تعلیم اور عمدہ اخلاق کی تربیت اوراس کی اہمیت کا اندازہ
اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ پاک کتاب جوقیامت تک آنے والے آخری
انسان کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے اُتاری گئی اُس مقدس کتاب قرآن کریم کا
آغاز ہی اقراء کے حسین لفظ سے ہوتاہے اورقیامت تک کے انسانوں کی راہنمائی
اورہدایت کے لئے نبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفی ﷺ کی حیات مبارکہ
جوسراسرتربیت اوراعلیٰ اخلاق کاعملی نمونہ ہے، آپ ﷺ نے آخری سانس تک نصیحت
وتربیت کامبارک سلسلہ جاری رکھا۔قرآن پاک اورآپ ﷺ کی حیات مبارکہ کامجموعہ
وہ علم ہے،جس کی روشنی میں انسان اپنے حقیقی خالق ومالک کوپہچانتاہے۔رسول
مقبول ﷺ کے ارشاد مبارک کامفہوم"اﷲ تعالیٰ جس کے ساتھ خیروبھلائی کاارادہ
فرماتے ہیں تواس کو دین کی سمجھ عطاء فرماتے ہیں،میں علم بانٹنے والا ہوں
اوراﷲ تعالیٰ عطاء فرمانے والے ہیں۔"(بخاری ومسلم)
علم کاطلب کرناہرمسلمان(خواہ مردہویاعورت دونوں) پرفرض قراردیا گیاہے۔اسی
طرح علم کے حصول کے ساتھ ساتھ اس پرعمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کے بھی
الگ سے فضائل اوراس کی اہمیت پرزوردیاگیاہے۔"جب آدمی مرجاتاہے تواس سے اُس
کا علم منقطع ہو جاتاہے،مگرتین اعمال(کاثواب)اُس سے منقطع نہیں ہوتا۔اول
صدقہ جاریہ،دوسرے علم کہ جس سے لوگ من تفع ہوتے رہیں، تیسرے فرزند ِ صالح
کہ جومیت کے لیے دعائے خیرکرتارہے ۔"(صحیح مسلم)
علم ہی کی بدولت انسان جائزوناجائز اورحلال وحرام میں تمیز کرسکتاہے۔لیکن
اگرعلم ہونے کے باوجود اُس علم پرنہیں کرتاتوایسا انسان جاہل سے بھی
بدترہے۔علم ہے اوراس پرعمل نہیں تو پھر اس کی مثال اس اندھے کی ہے، جسے
روشنی کے باوجودکچھ دکھائی نہیں دیتا،وہ راہ ،منزل، مقصد کے بغیرگھٹاٹوپ
اندھیری وادیوں میں بھٹکتا پھرتاہے۔انجام کارکے طورپرناکام ونامرادٹھہرتاہے
اوراپنے ساتھ دوسروں کے لئے بھی ذلت ورسوائی کا سبب بنتاہے۔علم جاننے کا
نام ہے اورعلم کے بعدعمل پرتربیت اُکساتی ہے ۔تربیت ہی عمل کے لئے طاقت
،سوچ فراہم کرتی ہے کہ انسان ہرقسم کی مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجودبے
خوف و خطرعلم پرعمل کرسکے۔
جہاں آج علم کے حصول میں اس کے مقاصد کو نظرانداز کیا جارہا ہے وہیں تربیت
کے باب میں مجرمانہ غفلت و کوتاہی برتی جارہی ہے۔ حضرت فاطمہ الزہراء اﷲ کے
محبوب نبی پاک ﷺ کی صاحبزادی جنہوں نے ایک چھوٹے سے کمرے پرمشتمل سادہ
گھرمیں ایسی ہستیوں کی تربیت فرمائی کہ حضرت امام حسن و حسین کا نور ارض
خاکی سے افلاک تک اورعالم ملک سے لے کرعالم ملکوت تک چمک اُٹھا۔
آج ماں باپ نے بچوں کی کفالت تک اپنے آپ کو محدود کرلیا،بحیثیت والدین ہم
خیال کرتے ہیں، بچوں کااچھے(مرادمہنگے) سکول میں داخلہ ،اُن کی
یونیفارم،بکس،ٹیویشن کھانے پینے،لباس،بیماری کی حالت میں علاج اوردیگرضروری
لوازمات کی تکمیل ہی صرف ہمارااولین فریضہ ہے،حالانکہ کہ بچوں کی کفالت کے
ساتھ ساتھ ان کی ایسی تربیت جو ان کیلئے عمربھرکامیابی کا پیش خیمہ ثابت
ہو۔ایسی تربیت والدین پرفرض کا درجہ رکھتی ہے۔اسی طرح والدین کاطرز
گفتگو،لب و لہجہ،اندازواطوار ،قول وفعل جسے ہم بالکل اہمیت نہیں دیتے اوریہ
سوچ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ خیرہے! یہ توابھی بچے ہیں۔اس دوران ہم
بھول جاتے ہیں کہ ہمارے قول وافعال بچوں کے لئے مثال ہوتے ہیں، جنہیں
لاشعوری طورپربچہ اختیارکرتاہے اورپھروہی رویہ اُس کی شخصیت کا جزواور
والدین کی تربیت اورقبیلہ کی پہچان بن جاتاہے۔دوسرے لفظوں میں یوں کہا
جاسکتا ہے کہ جو والدین ابتدا میں اپنے بچوں کی تربیت میں غفلت برتتے
ہیں،پھر وہ بچے سب سے پہلے والدین کے لئے پریشانی کاباعث بنتے ہیں۔ایسے بچے
میڈیا اورمعاشرہ سے غلط اثرات قبول کرنے میں سبقت لے جاتے ہیں۔اس طرح ان کا
اپناانجام کار تو برا ہوتا ہی ہے بالآخرمعاشرہ کے لئے مسائل اورپریشانی کا
موجب بنتے ہیں۔
اسی طرح تعلیمی ادارے تو بے پناہ ہیں اورتعلیم کی حد تک اپنی ذمہ داری کسی
طورپر ادابھی کررہے ہیں، مگرتربیت کے باب میں اپنی ذمہ داری کے احساس سے
عاری تعلیمی اداروں کا رویہ اپنے آپ کواس حوالہ سے بری الذمہ خیال کرنے کے
مترادف ہیں۔اُن کے خیال میں والدین نے سکول فیس دے کراپنا سارابوجھ ہمارے
سرڈال دیا۔
جب والدین کی تربیت کا طریقہ کار اورتعلیمی اداروں میں اس معیاراور سوچ کے
تحت تعلیم دی جائے گی اورایسے ماحول میں بچوں کی آبیاری کی جائے گی تو ایسے
میں مکتب کی کرامت اورآداب ِفرزندی کے نتائج یہی ہوں گے جوہمارے معاشرے میں
اس وقت ہم بھگت رہے ہیں ۔ لیکن کمال تو یہ ہے کہ اس سب کے باوجود ہمارے
ہرچھوٹے بڑے مدرسہ ،نجی وسرکاری سکول کی دیواریاصدردورازہ پرکرامتی تعویذ
کے طور پرضرور لکھا نظرآئے گا۔
یہ فیضان ِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب ِ فرزندی
یہی حالت ہمارے دیگر قوموں اداروں کی ہوچکی ہے، امن وامان کے ذمہ اداروں کی
تربیت کی کارستانیاں توروزانہ کی بنیادپردیکھی اورسنی ہیں جارہی ہیں۔
چندواقعات جوکسی نہ کسی سبب منظرعام پر آجاتے ہیں،لیکن حقیقت اس سے کہیں
زیادہ بھیانک اوردردناک ہے، کہ دیگرکتنے ہی ایسے بے رحمانہ واقعات روزانہ
کی بنیادپرہورہے ہیں،جن کا کسی کوعلم تک نہیں ہوتا۔ ابھی پچھلے دنوں9سالہ
بچہ پرپولیس تشددکی تصویر سوشل میڈیا پردکھائی جارہی تھی اورکچھ عرصہ پہلے
ساہیوال میں ایک گھرانے کو جس بے دردی اوربے رحمی سے موت کے گھات اُتار دیا
گیا،وہ بھی ساری دُنیا کے سامنے ہے۔ کم عمرگھریلوملازمین کے ساتھ غیرانسانی
سلوک اورتشددکے واقعات بظاہر پڑھے لکھے اورمہذب گھرانوں سے متواتررپورٹ
ہوتے رہتے ہیں۔
تعلیم کے ساتھ عمدہ اخلاق کی تربیت کے عمل کو والدین
گھر،سکول،کالج،یونیورسٹی،ٹریننگ سنٹر،مدارس ومساجدہرسطح پر اہمیت دینی ہوگی
تاکہ ایک نسل کے اعلیٰ اوصاف اوراقداردوسری نسل کومنتقل ہوتی رہیں۔اس طرح
معاشرتی ترقی،استحکام،رواداری،ایک دوسرے کے احساس اوربھائی چارے کی فضا
قائم رہتی ہے اورامن وامان کادوردورہ ہوتاہے۔ ورنہ بری خصلتوں کے لئے توکسی
تربیت کی ضرورت نہیں ہوتی،جیسے زرخیزسے زرخیز زمین پرمحنت ترک کردی جائے
توجنگلی جڑیں بوٹیاں اورکانٹے دارجھاڑیاں خودبخود پھیل جاتی ہیں اورپھروہ
زرخیرزمین وحشت ناک ویران جنگل کی شکل اختیارکرلیتی ہے جہاں خونخوار اوربے
رحم درندے ہی دندناتے پھرتے ہیں۔
بدقسمتی سے تربیت جس سے معاشرے میں حسن کرداراوربنیادی انسانی خوبیاں،اوصاف
اورعمدہ اخلاق جوانسان کوانسانیت کے اعلیٰ مرتبے سے روشناس کرواتے ہیں،مکمل
طورپر نظراندازکردیاگیاہے۔یہی وجہ ہے کہ آج تمام تروسائل اورترقی کے باوجود
نفسانفسی،بے چینی، معاشرتی بگاڑ وانتشاراوربدامنی کی آگ نے پورے معاشرے
کواپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
|