ایک بار پھر ہندوستان شور مچا رہا ہے کہ پاکستان کشمیر
میں مداخلت کر رہا ہے،پاکستان کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی کاروائیوں میں
عملی طور پر مزاحم ہے، کشمیریوں کے خلاف ہندوستان کی ظالمانہ فوجی
کاروائیوں پر پاکستان وادیلا کیوں کرتا ہے؟ اور یہ کہ پاکستان کشمیر میں
ہندوستان کو 'فری ہینڈ ' کیوں نہیں دیتا؟ ہندوستان کا پاکستان کے خلاف
مداخلت کا یہ الزام بہت پرانا ہے۔ 1948میں بھی بھارت کشمیر میں پاکستان کی
مداخلت کی شکایت لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل گیا تھا اور آج بھی
ہندوستان عالمی برادری سے مطالبہ کر رہا ہے کہ پاکستان کے خلاف کاروائیوں
کرنے کے لئے ہندوستان کا ساتھ دیا جائے۔تاہم70سال بعد بھی عالمی برادری
ہندوستان کے مطالبے کو پوری طرح قبول کرتے نظر نہیں آتی۔
قبائلی لشکر کشمیر داخل ہوا ۔بارہمولہ تک پہنچ گیا۔کشمیر کے تقریبا ڈھائی
ضلعے کے آزاد کردہ علاقوں میں کشمیر کی آزاد حکومت قائم ہو گئی۔انڈین فوج
نے آزاد کردہ علاقوں پر حملہ کیا۔آزاد کشمیر کے لوگوں اور پاکستانی فوج سے
ہندوستانی فوج کی لڑائی ایک سال سے زائد عرصہ جاری رہی۔کشمیر کے محاذ میں
ہندوستان کی فوج کمزور پڑنے لگی۔اس صورتحال میں ہندوستان کشمیر میں پاکستان
کی مداخلت کا الزام لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں چلا گیا۔ سلامتی
کونسل نے دونوں ملکوں کے بیانات اور صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد قرار دیا
کہ کشمیر کے مستقبل کے فیصلے کے لئے کشمیریوں کو رائے شمار ی کا حق دیا
جائے۔دونوں ملکوں نے رائے شماری کے ذریعے فیصلے کو قبول کیا۔لیکن رائے
شماری کے لئے عملی اقدامات کی طرف پیش رفت نہ ہوسکی۔پھر انڈیا کی طرف سے
کشمیر کو اپنے اٹوٹ انگ قرار دینے کی تکرار شروع ہو گئی۔مسئلہ کشمیر اٹکا
رہا، مسئلہ کشمیر لٹکا رہا۔ ہندوستانی زیر انتظام کشمیر میں آزادی کی آتش
چنار جلتی رہی،سلگتی رہی۔
ہندوستان کی بھرپور مداخلت اور پھر بڑے جنگی حملے کے نتیجے میں مشرقی
پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دیا گیا۔اس موقع پرپاکستان کے ساتھ طے پائے شملہ
سمجھوتے میں ہندوستان نے ایک بار پھر عالمی برادری سے عہد کیا کہ کشمیر کا
مسئلہ پاکستان کے ساتھ مزاکرات کے ذریعے حل کیا جائے گا۔لیکن ہندوستان اس
جملے کی تشریح اپنے طور پر کرتے ہوئے اٹوٹ انگ کی پالیسی پر قائم رہا۔دیوار
برلن کے انہدام اور افغانستان میں روس کی شکست اورافغان عوام کی مزاحمت کی
کامیابی نے وادی کشمیر میں سلگتے چناروں کی آگ کو تیز کر دیا۔مسئلہ کشمیر
کے منصفانہ حل کے مطالبے کے ساتھ کشمیریوں کے طاقتورسیاسی مطالبے کو
ہندوستان نے اپنی ریاستی طاقت سے دبانا چاہا ۔سلگتے چنار بھڑک اٹھے اور
گزشتہ تیس سال سے مقبوضہ کشمیر میں مسئلہ کشمیر کے پرامن اور منصفانہ حل کے
مطالبے کے ساتھ ہندوستان کے خلاف کشمیریوں کی سیاسی اور عسکری مزاحمت جاری
ہے۔تیس سال میں کشمیریوں کی اس جدوجہد آزادی میں کئی اتار چڑہائو آئے۔
مزاحمت کی تحریک جاری رہی ۔کشمیریوں کے خلاف ہندوستان کی فوجی کاروائیاں
مسلسل جاری رہیں۔ تین عشروں میں ایک لاکھ سے زائد کشمیری ہندوستانی فوج کے
ہاتھوں مارے گئے۔ہزاروں قید،روز کا تشدد،روز کی تباہی،قید،مظاہرین کے خلاف
پیلٹ گن کابے دریغ استعمال،ہزاروں کشمیری نوجوان،بچے،لڑکیاں متاثر،بینائی
سے محروم۔کشمیریوں کے خلاف ظلم ،زیادتی،تشدد،تباہی،ہلاکتوں کا سلسلہ جاری۔
کشمیری نوجوانوں کی طرف سے سیاسی مزاحمت ترک کر کے عسکری مزاحمت میں شامل
ہونے کا رجحان ایک بار پھر تیز ہونے لگا۔بھارتی فوجی کشمیری نوجوانوں کو
مارتے گئے،مارتے جا رہے ہیں۔
اتنے میں ایک واقعہ ہو گیا۔ ہندوستان کی ایک آرمڈ فورس' سی آر پی ایف' کی
ڈھائی ہزار کی نفری ستر گاڑیوں میں جموں سے کشمیر وادی جا رہی تھی تا کہ
کشمیری عوام کے خلاف فورسز کی کاوائیوں کا سلسلہ معمول کے مطابق جاری
رہے۔سرینگر سے چند کلومیٹر پہلے ہی کشمیر کے جنوبی علاقے میں حملہ ہو گیا
جس میں 50بھارتی فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔بھارت اس حملے کا الزام
پاکستان پر لگاتے ہوئے چیخنے لگا،چلانے لگا کہ اب جنگ ہو گی ،اب حملہ ہو
گا۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں انسانیت کی نئی تعریف وضع کی گئی ہے جس
کے مطابق فوج کے ہاتھوں شہریوں کی ہلاکتیں قابل تشویش نہیں لیکن شہریوں کو
ہلاک کرنے والے فوجیوں کی ہلاکتیں تشویشناک ہیں۔1947-48کی جنگ کشمیر میں
ہندوستان سلامتی کونسل جا پہنچا تھا ،اب بھارت خود پاکستان کے خلاف الزامات
لگاتے ہوئے جنگ کی باتیں کرتے ہوئے ہر طرح کے اقدامات کر رہا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پلوامہ حملے کے بعد پاکستان اور انڈیا کے مابین
بڑھتی کشیدگی کے تناظر میں دونوں ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ مل کر مسائل کا
حل تلاش کریں جبکہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی کشیدگی کم کرنے کے
لیے اپنی خدمات پیش کی ہیں۔'بی بی سی' کے مطابق منگل کو وائٹ ہائوس میں
صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ ہمیں اس بارے میں بہت سی
رپورٹس ملی ہیں۔ صورتحال خوفناک ہے، تاہم بہتر ہو گا اگر دونوں ملک مل بیٹھ
کر اس مسئلے کو حل کریں۔اس سے پہلے امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رابرٹ
پیلاڈینو نے ایک بریفنگ میں پلوامہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ
پاکستان سے تعلق رکھنے والی دہشت گرد تنظیم جیش محمد نے اس حملے کی ذمہ
داری قبول کی ہے اور ہم تمام ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اقوامِ متحدہ
سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق اپنی ذمہ داریاں نبھائیں اور دہشتگردوں
کی پشت پناہی نہ کریں اور ان کی پناہ گاہیں ختم کریں۔اقوام متحدہ کے
سیکرٹری جنرل اینٹونیو گوٹیریس نے بھی پاکستان اور انڈیا کے مابین کشیدگی
پر تشویش کا اظہار کیا ہیسیکریٹری جنرل نے دونوں ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ
کشیدگی کم کرنے کے لیے فوری اقدادمات اٹھائیں۔ انھوں نے اس سلسلے میں اقوام
متحدہ کی خدمات اور تعاون کی بھی پیشکش کی ہے۔
مسئلہ کشمیر کے تاریخی واقعات اس بات کے گواہ ہیں کہ کشمیریوں کے خلاف
ہندوستان کی فوجی کاروائیوں کے جواب میں پاکستان خاموش تماشائی بن کر نہیں
رہ سکتا۔کشمیر میں ہندوستان کافوجی چیلنج قبول کرنا پاکستان کے لئے اپنی
سلامتی اور بقاء سے منسلک معاملہ ہے۔ہندوستان مسئلہ کشمیر پرامن طور پر حل
کرنے کے اپنے بار بار کے عہد کی تکمیل میں ناکام ہی نہیں بلکہ منکر نظر آتا
ہے۔عالمی برادری اور عالمی طاقتیں ہندوستان کی حمایت کے باوجود اس حقیقت کا
ادراک رکھتی ہیں کہ دونوں ملکوں کو کشمیر کے مسئلے کو باہمی مزاکرات سے حل
کرنا ہی ہو گا۔اب ایسا پرامن طور پر ہوتا ہے یا قتل و غارت گری کی جنگی
تباہیوں کے بعد،بہر حال فیصلہ پھر بھی مزاکرات کی میز پر ہی ہو گا۔اگر
ہندوستان یہ سمجھتا ہے کہ وہ جنگی و دیگر کاروائیوں سے پاکستان کو کمزور
پوزیشن میں لا کر مسئلہ کشمیر سے متعلق اپنی مرضی کے فیصلوں پر مجبور کر
سکتا ہے تو ایسی خواہش خلاف حقیقت نظر آتی ہے۔ہندوستان سنگین دھمکیوں کے
باوجود پاکستان کو خوفزدہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔افغانستان چالیس سال کی
جنگی تباہ کاریوں کے بعد اب معاملات طے کرنے کے مزاکرات کی راہ پہ نظر آتا
ہے لیکن برصغیر کا خطہ جنگی تباہ کاریوں کی تاب لانے کی سکت نہیں رکھتا۔ |