پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ انڈیا کے جنگی طیاروں نے منگل
کو علی الصبح پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے اور پاکستانی
طیاروں کے فضا میں آنے کے بعد وہ اپنا ’پے لوڈ‘ گرا کر واپس چلے گئے۔
|
|
پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے ٹوئٹر
پر اپنے پیغامات میں بتایا کہ انڈین فضائیہ کے طیاروں نے مظفر آباد کے پاس
لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی، لیکن پاک فضائیہ کی جوابی کارروائی کے
نتیجے میں وہ واپس چلے گئے۔
میجر جنرل آصف غفور نے یہ دعویٰ بھی کیا پاکستان کی جانب سے جوابی کارروائی
کے نتیجے میں انڈین فضائیہ کے طیاروں نے اپنا 'پے لوڈ' (جہاز پر موجود گولہ
بارود) بالاکوٹ کے نزدیک گرا دیا، لیکن اس سے کوئی جانی اور مالی نقصان
نہیں ہوا۔
انڈین حکام کی جانب سے تاحال اس الزام پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا تاہم
فضائیہ کے حوالے سے خبر رساں ادارے اے این آئی کی خبر میں لائن آف کنٹرول
کے پار کارروائی کی تصدیق کی گئی ہے۔
|
|
فوجی ترجمان کی پہلی ٹویٹ پاکستانی وقت کے مطابق صبح پانچ بجے کے قریب کی
گئی جس میں انھوں نے کہا کہ انڈین طیاروں نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی
کی ہے اور اس کی تفصیلات سے جلد آگاہ کیا جائے گا۔
اس کے کچھ دیر بعد ترجمان نے اپنے دوسرے پیغام میں اس واقعے کی مزید
تفصیلات دیں۔
یہ سنہ 1971 کے بعد پہلا موقع ہے کہ انڈین جنگی طیارے پاکستانی حدود میں
داخل ہوئے ہیں۔
صحافی زبیر خان کے مطابق ضلع مانسہرہ کے علاقوں بالاکوٹ، گڑھی حبیب اﷲ،
جابہ کے مقامی شہریوں نے بتایا ہے کہ انھوں نے منگل کی صبح تین سے چار بجے
کے درمیاں چار سے پانچ زوردار دھماکوں کی آوازیں سنی ہیں۔
بالاکوٹ اور مانسہرہ کے تھانوں کے اہلکاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر
تصدیق کی ہے کہ تین اور چار بجے کے درمیان عوام نے دھماکوں کی آوازیں سنی
ہیں اور لوگ ٹیلی فون کر کے تھانے سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
یہ واضح نہیں کہ انڈین طیاروں نے اپنا اسلحہ اور اضافی سامان کس مقام پر
گرایا تاہم اس وقت بالاکوٹ اور مانسہرہ کے درمیان جابہ ٹاپ کے علاقے میں
سکیورٹی اداروں کا سرچ آپریشن جاری ہے اور اس پورے علاقے میں ہائی الرٹ ہے-
|
|
تھانہ بالاکوٹ کے ذرائع نے بتایا ہے کہ چار بجے کے قریب مانسہرہ اور
بالاکوٹ کی حدود میں واقع جابہ ٹاپ پر دھماکوں اور طیاروں کی نچلی پرواز کی
آوازیں سنائی دی گئیں تاہم جب پولیس اہلکار جابہ ٹاپ پر پہنچے تو وہاں پہلے
ہی سے سکیورٹی اہلکار موجود تھے جنھوں نے انھیں واپس بھیج دیا۔
انڈین فضائیہ کا ایل او سی کے پار بمباری کا دعویٰ
دہلی میں بی بی سی اردو کے نامہ نگار شکیل اختر کے مطابق انڈین فضائیہ یا
وزارت دفاع کی جانب سے ابھی تک باضابطہ طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا
ہے تاہم انڈین خبر رساں ایجنسی اے این آئی نے انڈین فضائیہ کے حوالے سے کہا
ہے کہ میراج جنگی طیاروں نے ’کنٹرول لائن کے پار دہشت گردی کے ایک بڑے کیمپ
کو تباہ کر دیا ہے۔‘
اے این آئی کے مطابق منگل کی صبج ساڑھے تین بجے انڈین فضائیہ کے 12 میراج
2000 طیاروں نے ایل او سی کے پار ایک بڑے ’دہشت گرد کیمپ‘ پر بمباری کی اور
اسے مکمل طور پر تباہ کر دیا ۔
خبر میں مزید بتایا گیا ہے کہ اس حملے میں ایک ہزار کلو گرام وزنی بم
استعمال ہوئے تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ بمباری کس علاقے میں کی گئی ہے۔
|
|
اوڑی حملہ اور سرجیکل سٹرائکس
یہ پہلا موقع نہیں کہ انڈیا کی جانب سے اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہونے
والے کسی واقعے کے بعد ایل او سی کے پار کارروائی کا دعویٰ کیا گیا ہو۔
ستمبر 2016 میں ایل او سی کے قریب شمالی کشمیر کے قصبے اُوڑی میں ایک فوجی
چھاؤنی پر ہونے والے مسلح حملے میں 20 فوجیوں کی ہلاکت کے دس روز بعد انڈیا
نے پاکستان کی حدود میں ’سرجیکل سٹرائیکس‘ کا دعوی کیا، تاہم پاکستان نے اس
کی تردید کی تھی۔
لائن آف کنٹرول کی یہ حالیہ خلاف ورزی بھی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب
دونوں ممالک کے مابین تعلقات پلوامہ خودکش حملے کے بعد تقریباً دو ہفتوں سے
انتہائی کشیدہ ہیں۔
پلوامہ حملہ اور پاکستان پر الزام
14 فروری کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے اس خود کش حملے میں
انڈیا کے نیم فوجی دستے سی پی آر ایف کے 40 سے زیادہ اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
انڈیا کی جانب سے 14 فروری کو ہونے والے واقعے میں پاکستان کو مورد الزام
ٹھہرایا گیا تھا لیکن پاکستان نے اس کی سختی سے تردید کی ہے۔
انڈیا کی جانب سے لگائے گئے الزام کے نتیجے میں پاکستانی وزیر اعظم عمران
خان نے 19 فروری کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے انڈیا کو پلوامہ میں نیم فوجی
اہلکاروں پر ہونے والے خودکش حملے کی تحقیقات میں مکمل تعاون کی پیشکش کرتے
ہوئے متنبہ کیا کہ اگر انڈیا نے پاکستانی سرزمین پر کارروائی کی تو پاکستان
اس کا منھ توڑ جواب دے گا۔
وزیر اعظم پاکستان کا کہنا تھا کہ انڈیا کو سمجھنا چاہیے کہ پاکستان کو اس
حملے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
'میں انڈیا کی حکومت کو پیشکش کر رہا ہوں۔ آپ تحقیقات کروانا چاہتے ہیں کہ
کوئی پاکستانی اس میں ملوث تھا تو ہم تیار ہیں۔'
انھوں نے کہا کہ 'کوئی قابلِ کارروائی خفیہ اطلاعات ہیں کہ پاکستانی ملوث
ہیں وہ ہمیں دیں۔ میں آپ کو ضمانت دیتا ہوں کہ ہم ایکشن لیں گے اور اس لیے
نہیں لیں گے کہ ہم پر دباؤ ہے بلکہ اس لیے کہ ایسا کرنے والے ہم سے دشمنی
کر رہے ہیں۔'
اس کے بعد 22 فروری کو پاکستانی فوج کے ترجمان نے بھی کہا کہ جب بھی
پاکستان میں کچھ اہم واقعات ہونے والے ہوتے ہیں تو انڈیا یا کمشیر میں ایسے
واقعات ہو جاتے ہیں۔
انھوں نے کہا انڈیا کو سوچنا چاہیے کہ آخر کشمیریوں میں موت کا خوف کیوں
ختم ہو گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے انڈیا کی جانب سے فوری الزامات کا
جواب دینے کے لیے کچھ وقت لیا کیونکہ ہم اپنی تحقیقات بھی کرنا چاہتے تھے۔
جیش محمد کا اعتراف
یاد رہے کہ شدت پسند گروپ جیش محمد نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی اور
مبینہ طور پر پلوامہ حملے کے کچھ دیر بعد جیش محمد کی جانب سے ایک ویڈیو
جاری کی گئی جس میں مبینہ حملہ آور، عادل ڈار نامی ایک نوجوان کشمیر میں
مسلمانوں کے خلاف جاری ظلم و بربریت کے بارے میں بات کرتا دکھائی دیتا ہے۔
|
|
ویڈیو میں اس مبینہ حملہ آور کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ وہ گزشتہ سال اس
کالعدم تنظیم کا حصہ بنے جس کے بعد انہیں اس حملے کے ذمہ داری سونپی گئی۔
انہوں نے کہا کہ اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے تک وہ ’جنت میں پہنچ چکے‘ ہوں
گے۔ |