پنجاب کی خزانے کی وزارت سے تین مرتبہ پاکستان کے
وزیراعظم بننے والے نواز شریف کا سیاسی سفر کسی سے ڈھکا چھپانہیں مگر عام
لوگوں کے لیے نواز شریف کی شخصیت ایک راز ہے ایسا راز جو ابھی تک لوگوں کی
نظروں سے اوجھل ہے۔ کچھ لوگ نوازشریف کوعاجزی و انکساری کا پیکر مانتے ہیں
کچھ کے لیے یہ نرم گرم اور بہترین راہنما جبکہ کچھ پرانے دوست انہیں
مغرور،گھمنڈی اور پرانے حساب برابر کرنے والا کہتے ہیں بہرحال کچھ بھی کہا
جائے اس میں کوئی شک نہیں نواز شریف قسمت کے دھنی ہیں جب ان پر سارے دروازے
بند نظر آتے ہیں تبھی چلتی ہوا انہیں اقتدار کی کرسی پہ لا بٹھاتی ہے۔ لوگ
انہیں ناکام سیاست دان بھی کہیں تب بھی یہ حقیقت ہے کہ اس وقت وہ واحد آدمی
ہیں جو تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم رہ چکے ہیں۔بلاشبہ نواز شریف نے غیر
معمولی قسمت پائی ہے ۔نوازشریف کی شخصیت کے حوالے ضیاء شاہد یاداشتیں ترتیب
دی ہیں۔
ضیا ء صاحب سینئر صحافی ہیںآج کے بیشتر نامورصحافی ان کی شاگردی میں رہ چکے
ہیں۔ایک زمانے میں ضیاء شاہد صاحب میاں نواز شریف کے کافی قریب تھے یہاں تک
کے نواز شریف کے اصرار پر ان کی پارٹی میں بھی شامل ہوئے پارٹی کے نائب صدر
بھی رہے مگر جلد صحافت کی طرف لوٹ آئےَ ضیاء صاحب اپنی کتاب ’’ میرا دوست
نواز شریف‘‘ میں لکھتے ہیں کہ نواز شریف وزیر اعلی کے بعد پہلی بار
وزیراعظم بنا تو مجھے فون آیا میاں صاحب یاد کر رہے ہیں۔ ان سے ملاقات کا
اہتمام کیا گیا۔ میں میریٹ کے لاؤنج میں داخل ہوا اور پوچھا نئے وزیراعظم
کے لیے تقریب کہاں ہورہی ہے؟ بتایا گیا انتظار کریں وزیراعظم صاحب باہر
آرہے ہیں۔کچھ دیر بعد نواز شریف باہر نکلا اس کے ساتھ مصطفی جتوئی نگران
وزیراعظم بھی تھے دائیں جانب چودھری نثار اور میاں شہباز شریف بھی تھے،نواز
شریف کا قافلہ قریب آیا میں نے ہاتھ ملایا تو نواز شریف نے کہا ضیاء صاحب
آج خوشی کادن ہے آپ نے ہمیشہ ساتھ دیا ہے آئندہ بھی خیال رکھیے گا۔بڑی ذمہ
د اری آن پڑی ہے کوئی مشورہ دیں ۔میں نے کہا جناب! اللہ نے آپ کو بہت عزت
دی ہے میرا مخلصانہ مشورہ ہے صبح حلف اٹھانے کے بعد آپ اپنے اثاثہ جات اور
کاروبار کی تفصیل بتائیں اور اعلان کریں۔آج کے بعد آپ اپنے کاروبار میں
توسیع نہیں کریں گے۔اللہ نے آپ کو بہت کچھ دیا ہے مزید کاروبار کی آپ کو
ضرورت نہیں یہ اعلان تاریخی ہوگا۔ اس پر جتوئی صاحب ہنسے ضیاء صاحب آپ کیا
کہہ رہے ہیں؟ میں نے کہا میاں صاحب آپ چونکہ حکومت میں ہیں نیک نیتی سے بھی
کاروبار کریں گے پھر بھی الزام آئے گا کہ آپ حکومت میں ہیں اس لیے محکمے
نرمی برت رہے ہیں۔ اب آپ سارے پاکستان کے حاکم ہیں اور منتخب وزیراعظم بن
گئے ہیں۔ نواز شریف نے اپنے بھائی شہباز شریف سے کہا ایہہ تسی ایہدا جواب
دیو( آپ اس بات کا جواب دیں)۔ شہباز صاحب نے مختصر جواب دیا ’’ہم اپنا
فیملی بزنس نہیں چھوڑ سکتے‘‘۔ اسی طرح آئین میں ترمیم کے بارے میں ضیاء
صاحب دلچسپ واقعہ لکھتے ہیں’’آئین میں ترمیم کے بارے میں مشاورت تھی میں نے
محسوس کیا نواز شریف اپنی مختصر بات کہنے کے بعد بیرونی کمرے میں چلے
گئے۔تجویز پیش ہوئی نواز شریف کو دعوت دی جائے کہ وہ کچھ وقت اس ’’ضروری
اجلاس‘‘ کو بھی دے۔ بندہ بھیجا گیا تو پتا چلا نواز شریف ایک ماہر تعمیرات
جو کوئی بٹ صاحب تھے ان کے ساتھ باتھ روم کی ٹائلوں کے نمونے ڈسکس کررہا
ہے۔میں ذرا ہمت کر کے خود دعوت دینے چلا گیا۔نواز شریف نے بٹ صاحب کا تعارف
کروایا اور بتایا کہ جاتی امرا میں رہائشی حصے میں تعمیری کام رکا ہوا ہے
واش روم کی ٹائل کا ڈیزان فائنل کرنا ہے میں نے کہا جناب آئین میں ترمیم
ضروری مسئلہ ہے اگر آپ موجود نہیں ہوں گے تو کام رک جائے گا۔میں نے نواز
شریف کی بجائے بٹ صاحب کو مخاطب کیا اور کہا ہمیں آدھا گھنٹہ دے دیں ہم
جلدی بات مکمل کرلیں گے۔نواز شریف نے میز پہ پڑی کچھ ٹائلیں اٹھائیں اور
کہا میں گائیڈ لائین دے چکا اس کی روشنی میں مسودہ تیار کریں۔ پھر اس نے
میری نکتہ چینی پر شدیدمایوسی کا اظہار کرتے ہوئے چودھری فاروق سے کہا
قانون کی زبان میں کوئی نسخہ تلاش کرلیں۔رائے ونڈ میں سارا کام رکا پڑا ہے
اس لئے میں بٹ صاحب کو فارغ کرلوں یہ کہہ کر قائد اعظم کا جانشین اور
پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ ٹائلیں اٹھا کر اور بٹ صاحب کو ساتھ لے کر
بیرونی کمرے میں چلا گیا۔ |