انسان دولت کے لئے جیتا ہے۔ دولت
کماتا ہے اور صحت گنواتا ہے۔ ایک دن جب وہ بیمار ہوتا ہے تو پھر یہ دولت
صحت حاصل کرنے لئے دونوں ہاتھوں سے لٹا تا ہے۔
دنیا کے امیر ترین افراد میں شامل اور کمپیوٹر سافٹ وئر کمپنی مائیکرو سافٹ
کے سربراہ بل گیٹس ابھی اس منزل پر تو نہیں آئے ہیں۔ لیکن انھوں اپنی جمع
شدہ دولت کو خیراتی کاموں میں خرچ کرنا شروع کر دیا ہے۔ انھوں نے ریٹائر ہو
نے کا اعلان کیا ہے۔ بل گیٹس اب اپنا زیادہ تر وقت خیراتی کاموں میں صرف
کرنا چاہتے ہیں۔
تاہم وہ مائیکروسافٹ کے چئرمین رہیں گے لیکن صرف خاص پروجیکٹ پر کام کریں
گے۔جوانی میں گیٹس کا خواب تھا کہ ہر گھر میں ایک کمپیوٹر ہو اور انہوں نے
اس خواب کی تعبیر کے لیے کام کیا۔ ایک مشہور وکیل کے بیٹے گیٹس نے خود اپنا
کمپیوٹر پروگرام تیرہ سال کی عمر میں بنایا۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں انہوں نے
کمپیوٹر پروگرامنگ کی صلاحیت کو اور نکھارا۔ انہوں نے یونیورسٹی چھوڑ کر
اپنے بچپن کے دوست پال ایلن کے ساتھ نیو میکسکو میں مائیکروسافٹ کمپنی
بنائی۔ ان کو پہلی کامیابی انیس سو اسی میں ہوئی جب انہوں نے آئی بی ایم کے
ساتھ ایم ایس ڈوس کامعاہدہ کیا۔ باون سال کی عمر میں گیٹس دنیا کے امیر
ترین شخص ہیں۔ بل گیٹس کے پاس 82 ارب ڈالر ہیں اور اپنی دولت کو اپنے ایک
فلاحی ادارے کے ذریعے انسانوں کی فلاح کے لئے خرچ کر رہے ہیں۔ یوںبل گیٹس
دنیا کے سب سے امیر آدمی ہی نہیں بلکہ سب سے بڑے خیرات کرنے والے بھی ہیں
انہوں نے "بل اینڈ ملینڈا فاؤنڈیشن - Bill and Melinda Gates Foundation "
بنائی ہے جس کا بجٹ 60 ارب ڈالر ہے جو کہ جنوبی بھارت کی دو مکمل ریاستوں
کرناٹک اور آندھراپردیش کی سالانہ آمدنی کے برابر ہے۔گزشہ سال بل گیٹس نے
آئندہ 10 سالوں کو ویکسینز کی دہائی کے نام سے موسوم کیا تھا،آج سے دس سال
بعد کی ایک ایسی دنیا کا تصور پیش کیا تھا۔جہاں عالمی صحت کمیونٹی ہر ضرورت
مند بچے کو زندگی – بچانے والی ویکسین فراہم کرنے کے لیے یکجا ہوجائے اور
ان ویکسینز کی فراہمی اور تیاری میں سرمایہ فراہم کرے۔ جس کی اشد ضرورت ہے۔
گیٹس نے تحریر کیا کہ “ہر کوئی میدان میں نہیں اتر سکتا یا عطیہ تک نہیں
کرسکتا۔ لیکن ہم میں سے ہر ایک ان لوگوں کا وکیل ہو سکتا ہے جن کی آوازیں
اکثر نہیں سنی جاتیں۔ میں لوگوں کو درپیش مشکلات کے حل کے لیے کام کرنے میں
شمولیت پر ہر ایک کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں۔یہ زندگی کے لیے اپنی طرف متوجہ
کرے گا۔”۔ بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کے شریک چیئر بل گیٹس نے کچھ عرصے
پہلے جاری کردہ اپنے تیسرے سالانہ خط میں پولیو کے خاتمے اور بچوں میں وسیع
پیمانے پر حفاظتی ٹیکوں کے معاملے پر اظہار خیال کیا تھا۔ان کی ذاتی
ترجیحات پر مبنی خط میں ایک کٹھن اقتصادی ماحول کا سامنا کرنے کرتے ہوئے
حکومت سے غیر ملکی امداد میں سرمایہ کاری کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس
خط میں بل گیٹس نے تحریر کیا کہ “اگر معاشرے افراد کو بنیادی صحت فراہم
نہیں کرسکتے، اگر یہ افراد کو خوراک اور تعلیم نہیں دے سکتے تو ان کی آبادی
اور مسائل بڑھیں گے اور دنیا ایک غیر مستحکم جگہ بن جائے گی۔ خواہ آپ
اخلاقی ضرورت پر یقین رکھتے ہوں یا امیر دنیا کے ذاتی مفاد روشن رکھنے میں،
حالات کی حفاظت جو ہر ایک کے لیے ایک صحت مند، کامیاب مستقبل کی طرف لے
جائے میرے خیال میں ایک ایسا مقصد ہے جس پر ہم سب اتفاق رکھتے ہیں۔” بل
گیٹس نے امریکا کے اسکولوں کی مسلسل بہتری کی ضرورت پر بھی زور دیا اور ماں
اور بچے کی صحت، ملیریا، ایچ آئی وی / ایڈز اور زراعت کے لیے مزید رہنمائی،
جدت اور سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اس خط میں بلگیٹس نے ویکسین
کیاہمیت اور پولیو کے خاتمے کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ بچپن کے حفاظتی
ٹیکوں کی عالمی جدوجہد کے نتیجے میں پولیو 99 فیصد تک ختم ہوا اور اب یہ
مرض صفحہ ہستی سے مٹنے والا ہے۔ گیٹس کا کہنا ہے کہ “پولیو سے چھٹکارا حاصل
کرنے کا مطلب ہے کہ کوئی بچہ اس مرض سے مفلوج یا معذور نہیں ہوگا۔ انسانی
حالات میں کوئی اہم پیش قدمی کے لیے حل اور دلیر قیادت کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہم بہت قریب ہیں، لیکن ہمیں اس سفر کے آخری مرحلے کو ختم کرنا ہوگا۔”
بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے سائنسی دنیا کے مختلف 78 پراجیکٹس کے لئے
اربوں ڈالر مختص کرنے کا اعلان کیا ہے۔ فاؤنڈیشن کی جانب سے چونتیس ارب
ڈالر جن سائنسی منصوبوں پر خرچ کئے جائیں گے ان میں مختلف بیماریوں کے لئے
مدافعتی ویکسین کی تیاری نمایاں ہے۔ ان منصوبوں میں خاص طور پر عالمی سطح
پر حیاتیاتی منصوبوں کو فوقیت دی گئی ہے۔ فاؤنڈیشن کی جانب سے یہ بھی اعلان
کیا گیا ہے کہ جن اٹھہتر منصوبوں کی نشاندہی کی گئی ہے، ان کی ریسرچ کی
حیثیت کو جانچتے ہوئے بعد میں اضافی ایک لاکھ ڈالر بھی دیے جا سکتے ہیں۔جن
مختلف تحقیقی منصوبوں کے لئے مالی عطیے کا اعلان کیا گیا ہے، ان میں ملیریا
بخار کی تصدیق کا کم لاگتی طریقہ کار،کیڑوں سے نشانوں کو ختم کرنے کا عمل،
لیزر ویکسین کے ذریعے پیراسائٹس کی تباہی وغیرہ شامل ہیں۔ فاؤنڈیشن نے بعض
ریسرچ پراجیکٹس کو انتہائی اختراعی قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ یہ
مستقبل میں قابل عمل ہو کر انسانی جان بچانے میں معاونت کریں گے۔ان ریسرچ
پراجیکٹس کا انتخاب ایک مقابلے کے ذریعے کیا گیا تھا۔ ان میں دنیا بھر سے
مختلف ملکوں سے ریسرچ منصوبے فاؤنڈیشن کو جمع کروائے گئے تھے۔ کامیاب
اداروں کا تعلق اٹھارہ ملکوں سے ہے۔ ان ممالک کی یونیورسٹیوں کے علاوہ
ریسرچ انسٹیٹیوٹس اور چند غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے اپنے اپنے ریسرچ
پراجیکٹس کو کامیاب منصوبوں میں شامل کیا گیا ہے۔ ان ممالک میں جرمنی بھی
شامل تھا۔
بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کیا ہے۔
ہر زندگی یکساں اہمیت کی حامل ہے، اس یقین کے ذریعے اپنی راہیں متعین کرنے
والی بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن دنیا بھر کے افراد کو صحت مند و سیر
حاصل زندگی فراہم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں، اس کی نگاہیں
لوگوں کی صحت کو بہتر بنانے اور انہیں خود کو بھوک اور انتہائی غربت سے
باہر نکلنے میں مدد دینے کا موقع فراہم کرنے پر مرکوز ہیں۔ریاستہائے متحدہ
امریکا میں، اس کی خواہش اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ تمام افراد – بالخصوص
وہ جن کے پاس وسائل کم ہیں – کو اسکول اور زندگی میں کامیابی کے لیے ضروری
مواقع تک رسائی حاصل ہو۔ سیاٹل، واشنگٹن میں واقع فاؤنڈیشن کی قیادت سی ای
او جیف ریکس اور شریک چیئر ولیم ایچ گیٹس سینئر کر رہے ہیں، اور بل اور
میلنڈا گیٹس اور ویرن بوفیٹ کی زیر ہدایت کام کر رہے ہیں۔جہاں بل گیٹس اپنی
دولت خیرات میں اور فلاحی منصوبوں میں خرچ کر رہے ہیں۔ وہاں کچھ لوگوں کا
خیال ہے کہ بل گیٹسکی آمدنی منصفانہ نہیں ہے۔ ان حلقوں کا الزام ہے کہ بل
گیٹس امداد اس لئے دیتے ہیں کہ حکومتیں مفت سافٹ ویئر کا استعمال نہ کریں۔
وہ لوگوں کو اسی طرح اپنے سافٹ وئیر پر منحصر بناتے ہیں جس طرح افیم بیجنے
والے نوجوانوں کو مفت سیمپل دے کر پھنساتے ہیں۔ ونڈوز پر اپنی اجارہ داری
کا استعمال کر کے وہ اپنے حریفوں کو تباہ کر دیتے ہیں۔اس غیر منصفانہ کمائی
سے وہ دنیا کے امیر ترین شخص بن گئے ہیں۔ بل گیٹس کی امداد کو شک و شبہ کی
نظر سے دیکھنے والے اس کا تجزیہ کچھ یوں کرتے ہیں۔ ،،گیٹس اصل میں دو شعبوں
میں مدد دے رہے ہیں ، صحت اور تعلیم۔صحت کے شعبہ میں وہ ملیریا اور ایڈس کے
علاج کے لئے ٹیکوں کے فروغ پر زور دے رہے ہیں۔ وہ بیماری کو دوا سے روکنا
چاہتے ہیں۔
لیکن غریب ممالک کے لوگوں کا اصل مسئلہ بھوک ہے نہ کہ دوا۔امیر ممالک کے
ذریعہ ونڈوز سافٹ ویر، موبائل فون، کمپیوٹر چپ وغیرہ مہنگا بیچے جانے کے
سبب یہ ممالک غریب ہوتے جا رہے ہیں۔ اس سے بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔گیٹس کی
حالت اس ڈاکٹر جیسی ہے جو مریض سے اتنی فیس وصول کر لیتا ہے کہ وہ آٹا چاول
نہ خرید پائے۔ کھانے کی قلت میں مریض کی حالت بگڑتی ہے۔ تب ڈاکٹر اسے گھر
کے زیور بیچ کر مہنگی دوا خریدنے پر مجبور کرتا ہے۔اس طرح گیٹس پہلے مہنگا
ونڈوز سافٹ ویر بیچ کر غریب ممالک کے عوام کو بیمار بناتے ہیں پھر ان کے
علاج کے لئے جدید دواؤں کے استعمال کو فروغ دیتے ہیں۔گیٹس کے اس عمل پر شک
اس لئے بھی ہوتا ہے کہ وہ دوا بنانے والی کمپنیوں کے شیئر بھی خرید رہے
ہیں۔بزل ڈاٹ کام (Buzzle.com) ویب سائٹ پر بتایا گیا ہے کہ گیٹس نے اہم دوا
کمپنی مارک (Merck) کے 76.9 ملین ڈالر کے شئر خریدے ہیں ، فائرز (Pfizer)
کے 37.3 ملین ڈالر کے اور جانسن اینڈ جانسن (Johnson & Johnson) کے 29.7
ملین ڈالر کے۔ وہ بڑی کمپنیوں کی دواؤں پر اجارہ داری کو فروغ دے رہے ہیں
جب کہ ضرورت عام دواؤں (generic drugs) کے فروغ کی ہے۔واضع ہو کہ ڈبلیو ٹی
او (WTO) کے دوحہ مذاکرات میں ترقی پذیر ممالک کا ایک اہم مطالبہ بڑی
کمپنیوں کے ذریعہ دواؤں کی اجارہ داری کو ختم کرنے کا تھا۔بل گیٹس اسی
اجارہ داری کو بڑھا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ دیکھا جاتا ہے کہ صحت کے شعبہ میں
دی گئی مدد کو گیٹس کمپیوٹر سے جوڑ دیتے ہیں۔ جیسے ہندوستان میں 100 ملین
ڈالرس ایڈس کے لئے اور 400 ملین ڈالر کمپیوٹر تعلیم کے لئے دئے گئے ہیں (بشمول
ونڈوز کے ہندی ورڑن کی فروخت)۔
اسی طرح سیلان ڈاٹ کام (Salon.com) ویب سائٹ پر اینڈریو لینارڈ (Andrew
Leonard) بتاتے ہیں کہ لاتبریریوں میں کمپیوٹر لگانے کے لئے گیٹس نے 200
ملین ڈالر کی مدد دی ہے۔
لیلا راجیوا بتاتی ہے کہ گیٹس کے ذریعہ آندھر پردیش پر مدد دینے کے اعلان
کے بعد اس وقت کے وزیر اعلٰی مسٹر این چندرا بابو نائیڈو نے کہا کہ ریاستی
حکومت مائیکرو سافٹ کے پراڈکٹس کا استعمال کرے گی۔ ظاہر ہے کہ گیٹس جس رقم
کو مدد کے طور پر دے رہے ہیں اس سے مائیکرو سافٹ کمپنی کے سافٹ ویر کی مانگ
بڑھتی ہے اور گیٹس کو خود فائدہ پہنچتا ہے۔
پاکستان میں بھی پولیو کے خاتمہ کے لئے بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے 17
ملین ڈالرز کی امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس امداد کا اعلان دنیا کے امیر
ترین امریکی بزنس مین اوردنیا کی سب سے بڑی سوفٹ ویئر کمپنی مائیکروسوفٹ کے
چیئرمین بل گیٹس نے پاکستان کے سرکاری وفد سے ابوظبی میں ہونے والی خصوصی
ملاقات میں کی۔ بل گیٹس نے پاکستان کے دورے کرنے میں بھی دلچسپی کا اظہار
کیا اور کہا کہ وہ پولیو ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے پاکستان
آئینگے۔ پاکستان کے ایک اعلیٰ سطحی وفد وزیراعظم کی معاون خصوصی بیگم شہناز
وزیر علی کی قیادت میں دبئی پہنچا تھا۔ جہاں بل گیٹس سے ملاقات کے دوران
شہناز وزیر علی نے انہیں صدر مملکت آصف علی زرداری کا خصوصی خط دیا۔بل گیٹس
نے پاکستان کی کوششوں کو سراہتے ہوئے پولیو کے خاتمہ کے لئے مکمل تعاون کا
یقین دلایاتازہ ترین غیرسرکاری اعداد و شمار کے مطابق بل گیٹس کی ذاتی دولت
کا اندازہ چون بلین امریکی ڈالرز سے زیادہ لگایا گیا ہے۔ وہ دنیا کے امیر
ترین شخص ہیں۔ انہوں نے اپنی دولت کا چھتیس بلین ڈالرز کا سرمایہ مختلف
فاونڈیشنز کو عطیہ کر رکھا ہے جو دنیا بھر میں انسانی فلاح و بہبود کا کام
انجام دے رہی ہیں۔یہ دنیا میں بطور خیرات دیا جانے والا سب سے بڑا سرمایہ
ہے۔ یہی وہ شخص ہے جس نے اپنے ادارے مائیکرو سوفٹ کے ذریعے ہماری دنیا کو
بدل کے رکھ دیا ہے۔ ایک طویل عرصے تک وہ دنیا کے انتہائی معتبر کنواروں میں
شمار کیے جاتے رہے ہیں تاہم شادی اور بچوں نے اب ان کی زندگی کے رخ کو مکمل
طور سے تبدیل کردیا ہے۔ ہم یہ تو نہیں جانتے کہ پہلے کون آتاہے دی بل اینڈ
میلنڈا گیٹس فاونڈیشن یا پھر ان کا باپ بننا … لیکن ایک بات یقینی ہے کہ وہ
شخص جس نے کبھی اس دنیا کو بدل کے رکھ دیا تھا اور اس کے عوض بلین ڈالرز
اکٹھے کیے تھے اب وہی شخص بڑی خاموشی سے ایک مرتبہ پھر اس دنیا کو تبدیل
کرنے کے لئے وہی سرمایہ اور دولت واپس کر رہا ہے۔اس کی قائم کردہ تنظیم ”دی
بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاونڈیشن“ نے ایک عالمی کردار ادا کرتے ہوئے دنیا بھر
کے عوام کے لئے ویکسین کی تیاری اور تقسیم کا کام شروع کر رکھا ہے جس کا
بنیادی مقصد انسانیت کو چھوت چھات کے امراض سے محفوظ رکھنا ہے جس میں پولیو
جیسا خطرناک مرض بھی شامل ہے۔ اپنی سیٹل کی رہائش گاہ سے ایک انٹرویو میں
پاکستان کے حوالے سے، بل گیٹس نے اپنے خدشات اور رجائیت کا اظہار کرتے ہوئے
پولیو جیسے مہلک مرض کے خلاف پاکستان کی جنگ کا تذکرہ کرتے ہوئے پاکستان کی
انفارمیشن ٹیکنالوجی صنعت کی پسماندگی کے بارے میں بھی اظہار خیال کیا۔ ان
کا کہنا تھاکہ ان کی فاونڈیشن پہلے ہی ستانوے ملین ڈالر پاکستان کو دینے کا
عہد کر چکی ہے جو براہ راست پولیو کے انسداد کی غرض سے دیئے جائیں گے۔ تاہم
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ ان کا ادارہ ویکسین کی تیاری پر
ملین، ملین ڈالرز خرچ کر رہا ہے لہٰذا پاکستان کو مختلف طریقوں سے امداد
دینے کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ بچوں کے لئے بنائی جانے والی ویکسین
پاکستان کے بچوں کے کام آئے گی۔ ہم نے عالمی سطح پر پولیو کے انسداد کے لیے
بڑی بھاری رقم مختص کی ہے جس کا ایک بڑا حصہ پاکستان کو بھی دیا جائے گا۔بل
گیٹس کو اس بات پرگہری تشویش ہے کہ ”فاٹا کے علاقوں میں چار لاکھ کے قریب
بچوں کو پولیو کے ٹیکے لگوانے سے گریز کیا جاتا ہے“۔ ان کا کہنا تھا کہ عام
طور سے صوبائی حکومتوں اور مسلح افواج کی مدد سے اس اہم کام کو پایہ تکمیل
تک پہنچانا ممکن ہوسکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ فی الوقت پاکستان کو سب
سے بڑا چیلنج یہی درپیش ہے کہ اپنی بہت بڑی اور نقل و حرکت میں مصروف آبادی
کو مختلف امراض اور بیماریوں سے محفوظ کیسے رکھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا
کہ ایسے تمام بچوں کو تلاش کرکے پولیو کے ٹیکے لگانے ہوں گے جن کے والدین
انہیں یہ ٹیکے لگوانے سے گریز کرتے ہیں۔ اگر ان بچوں کو یہ ٹیکے نہ لگائے
گئے تو وہ پولیو جیسے سنگین مرض کو پھیلانے کا سبب بن جائیں گے۔ بہرحال
انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ اس حوالے سے پاکستان کی مسلح افواج نہایت
کامیاب کردار ادا کرسکتی ہیں بالخصوص فاٹا کے قبائلی علاقہ جات میں مسلح
افواج کی جانب سے اس پیغام کو پھیلائے جانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ پولیو سے
محفوظ رہنے کے نظریئے کو فروغ حاصل ہوسکے۔ فاٹا کے مسئلے پر بل گیٹس، حالیہ
امریکی دورے کے موقع پر پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کے ساتھ بھی تفصیلی
تبادلہ خیال کرچکے ہیں۔ صدر زرداری نے انہیں یقین دلایا کہ وہ اپنے
وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ، مسلح افواج کی مدد سے ٹیکوں کے نظام کو بہتر بنانے
کی غرض سے مل جل کر کام کریں گے اور ہر چھ ماہ بعد اپنی کارکردگی پر
نظرثانی بھی کریں گے۔بل گیٹس نے چھوت چھات کے امراض پر گہری نظر رکھنے کی
ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔ اور اس امید کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان میں
وزارت صحت کی تشکیل نو اس راستے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کرے گی۔ انہوں نے
کہا کہ حکومت پاکستان کے بعض عظیم اشخاص اس مقصد پر دل کی گہرائیوں سے یقین
رکھتے ہیں۔ میں ان کی مدد کرنے کے لیے ہر طرح سے تیار ہوں۔ بہر صورت ان کا
یہ ماننا تھا کہ پاکستان میں وزارت صحت کی تنظیم نو پولیو کی مہم کے راستے
میں نہ صرف رکاوٹیں پیدا کرنے کا سبب ہوگی بلکہ دوسرے امراض اور بیماریوں
کے لیے تیار کیے جانے والے ٹیکوں کے لیے بھی یہ پراگندگی کا سبب بنے گی
کیونکہ اگر ہم بدستور ویکسین سے استفادہ کرتے رہے تو اس طرح ہم پاکستان میں
سینکڑوں ہزاروں انسانوں کی جانیں بچا سکیں گے۔بل گیٹس نے اس پروپیگنڈے کو
یکسر مسترد کیا کہ پولیو کے ٹیکے اور دیگر امراض کی ویکسین ایسی ادویات پر
مشتمل ہیں جو بالخصوص مسلمان آبادیوں میں نامردگی اور بانجھ پن کا باعث بن
سکتی ہیں۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ پولیو ویکسین، امریکا میں سرے
سے تیار ہی نہیں کی جاتی اس کے برعکس دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک
انڈونیشیا اس ویکسین کا سب سے بڑا تیار کنندہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہر
روز اربوں کی تعداد میں پولیو کے قطرے پوری دنیا کے بچوں کو پلائے جاتے
ہیں۔انہوں نے کہا کہ فاٹا کے قبائلی علاقوں میں پولیو اور دیگر چھوت چھات
کے امراض کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ جب ان سے پوچھاگیا کہ وہ ایسے طریقے تجویز
کریں جن پر عملدرآمد کے ذریعے پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی خدمات کا
نظام بہتر ہوسکے تو انہوں نے کہا کہ پہلے اپنے تعلیمی نظام کو ٹھیک کیجئے
اور ملک کو استحکام سے آشنا کیجئے بہرحال ان کا ماننا تھا کہ پاکستان میں
انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صورتحال بہت بہتر ہے۔ کامیابی کی کلید یہی ہے کہ
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے گریجویٹس کامعیاراور تعداد بڑھے اور پاکستان خود کو
عالمی مارکیٹ سے وابستہ کرسکے۔ انٹرنیٹ نے ہماری دنیا کو ایک عالمی سیارے
میں تبدیل کردیا ہے۔ بل گیٹس نے کہا کہ میرے پاس پاکستان کے بارے میں کوئی
خصوصی اعداد و شمار تو نہیں ہیں لیکن اس کا تعلق بہرحال کالج کے تعلیمی
نظام اور ملکی استحکام سے بہت گہرا ہے۔ ایک اور سوال میں بل گیٹس سے پوچھا
گیا کہ دنیا کے امیر ترین شخص کی حیثیت سے جب وہ سونے کے لیے جاتے ہیں تو
ان کے دماغ میں کیا چل رہا ہوتا ہے ؟؟؟ … بل گیٹس نے کہا کہ ”پہلے میں سوفٹ
ویئر کے بارے میں سوچا کرتا تھا جو میرا اصل کام تھا۔ اب میرے بال بچے ہیں
اور میں خیراتی فاونڈیشن بھی چلارہاہوں لہٰذا میں اسی فاونڈیشن کے منصوبوں
اور پولیو جیسے سنگین امراض سے نجات حاصل کرنے کے طریقوں پر ہی غور کرتا
رہتا ہوں۔ اگر ٹی بی اور ملیریا کے انسداد کے لیے کوئی نئی ویکسین تیار کی
جائے تو کیسا رہے ؟؟؟ جب میں اپنے بچوں کے بارے میں سوچ رہا ہوتا ہوں تو
میں ان خبروں پر غور کر رہا ہوتا ہوں جو تمام دنیا کے بچوں کی زندگی میں
بہت بڑی تبدیلی لاسکیں“۔ بل گیٹس پاکستان آنے اور ”پولیو فری پاکستان“ کا
جشن منانا چاہتے ہیں۔
پولیو نے دنیا بھر کے بچوں کو ایک بار خوف میں مبتلا کیا تھا لیکن اب صرف
چار ملک – افغانستان، بھارت، نائیجیرا اور پاکستان – ایسے ہیں جہاں پولیو
کا سلسلہ رکا نہیں۔ گزشہ سال نائیجیریا اور بھارت میں غیر معمولی پیش قدمی
نظر آئی جہاں 2009ء کے مقابلہ میں پولیو کے کیسز تقریباً 95 فیصد تک کم
ہوگئے۔ لیکن پھر بھی کچھ الگ کیسز حدود سے تجاوز کر سکتے ہیں اور یہ چنگاری
دوبارہ بھڑک سکتی ہے۔ کچھ لوگ بل گیٹس کی آمدنی کو بھی غریبوں کے استحصال
سے ہونے والی آمدنی قرار دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ لیکن امور خیر کی دو
شکلیں ہوتی ہیں ایک تاجر غریب کو گھٹیا مال بیچ کر ہونے والی غیر شرعی
آمدنی سے لنگر چلا سکتا ہے ایسی خیرات کو لا حاصل کہا جائے گا۔ سچی خیرات
سچی کمائی سے کی جاتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ بل گیٹس کی آمدنی کا کردار کیا
ہے؟بل گیٹس کی امیری کا اصل ذریعہ ان کی کمپنی "مائیکرو سافٹ" کے ذریعہ
بنایا گیا "ونڈوز" سافٹ ویئر ہے۔بلیو ٹی او (WTO) کے تحت ہوئے ٹرپس معاہدے
سے بل گیٹس کو اس سافٹ ویر کو دنیا میں بیجنے کی اجارہ داری حاصل ہوگئی ہے۔
مارکسس ڈاٹ کام (marxist.com) ویب سائٹ پر مارٹن وان ہوورسوین (Maarten
Vanheuverswyn) بتاتے ہیں کہ :دنیا میں 94 فیصد کمپیوٹروں میں ونڈوز سافٹ
ویئر چل رہا ہے۔ ونڈوز کا خاص حریف لائینکس (LINUX) سافٹ ویئر ہے جو کہ مفت
میں دستیاب ہے.کاونٹر پنچ (CounterPunch) ویب سائٹ پر لیلا راجیوا (Lila
Rajiva) بتاتی ہیں کہ :(سابق) صدر جمہوریہ ہند اے پی جے عبدالکلام نے بھی
مفت سافٹ ویئر کو فروغ دینے کی بات کہی ہے۔ لیکن بل گیٹس مفت لائنکس کی جگہ
ونڈوز کا استعمال کرا رہے ہیں یوں سمجھیں کہ صاف پانی کا جھرنا بغل میں بہہ
رہا ہے لیکن بل گیٹس بوتل میں پانی کو اچھا بتا کر بڑی رقم کمارہے
ہیں۔آسٹریلیا کے زیڈ ڈی نیٹ ورک (ZDNet) کے اینڈریو کالی (Andrew Colley)
بتاتے ہیں کہ بل گیٹس مسلسل کوشاں ہیں کہ مفت میں دستیاب لائیکس سافٹ ویئر
کا لوگ استعمال نہ کریں۔ آسٹریلیا کی این ایس ڈبلیو (NSW) ریاست کے وزیر
کامرس (John Della Bosca) نے اعلان کیا تھا کہ حکومت لائنکس کا استعمال
کرنے جا رہی ہے۔
بل گیٹس فورا آسٹریلیا پہنچے اور 40 ملین آسٹریلین ڈالر کی مدد کا اعلان
کیا جس سے کمزور طبقات کو کمپیوٹر کی تعلیم دی جا سکے۔ گیٹس کا اصل مقصد
حکومت کے ذریعہ لائنکس کے استعمال کو روکنا ہے۔ اسی سلسلہ میں 2002ء میں
ہندوستان کی بے جے پی حکومت نے ارادہ کیا تھا کہ ونڈوز کی جگہ لائنکس کے
استعمال کو فروغ دیا جائے۔ فورا بل گیٹس ہندوستان آئے اور 500 ملین ڈالر کی
مدد کا اعلان کیا جس میں تقریبا 100 ملین ڈالر کا انسداد ایڈس اور 400 ملین
ڈالر کمپیوٹر کی تعلیم کے لئے دئے گئے اس کے بعد ہندوستان کی حکومت نے
لائنکس کے استعمال پر خاموشی اختیار کر لی۔
اینڈریوکالی کے مطابق بل گیٹس چاہتے ہیں کہ کسی بھی طرح دنیا بھر کے عوام
ونڈوز سافٹ ویئر پر منحصر ہوجائیں۔ اس وقت چین میں ونڈوز سافٹ ویر بڑے
پیمانے پر ڈپلیکیٹ کیا جا رہا تھا۔ اس پر بل گیٹس نے کہا :"اگر نہیں چوری
کرنی ہے تو میں چاہوں گا کہ وہ ہمارے مال کی چوری کریں۔ وہ اس منحصر ہو
جائیں گے تب ہم آئندہ دہائی تک پیسہ وصول کی کوئی ترکیب تلاش کر لیں گے۔"
جس طرح کمپنیاں شروع میں کسی خریداری کے ساتھ دوسرا مال مفت دیتی ہیں پھر
اسے بیچنے لگتی ہیں ایسا ہی بل گیٹس کرتے ہیں۔ اسی سلسلہ میں مارٹن وان
ہورسوین بتاتے ہیں کہ : مائیکرو سافٹ نے انٹرنیٹ ایکسپلورر سافٹ ویر کو
ونڈوز کے ساتھ مفت دینا شروع کر دیا ہے نتیجہ یہ ہوا کہ صارفین میں دوسرے
براؤزر نیٹ اسکیپ (Netscape) کا استعمال ختم ہو گیا نتیجتاً حریف نیٹ اسکیپ
کمپنی کا دھندا بند ہوگیا۔
جس طرح چینی کی ملیں زرعی ترقی کے لئے گنے کا اچھا بیج کسانوں کو تقسیم
کرتی ہیں تاکہ انہیں بہتر معیار کا گنا مل جائے اسی طرح گیٹس تعلیم کے فروغ
کے لئے کمپیوٹر بانٹتے ہیں جس سے مائیکرو سافٹ کی مانگ بڑھےگیٹس اب اپنا
زیادہ تر وقت خیراتی کاموں میں سرف کرنا چاہتے ہیں ۔ جرمنی کے جن منصوبوں
کی بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے پذیرائی کی ہے وہ نینو ذرات کے ذریعے
انسانی جسم میں ویکسین کو داخل کرنا ہے۔ اس تحقیق کا مقصد ویکسین کو بدن
میں داخل کرنے کے بعد اس کا پسینے کے ذریعے اخراج ہے۔ اس سے بدن کے مدافعتی
نظام کو نئی قوت ملے گی۔گیٹس فاؤنڈیشن نے ملیریا بخار کے بارے میں نئے
تحقیقی منصوبوں کو خاص طور پر پسند کیا ہے۔ اس ریسرچ میں کئی علاقوں سے
منصوبے شامل ہیں۔ تھائی لینڈ کمبوڈیا کی سرحد پر ملیریا کے حوالے سے منصوبہ
منظور کیا گیا ہے۔ افریقی ملک یوگنڈا میں جو منفرد تحقیقی عمل جاری ہے، اس
کو بھی پسندیدگی سے دیکھا گیا ہے۔ دوا یا مدافعتی ویکسین سے مزید افزائش
پانے والےملیریا کے مچھروں پر خصوصی توجہ کے پراجیکٹس کو بھی مالی عطیے کے
لئے منظور کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں یوگنڈا میں ایک پودے کی افزائش پر کام
کیا جا رہا ہے جو ملیریا پھیلانے والے مچھروں کو کھاتا ہے۔اس طرح کے بہت سے
منصوبوں کو بل اینڈ گیٹس فاو ¿نڈیشن کی جانب سے ریسرچ جاری رکھنے کے لئے
مالی معاونت کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔ اب تک یہ فاو ¿نڈیشن سائنسی ریسرچ کے
لئے کئی ارب ڈالر دے چکی ہے! ترقی پذیر ممالک کے کسانوں کے لیے امریکہ میں
ایک نیا عالمی فنڈ قائم کیا گیا ہے۔فنڈ کے افتتاح کے موقع پر بل گیٹس بھی
موجود تھے۔دو سال قبل تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور عالمی معاشی بحران کا
آغاز، دنیا بھر میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بنے۔
مہنگائی کے زیادہ تر متاثرین غریب ممالک، خصوصاً افریقی خطے کے وہ لوگ تھے
جو پہلے ہی تنگدستی کے شکار تھے۔ تقریباً نوے کروڑ ڈالر کے گلوبل ٹرسٹ فنڈ
کا افتتاح کرتے ہوئے مائیکرو سافٹ کے بانی بِل گیٹس نے کہا کہ غربت میں کمی
کا بہترین طریقہ، ترقی پذیر ممالک کے چھوٹے کسانوں کو اس قابل بنانا ہے کہ
وہ زیادہ خوراک پیدا کر سکیں۔فنڈ کی رقم کو زیرِ کاشت زمین اور آبپاشی کے
نظام کو بہتر بنانے، دیہی علاقوں میں سڑکوں کا جال بچھانے اور پیداوار
بڑھانے کے لیے کسانوں کو بہتر بیج اور کھاد فراہم کرنے پر خرچ کیا جائے
گابِل گیٹس کا کہنا تھا کہ ’دنیا کے سب سے زیادہ غریب لوگ وہ کسان ہیں جن
کے پاس انتہائی محدود زمینیں ہیں۔ جب تک وہ اپنی پیداوار نہیں بڑھائیں گے،
تب تک وہ غربت کے چکر میں پھنسے رہیں گے۔ اس لیے ان کی مدد کرنا غربت کے
خاتمے کی کنجی ہے۔‘گلوبل ٹرسٹ فنڈ کو چلانے کی ذمہ داری عالمی بینک کو
سونپی گئی ہے۔
فنڈ کی رقم کو زیرِ کاشت زمین اور آبپاشی کے نظام کو بہتر بنانے، دیہی
علاقوں میں سڑکوں کا جال بچھانے اور پیداوار بڑھانے کے لیے کسانوں کو بہتر
بیج اور کھاد فراہم کرنے پر خرچ کیا جائے گا۔ گزشتہ سال دنیا کے آٹھ امیر
ترین ممالک جی ایٹ نے اپنے اجلاس میں اعتراف کیا تھا کہ تیس سالوں سے زرعی
شعبے میں سرمایہ کاری کے فقدان نے انتہائی غربت کو جنم دیا۔ جی ایٹ ممالک
نے غریب ممالک میں خوراک کے تحفظ کے لیے بائیس ارب ڈالر کا وعدہ کیا تھا۔
گلوبل ٹرسٹ فنڈ کا قیام اس وعدے کی پہلی قسط ہے اور اسے پورا کرنے کے لیے
جی ایٹ ممالک کی طرف سے اربوں ڈالر کے مزید امدادی کام ہونا باقی ہیں۔ |