زندگی کا کوئی شعبہ ہو‘ اس میں ترقی اور کامیابی کیلئے
علم کی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے جو طلبا کی صورت میں معاشرے کو دستیاب ہوتی
ہے ۔ اس لئے قوم کے بچوں کو صحیح تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنا ہم سب کا
دینی اور اخلاقی فرض ہے لہٰذا طلبہ کی اچھی تعلیم سے کہیں زیادہ ان کی اچھی
تربیت کی ضرورت ہے۔ ضروری ہے کہ طلبہ علم و عمل کے پیکر ہوں۔ ان کی
کامیابیاں ان کی اپنی محنت و لگن‘ جستجو اور جدوجہد سے عبارت ہوں‘ ان کی
ڈگریاں ان کی اپنی محنت اور کاوشوں کا ثمر ہوں تو ملک و قوم کی عمارت بلند
اور مضبوط تر ہو گی۔ امتحان میں نقل کر کے اور غیر اخلاقی و غیر قانونی
ذرائع استعمال کر کے حاصل کی جانے والی ڈگریوں کی حیثیت محض کاغذی پُرزوں
سے زیادہ نہیں ہوتی۔ ان سے ملنے والی کامیابی کبھی دیرپا نہیں ہوتی۔ہم ببول
بو کر گلاب کی آرزو نہیں کر سکتے۔امتحان میں نقل نویسی کرنے والوں کی
صلاحیتوں کو زنگ آلود، ان کے ارادوں کو کمزور، عزائم کو پست اورخودی کو
ملیامیٹ کرکے مستقبل کی ترقی پر خنجر چلا دیتا ہے۔ نقل کرکے وقتی کامیاب
ہونے والے اور ڈگر ی لینے والے کبھی ملک و قوم سے مخلص اور وفادار نہیں ہو
سکتے۔ ایسے لوگوں کو ڈگریاں تو مل جاتی ہیں لیکن علم کی دولت اور تربیت کے
فیضان کے ساتھ ساتھ خود اعتمادی جیسے وصف سے یہ لوگ ہمیشہ محروم رہتے
ہیں۔اب چند ہی دنوں امتحانات شروع ہونے والے ہیں،نہ جانے کتنے طلباء نقل
کرکے اپنے ہاتھوں،اپنامستقبل تباہ کر رہے ہوں گے۔نسل نو کو یہ سمجھنے کی
ضرورت ہے کہ زیادہ نمبر حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو سال کے اوّل دن سے محنت
اور پڑھائی کریں،اگر روز آدھا گھنٹہ بھی ایک مضمون کو دیا جائے، تو امتحان
کے زمانے میں نہ رات، رات بھر جاگ کر پڑھنے کی ضرورت پیش آئے گی اور نہ ہی
نقل کرنے کی۔ دیر پا کامیابی چاہتے ہیں، تومحنت و مشقت کو اپنا شعار بنائیں،
کیوں کہ قابلیت اپنا راستہ خود بناتی ہے۔ |