا بھی اہتمام ضرورکریں ۔بچی کی اصل تربیت گاہ ماں باپ کا گھر ہوتا ہے۔ اس میں جس طرح کی تربیت اس کو ملے گی یا جس قسم کا ماحول ملے گا وہ ویسے ہی پروان چڑھے گی اور مستقبل میں اُسی قسم کی ماں ،بیوی ،بہواوربہن بنے گی۔

Tanveer Ahmed
About the Author: Tanveer Ahmed Read More Articles by Tanveer Ahmed: 71 Articles with 88906 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.