ہم نے پاکستان کو کیا دیا

ہم نے پاکستان کو کیا دیا – جب بھی میں یہ بات سوچتا ہوں اور یاد کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو اپنے دل و دماغ کو بالکل خالی پاتا ہوں کیونکہ ابھی تک میں خصوصاً اپنی بات کروں گا کہ اس ملک کو کچھ بھی نہیں دے پایا جو کچھ دینے کا میرا حق ہے حالانکہ اس ملک نے مجھے کیا نہیں دیا ایک پہچان دی، ایک اچھا گھر، شناخت ، شان سے چلنے کا مان اور سب سے بڑی آزادی کی نعمت ملی ہے مجھے اس ملک سے ۔ لیکن میں نے ان سب نعمتوں کے بدلے میں اس کو کیا دیا بلکہ میں تو اس ملک کے خلاف سوچتا ہوں یعنی جس ملک نے مجھے پہچان، اچھا گھر، عزت کی روزی، شان سے اور عزت سے رہنے کا ڈھنگ اور آزادی دی ہے میں اس ملک کو چھوڑنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں اور میری کوشش یہی ہے کہ مجھے جلد سے جلد کسی یورپی ملک کا ویزا ملے اور میں یہاں سے چلا جاؤں ۔

کچھ ماہ پہلے کی بات ہے میرے ایک عزیز جو کہ کسی یورپی ملک میں ہوتے ہیں ان کا پاکستان آنا ہوا اور ان سے ملاقات ہوئی تو باتوں باتوں میں پاکستان اور یورپی ممالک کا موازنہ شروع ہوگیا ۔ میرا کہنا تھا کہ ہمارے پاکستان میں کچھ بھی نہیں ہے یہ ملک رہنے کے قابل ہی نہیں ہے یہاں جتنی بھی محنت کرو سب فضول ہے میں بڑے جوش میں تقریر کررہا تھا اور میرے وہ عزیز بہت غور سے میری طرف دیکھ رہے تھے جب میں‌ زرا سانس لینے کو رُکا تو وہ گویا ہوئے کہ تم بالکل نادان ہو، مجھے بہت ترس آتا ہے تمہارے جیسے لوگوں پہ پتہ نہیں ‌تم لوگوں نے یورپ کو کیا سمجھ رکھا ہے بھائی میرے دور کے ڈھول ہمیشہ سُہانے ہوتے ہیں ۔تم کیا سمجھتے ہو کہ وہاں پہ پیسہ درختوں پہ اُگتا ہے کہ ہم لوگ گئے اور جتنا جی چاہا توڑ لائے ۔ اس نے کہا کہ تم لوگ خوش قسمت ہو کہ یہاں آزادی سے رہ رہے ہو اچھی جاب کرتے ہو ، اپنوں کے ساتھ وقت گزارتے ہو ہر کا م کرنے کی آزادی حاصل ہے تم لوگوں کو ۔ میں نے اس کو ملک کے موجودہ حالات کی طرف موڑا اور کہا کہ بھائی بتاؤ اتنا کچھ ہو رہا ہے اس ملک میں آئے دن کہیں نا کہیں خود کش دھماکہ ہورہا ہے ، اپنے اپنوں کے خون کے پیاسے ہورہے ہیں ، غریب کی یہاں کوئی نہیں سنتا بس وہ حساب ہے کہ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس۔

اس پر اس نے جواب دیا کہ جو کچھ بھی ہے گھر تو آخر اپنا ہے اور اپنا گھر اس وقت مصیبت میں ہے پریشانی میں ہے جو کہ ہمارے دشمن کی چال ہے تو کیا ہم ایسے میں اپنے گھر کو چھوڑ کر چلے جائیں۔ اور اگر تم یورپ کے کسی ملک میں چلے جاتے ہو تو کیا سمجھتے ہو کہ تمہیں وہاں پہ سکون مل جائے گا۔ بلکہ تمہارا وہاں رہنا مشکل ہوجائے گا وہ لوگ مسلمانوں کے خلاف ہیں اور مسلمانوں کو دہشت گرد کہتے ہیں۔

قصہ مختصر کہ اس کے ساتھ کافی بات چیت ہوئی اس موضوع پہ اور بعد میں جب میں‌ نے اس کی باتوں کے بارے میں سوچا اور اپنے بارے میں اپنے ملک کے بارے میں سوچا تو مارے ندامت کے میری آنکھوں سے اشک جاری ہوگئے کہ میں اس ملک کو چھوڑنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں اس گھر کو چھوڑنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں جس کو ہمارے بزرگان نے بےپناہ قربانیوں کے بعد حاصل کیا تھا تاکہ ہم یہاں آزادی سے رہ سکیں۔ یہ ملک یہ گھر جو کہ ہمارے بزرگان نے اپنی قیمتی جانیں دے کر حاصل کیا ہے اس امید کے ساتھ کہ ان کی آنے والی نسلیں یعنی کہ ہم لوگ اس ملک کو ترقی کی شاہراہ پہ گامزن کریں گے۔ لیکن ہم تو اپنے آپ کے ساتھ مخلص نہیں ہیں تو اس ملک کے ساتھ کیا وفا کریں گے۔۔۔۔
Adnan Shahid
About the Author: Adnan Shahid Read More Articles by Adnan Shahid: 14 Articles with 19044 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.