دو عشرے قبل ایک طیارے کے اغوا کے واقعے کو دنیا نے آٹھ
روز تک ایسے دیکھا کہ ہر کوئی خوف زدہ تھا۔ انڈین ایئرلائنز کی اس مسافر
پرواز کی ہائی جیکنگ کے نتیجے میں بھارت تین کشمیری عسکریت پسند رہا کرنے
پر رضا مند ہو گیا تھا۔
|
|
یہ 1999ء کی بات ہے کہ بھارت کی انڈین ایئر لائنز کے ایک مسافر طیارے کو
اغوا کر کے اس کا رخ افغانستان کی طرف موڑ دیا گیا تھا۔ ہائی جیکروں کے
مطالبات واضح تھے۔ اس واقعے کو اس کے اختتام تک پہنچنے میں آٹھ دن لگے تھے،
اور ان آٹھ دنوں کے دوران ہر کوئی خوف زدہ ہی تھا کہ اب کیا ہو گا؟ پھر نئی
دہلی حکومت تین کشمیری عسکریت پسندوں کو رہا کرنے پر آمادہ ہو گئی تھی۔
بیس سال پرانے فیصلے کی قیمت
آج بیس برس بعد بھارت کو اپنے اس فیصلے کی قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔ ان تین
رہا کیے گئے کشمیری عسکریت پسندوں میں سے ایک کا نام مسعود اظہر تھا۔ بعد
میں مسعود اظہر نے جیش محمد کے نام سے ایک ایسے عسکریت پسند گروہ کی بنیاد
رکھی، جو اب تک بھارت کے زیر انتظام کشمیر اور بھارت میں کئی مسلح حملوں کی
ذمے داری قبول کر چکا ہے۔
ان میں سے تازہ ترین حملہ گزشتہ ہفتے پلوامہ میں کیا جانے والا وہ خود کش
کار بم حملہ تھا، جس میں بھارت کے 40 سے زائد نیم فوجی سکیورٹی اہلکار مارے
گئے تھے۔ یہ حملہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ تین عشروں کے دوران
آج تک کا سب سے ہلاکت خیز حملہ ثابت ہوا تھا۔
پلوامہ حملے کا نتیجہ
چودہ فروری کو کیے گئے پلوامہ کے دہشت گردانہ حملے کے بعد سے ایک دوسرے کی
حریف ہمسایہ ایٹمی طاقتوں پاکستان اور بھارت کے مابین دیرینہ کشیدگی ایک
بار پھر اپنی انتہائی حد تک پہنچ چکی ہے۔ اس لیے کہ جیش محمد ایک ایسی
عسکریت پسند تنظیم ہے، جو پاکستان میں قائم کی گئی تھی اور جو بھارت کے زیر
انتظام کشمیر میں مسلح کارروائیاں کرنے والے بڑے گروہوں میں سے ایک ہے۔
|
|
پاکستان نے جیش محمد کو قانونی طور پر تو اپنے ہاں ممنوع قرار دے رکھا ہے
لیکن کئی ماہرین کہتے ہیں کہ جیش محمد اور ایسی ہی دیگر عسکریت پسند
تنظیمیں وہ ذرائع ہیں، جن کی مدد سے پاکستان مبینہ طور پر بھارت کے زیر
انتظام کشمیر میں ہلاکت خیز واقعات کی وجہ بنتا رہتا ہے۔ پاکستان اپنے خلاف
بھارت کے ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
مسعود اظہر پاکستان میں
مسعود اظہر کے بارے میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ انہیں بین الاقوامی
برادری نے کبھی بھی دہشت گرد قرار نہیں دیا۔ ان کے بارے میں عمومی رائے یہی
ہے کہ وہ پاکستان میں ہی موجود ہیں۔ مسعود اظہر حقیقتاﹰ اس وقت کہاں ہیں،
یہ بات کوئی بھی تیقن سے نہیں کہہ سکتا۔ لیکن امریکی محکمہ خزانہ کے مطابق
مسعود اظہر پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع بہاولپور میں مقیم ہیں۔
پاکستان کے ایک سکیورٹی تجزیہ نگار عامر رانا کے مطابق مسعود اظہر 1968ء
میں پاکستانی صوبہ پنجاب ہی کے رہنے والے ایک اسکول ٹیچر کے گھر پیدا ہوئے
تھے۔ وہ مبینہ طور پر پہلی بار بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پرتگال کے
ایک پاسپورٹ کے ساتھ داخل ہوئے تھے اور وہاں انہوں نے متعدد عسکریت پسند
گروپوں سے رابطے قائم کیے تھے۔
بعد میں مسعود اظہر سری نگر کی سڑکوں اور گلیوں میں نظر آنے والی ایک جانی
پہچانی شخصیت بن گئے اور اپنی شعلہ بیانی کے باعث بہت مشہور ہو گئے تھے۔
عامر رانا کے مطابق سری نگر میں مسعود اظہر نے کئی عسکریت پسند گروپوں کے
مابین رابطہ کاری بھی کی تھی، جس کے بعد بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں نئی
دہلی کی حکمرانی کے خلاف مسلح جدوجہد قدرے منظم اور زیادہ واضح ہو گئی تھی۔
بھارتی جیل سے فرار کی کوشش
مسعود اظہر کو بھارتی حکام نے دہشت گردی کے الزامات میں 1994ء میں گرفتار
کر لیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس دوران یہ عسکریت پسند رہنما اپنی جیل کے
حکام کو اکثر کہا کرتا تھا کہ وہ اسے زیادہ عرصے تک سلاخوں کے پیچھے نہیں
رکھ سکیں گے۔
ایک سابق سکیورٹی اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ جیل میں قید کے دوران جب
چند قیدیوں نے فرار ہونے کے لیے ایک سرنگ کھودی تو مسعود اظہر کا کہنا تھا
کہ اس سرنگ کو استعمال کرتے ہوئے پہلے باہر وہ نکلیں گے۔ لیکن وہ ایک بھاری
بھرکم جسم کے مالک ہونے کی وجہ سے اس سرنگ میں پھنس گئے تھے اور یوں بھارت
کی اس جیل سے قیدیوں کے فرار کا پورا منصوبہ ہی ناکام ہو گیا تھا۔
1999ء میں انڈین ایئرلائنز کی جس مسافر پرواز کو ہائی جیک کیا گیا تھا، وہ
نیپال میں کھٹمنڈو سے نئی دہلی جا رہی تھی۔ ہائی جیکنگ کا یہ واقعہ کرسمس
کے تہوار سے ایک شام قبل چوبیس دسمبر کو پیش آیا تھا۔ پھر یہ طیارہ
افغانستان کے شہر قندھار لے جایا گیا تھا، جہان اس وقت طالبان کی حکومت تھی۔
بن لادن اور ملا عمر سے ملاقاتیں
کہا جاتا ہے کہ اس طیارے کو ہائی جیک کرنے والوں میں سے ایک ابراہیم اطہر
تھا، جو مسعود اظہر کا چھوٹا بھائی تھا۔ عامر رانا کے بقول جیل سے اپنی
رہائی اور بھارت سے رخصتی کے بعد جب مسعود اظہر کو افغانستان پہنچایا گیا،
تو وہاں اس عسکریت پسند لیڈر نے القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن اور طالبان
تحریک کے بانی رہنما ملا عمر سے بھی ملاقاتیں کی تھیں۔
مسعود اظہر نے جیش محمد کی بنیاد 2000ء میں رکھی تھی۔ اس کے صرف ایک سال
بعد اس گروپ نے بھارت میں اس مسلح حملے کی ذمے داری قبول کر لی تھی، جو نئی
دہلی میں ملکی پارلیمان پر کیا گیا تھا اور جس میں دس افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تب اسی واقعے کے باعث پاکستان اور بھارت تقریباﹰ ایک جنگ کے دہانے پر پہنچ
گئے تھے۔
بھارتی پارلیمان پر حملے کے بعد مسعود اظہر کو پاکستان میں گرفتار کر کے ان
کے گھر پر نظر بند کر دیا گیا تھا۔ لیکن پھر لاہور کی ایک عدالت نے 2002ء
میں ان کے خلاف الزامات کے شواہد نہ ہونے پر ان کی رہائی کا حکم دے دیا تھا۔
امریکا پر نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد جب پاکستانی عسکریت
پسندوں نے اپنی بندوقوں کا رخ پاکستانی ریاست کی طرف موڑ دیا تھا، تو مسعود
اظہر ان چند لوگوں میں شامل تھے، جنہوں نے اس وقت اپنے لیے غیر محسوس انداز
میں موجودگی اور نمایان نہ ہونے کو ترجیح دی تھی۔
بھارتی فوجی اڈے پر حملہ
جیش محمد نے 2016ء میں جب ایک بار پھر بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایک
بڑے حملے کی ذمے داری قبول کی تھی، تو بھارت کو ایک بار پھر پاکستان کی طرف
اشارے کا موقع مل گیا تھا۔ یہ حملہ کشمیر میں ایک فوجی اڈے پر کیا گیا تھا،
جس میں کم از کم سات بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔
مسعود اظہر کے لیے گھر پر نظر بندی یا ’حفاظتی حراست‘ کوئی نئی بات نہیں ہے۔
لیکن انہیں آج تک باقاعدہ طور پر کبھی گرفتار نہیں کیا گیا۔ گزشتہ برس
جولائی میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں اپنے
حامیوں سے کسی نامعلوم جگہ سے ٹیلی فون پر اپنے خطاب میں مسعود اظہر نے کہا
تھا کہ ان کے پاس ایسے سینکڑوں عسکریت پسند موجود تھے، جو لڑتے لڑتے اپنی
جانیں تک قربان کر دینے کے لیے بالکل تیار تھے۔ اس تقریر کے بعد سے کسی نے
مسعود اظہر کے بارے میں کچھ نہیں سنا۔
اقوام متحدہ میں چین کا ویٹو
جیش محمد پر پاکستان کے علاوہ اقوام متحدہ اور بھارت نے بھی قانونی پابندی
لگا رکھی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے تو اس گروہ کو اپنی دہشت گرد تنظیموں
کی فہرست میں بھی شامل کر رکھا ہے۔ بھارت نے اقوام متحدہ کی سطح پر کئی بار
یہ کوشش بھی کی تھی کہ مسعود اظہر کو عالمی ادارے کی طرف سے دہشت گرد قرار
دے دیا جائے، لیکن سلامتی کونسل میں بھارت کی اس کاوش کو ہر بار پاکستان کے
دوست ہمسایہ ملک چین نے ناکام بنا دیا تھا۔
|
Partner Content: DW
|