اختر کے کھیت میں ایک مرغی تھی جس کا نام مُن مُن مرغی
تھا ۔ اس کا ایک چوزہ تھا ۔ جسے اختر کے گھر والے کٹ کٹ کے نام سے پکارتے
تھے ۔ کٹ کٹ تھا بڑا شرارتی اور نافرمان۔ جب دیکھو تب کسی نہ کسی کو ستاتا
اور پریشان کرتا ۔ اس کی نانی" پَٹ پَٹ" مُرغی اور ماں "مُن مُن" مرغی
ہمیشہ اُسے نصیحت کرتی لیکن وہ ایک کان سے سنتا دوسرے کان سے اُڑا دیتا ۔کُٹ
کُٹ بہت ڈھیٹ ہوچکا تھا۔بچّوں کوہمیشہ اپنےبڑوں کا کہا ماننا چاہئے!
کُٹ کُٹ کو کھانے پینے کا بہت شوق تھا ۔ ہمیشہ پیٹ سے زیادہ کھاتااور پھر
تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ۔ ماں اسے سمجھاتی کہ زیادہ کھانا نقصان دہ ہے ۔ وہ
اپنے چھوٹے منہ کا بھی خیال نہیں کرتا اور کبھی کبھی اپنے منہ سے بڑی چیزوں
پر بھی بری طرح جھپٹ پڑتا۔
ایک مرتبہ اختر کے والد کے کھیت میں مٹر اور چنے کی فصل جب پک کر تیار ہوئی
تو اس کے والد نے دانوں کو الگ کرنے کے لیے مشین منگوائی ۔ دانے نکلنا شروع
ہوئے تو کٹ کٹ کے منہ سے رال ٹپکنے لگی اور اس نے مٹر کا ایک دانا چگنے کی
کوشش کی، دانا چکنا ہونے کی وجہ سے چونچ میں تو چلا گیا لیکن منہ چھوٹا
ہونے کی وجہ سے وہ اندر جانے کی بجائے پھنس گیا ۔
اب تو بے چارا بڑا پریشان ہوگیا، اسے بہت زور کی بھوک اور پیاس لگی تھی ۔
اس کی ماں اپنی سہیلی کے یہاں گئی ہوئی تھی۔ وہ رونے لگا ۔مگر آواز نہیں
نکل پارہی تھی اس لیے کسی کو سمجھ میں نہ آیا ۔اب وہ اپنے کیے پر پچھتا
رہا تھا ۔ اُسے ماں کی نافرمانی کی سزا مِل رہی تھی۔ یکایک اس کی ماں کی
آواز آئی ۔ وہ ماں کو منہ سے کچھ بول نہ سکا ۔ ماں نے اپنے شرارتی کٹ کٹ
کو اس طرح خاموش بیٹھے دیکھا تو تعجب میں پڑ گئی۔ جب قریب آئی تو "کُٹ
کُٹ"کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ گرتے آنسو دیکھ کرماں کو اس پر بہت ترس
آیا،اورپیار سےپوچھا:
"کُٹ کُٹ بیٹے!تمہیں کیا ہوا ہے؟"
کُٹ کُٹ کے منہ میں تو مٹر کا دانا پھنسا ہوا تھا وہ کیا بول پاتا؟ بس بغیر
آواز کے روتا رہا ۔ ماں کو کچھ سمجھ میں نہ آیا ۔ کُٹ کُٹ اشارے سے بکھری
ہوئی مٹر کی طرف اشارا کرکے ماں کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے مسلسل بے
آواز روئے جارہا تھا۔
خاصی دیر بعد ماں کو سمجھ میں آیا کہ کُٹ کُٹ نے مٹر کا دانا کھانے کی
کوشش کی ہو گی اور وہ اس کے منہ میں پھنس گیا ہوگا اسی لیے وہ بول نہیں پا
رہا ہے ۔ ماں سوچنے لگی کہ اب کیا کِیا جائے ۔ کیوں کہ اس کی چونچ اتنی
لمبی نہیں ہے کہ وہ اپنے کُٹ کُٹ کے منہ سے مٹر کا دانا کھینچ کر نکال سکے
۔
آخراُس کو اپنے دوست بگلے کی یاد آئی ۔ مُن مُن مرغی اُسے ڈھونڈنے نکلی ۔
بگلا اسے کھیت میں نظر آگیا ۔ وہ تیزی سے بگلے کی طرف بھاگتے ہوئے گئی اس
سے پہلے کہ بگلا کہیں اُڑ کر نہ چلا جائے، وہ بگلے کے پاس پہنچ گئی اور اُس
نے "کُٹ کُٹ" کی حرکت بتائی اور اس سے مدد کے لیے کہا۔
بگلے نے کہا: "مُن مُن بہن! مجھے خوشی ہوگی کہ مَیں تمہاری مدد کروں"۔
دونوں اُڑتے، دوڑتے کُٹ کُٹ کے پاس پہنچے ۔ بگلے نے اپنی لمبی چونچ کی مدد
سے کُٹ کُٹ کے منہ میں پھنسے ہوئے مٹر کے دانے کوکھینچ کر نکال لیا۔ اس طرح
کافی دیر تک ماں کی نافرمانی اور لالچ کی سزا جھیلنے کے بعد کٹ کٹ کو چین
کا سانس لینا نصیب ہوا۔
اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ کُٹ کُٹ نے اس واقعہ کے بعدنافرمانی ، گستاخی
، شرارت اور دوسری بُری عادتوں سے توبہ کرلی ۔ |