” دُر شہوار،تم اتنی خوبصورت ہو کہ اس دنیا کی لگتی ہی
نہیں ہو۔کبھی کبھی مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ تم آسمان سے اُتری ہوئی پری ہو
جس کے حسُن نے مجھے مدہوش سا کر دیا ہے۔“
یہ جہانزیب کے کہے گئے جملے تھے جو اُس نے درشہوار کو منگنی کے بعد اپنے
ہاں ہونے والی دعوت پر کہے تھے اور یہ الفاظ ابھی تک درشہوار کے کانوں میں
گونج رہے تھے۔وہ آئینے کے سامنے کھڑی اپنے خوبصورت سراپے کو دیکھ رہی تھی
او رآئینے سے کہہ رہی تھی کہ ہے کو ئی ایسی چیز جو میرے پاس نہ ہو اورآئینہ
بھی اُس کی بات سے اتفاق کر رہا تھا۔درشہوار بیرسٹر امتیاز احمد کی اکلوتی
او ر لاڈلی بیٹی تھی۔ وہ اُن بچوں میں سے تھی جو اپنے منہ میں سونے کا چمچ
لے کر پیدا ہوتے ہیں ۔امتیاز صاحب نے اُسے کبھی بھی کسی چیز کی کمی محسوس
نہیں ہونے دی اُس کی ہر جائز ناجائز خواہش کو پورا کیا۔اور وہ چاہتے تھے کہ
اُن کی حسین ترین بیٹی کے لیے کوئی ایسا بر ڈھونڈے جو اُ س کا خیال امتیاز
احمد سے بھی زیادہ رکھے اور اُنہوں نے جہانزیب کے روپ میں داماد ڈھونڈ لیا
تھا۔ جہانزیب ایک بہت ہی قابل وکیل تھااور وہ درشہوار سے شادی کرنے کے لیے
امتیاز صاحب کی ہر شرط ماننے کو تیار تھا۔
٭٭٭
”درشہوار کے لےے جہانزیب نے پورے چار سو گز کا بنگلہ بنوا لیا ہے جو شہوار
کے ہی نام اُس کے ابو نے کر وایا ہے۔“ درشہوار کی ماں،مہوش بیگم اپنی پرانی
ملازمہ صغرٰی کو بتا رہی تھیں جس نے چند سال پہلے اُن کا کام چھوڑ دیا تھا
اور اپنی جگہ اپنی بیٹی کنیز کو کام پر بھیجتی تھی جو تقریباً درشہوار کی
ہی ہم عمر تھی۔
”ہائیں سچی بیگم صاحبہ! “جھاڑ پونچھ کرتی کنیز کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی۔
”یہ تو کچھ بھی نہیں ہے میری در شہوار کے لئے اُس کے ابا نے جہانزیب سے اُس
کی آدھی زمین نام کروائی ہے ۔اور سونا بھی وہ تیس چالیس تولے کے قریب ہی
ڈالے گا۔ وہ بھی درشہوار کے نام ہو گا۔ حق مہر کی رقم بھی پچاس لاکھ
لکھوائیں گئے ۔درشہورا کے ابو اور ہم نے تو اتنا جہیز دیا ہے اپنی درشہوار
کو کہ اُس کے اتنے بڑے بنگلے میں رکھنے کو جگہ نہ رہی تھی ۔بس یہ میری
درشہوار کی قسمت ہی ہے جو اُسے اتنا کچھ مل رہا ہے ۔
”ہاں بی بی جی بالکل ٹھیک کہا آپ نے یہ چھوٹی مالکن کی قسمت ہی ہے ۔بی بی
جی میں نے بھی کنیز کا رشتہ ساتھ والے گاﺅں میں طے کر دیا ہے اگلے ماہ اس
کی شادی ہے مہربانی کر کے آپ کوئی مدد کر دے تو میں اپنے داماد کے لئے کوئی
بہت بڑا تحفہ نہ سہی ایک سونے کی انگوٹھی ہی بنوا لوں گی۔بڑی مہربانی ہو گی
جی آپ کی۔“صغری نے آس بھری ایک التجا کرتے ہوئے کہا۔
”وہ تو ٹھیک ہے صُغری ہم تمہاری مدد کر دیں گے، پر تم نے اپنے دامادکے
سامنے شرطیں رکھی ہیں کہ وہ کوئی زمین زیور یا رقم کنیز کے نام کرے تا کہ
وہ تم لوگوں سے دب کر رہے۔“مہوش بیگم نے اپنے پرس سے پیسے نکالتے ہوئے کہا۔
”ہائے بی بی جی ہم غریب لوگ کہاں شرطیں منوا سکتے ہیں۔ وہ لوگ تو میری دھی
کو عجت سے بیاہ کر ہی لے جائے تو بڑی مہربانی اُن کی ۔اور ویسے بھی شرطیں
منوانے سے دلوں میں فرق آ جاتا ہے۔میں تو بس اپنے اللہ سوہنے سے اپنی دھی
کے اچھے نصیب کی دُعا مانگوں گی ۔کیونکہ اگر نصیب اچھا ہو تو سب کچھ اچھا
اور اگر نصیب اچھا نہیں تو کچھ بھی اچھا نہیں۔“اچانک صغری کی بات سُن کر
مہوش بیگم حیران ہوئی پھر کندھے اُچکا کر بولیں۔
”جیسی تمہاری مرضی ۔“اُنہوں نے اُسے پیسے تھماتے ہوئے کہا۔
”جی بڑی مہربانی آپ کی اللہ آپ کے سر کے سائیں کو ہمیشہ سلامت رکھے۔“صغری
دُعائیں دیتی ہوئی اُٹھ کھڑی ہوئی۔اوردُر شہوار جو کسی کام سے اپنی ماں کی
طرف آئی تھی صغری کی بات سُن کر کچھ پریشان ہو گئی۔پھر اچانک اُسے جہانزیب
کے کہے گئے الفاظ یاد آئے تو اس نے اپنا سر جھٹک دیا۔
٭٭٭
پھر جس نے بھی درشہوار اور جہانزیب کی جوڑی کو دیکھا تو سراہے بغیر نہ رہ
سکا۔وہ رخصت ہو کر اپنے خوابوں کے محل میں آگئی تھی جو جہانزیب نے اُ س کے
لئے حقیقت میں تعمیرکیا تھا۔جہانزیب کی والدہ نے اُسے لا کر بڑے آراستہ
پراستہ قسم کے کمرے میں پہنچا دیا تھا۔وہ پھولوں کی سیج پر بیٹھی اپنی خود
کی قسمت پر رشک کر رہی تھی۔وہ اپنے ہاتھوں میں پہنے ہیروں سے سجے کنگنوں سے
لیکر کمرے کی ہر ہر چیز کو دیکھ رہی جیسے کتنے پیار سے جہانزیب نے اُسے کے
لیے بنایا تھا۔وہ اپنے ہی خیالوں میں گم تھی کہ اچانک جہانزیب کمرے میں آیا
اور بیڈ کے سامنے پڑے صوفے پر بیٹھ گیا۔چند لمحے وہ خاموش بیٹھا رہا پھر
اُٹھ کر الماری سے ایک سنہری ڈبہ نکالا اور اُسے لا کر درشہورا کو پکڑا یا۔
”یہ لو تمہاری منہ دکھائی کا تحفہ تمہارے ماں باپ نے کہا تھا کہ میری بیٹی
کی منہ دیکھائی کا تحفہ بھی ایسا ہونا چاہئے کہ سب مدتوں یاد رکھے۔میں نے
تمہارے باپ کی ہر شرط کو مانا ایسی ایسی شرطیں مانی کہ لوگ کہنے لگے بیرسٹر
امتیاز احمد نے اپنے لیے داماد نہیں ایک وفادار کتا ڈھونڈا ہے جو اُس کی ہر
شرط ہر بات ماننے کو تیار ہو جاتاہے۔تمہارے باپ نے اسی ڈر کی وجہ سے مجھ سے
اتنی ساری شرطیں لکھوائی تھی نہ کہ تم تا عمر خوش رہو اور میں اُس سے دب کر
رہوں۔اُسے اپنی بیرسٹر ہونے پر غرور تھا اپنی بیٹی کے حُسن پر غرور تھا۔
اُن شرائط پر غرور تھا جو اُس نے مجھ سے منوائی ہیں اُسے اپنے غرور میں یہ
بھی یاد نہ رہا کہ میری انا کو کتنی ٹھیس پہنچے گی۔“وہ سرد اور سپاٹ لہجے
میں بول رہا تھا۔درشہوار کو اُس کی باتوں کی بالکل بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی
وہ اُس کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی حیران اور پریشان ہو کر کہ یہ
سب تم کیا کہہ رہے ہو۔
”تم اس ڈبے کو کھول کر دیکھ لو تمہاری منہ دکھائی کا تحفہ بالکل تمہارے باپ
کے کہے کے مطابق مدتوں لوگوں کو یار رہنے والا ہو گا اور تمہارے سارے
سوالوں کے جواب بھی تمہیں مل جائیں گے جو تمہاری آنکھوں میں اس وقت تیر رہے
ہیں۔“جہانزیب نے اُسی سرد لہجے میں کہا۔پھر جب درشہوار نے وہ سنہری ڈبہ
کھولا اُس میں ایک کاغذ تھا جب اُس نے اُسے پڑھا تو اُس کی چیخوں سے پورا
جہانزیب وِلا گونج اُٹھا۔
٭٭٭
اُس سنہری ڈبے میں طلاق کے کاغذات تھے ۔وہ بسنے سے پہلے ہی اُجڑ کر واپس
امتیاز احمد کے گھر آ گئی ۔جہانزیب نے سب کچھ درشہوار کو دے دیاتھا اور خود
اپنی فیملی کے ساتھ سعودی عرب چلا گیا۔اُس نے امتیاز احمد کا بدلہ دُرشہوار
سے لیا تھا۔آج صغری آئی تھی کنیز کی شادی بھی ہو گئی تھی اور مہوش بیگم نے
اُس سے نئی کام والی رکھنے کے سلسلے میں بلایا تھا۔
”تم نئی کام والی کب لا رہی ہو صغری ؟“ مہوش بیگم نے پوچھا۔
”بی بی جی میںکل ہی اپنی چھوٹی دھی کو آپ کی طرف بھیج دوں گی۔آپ ہی کی
مہربانی کی وجہ سے میری کنیز بہت ہی سکھی ہے۔میں نے اپنے داماد کو جو سونے
کی انگھوٹھی دی تھی اُس سے وہ بڑا خوش ہوا اور کنیز سے کہنے لگا تیری ماں
نے میرا بڑا قدر کی ہے۔ اسی بات کی لاج رکھتے ہوئے میں تجھے ساری حیاتی
دُکھ نہ آنے دوں گا۔“صغری بولے جا رہی تھی اور اُس کی باتیں دُرشہوار کو وہ
آئینہ دیکھا رہی تھیں جس میں وہ اُسے کہہ رہا تھا ۔تمہارے پاس سب کچھ ہے
دُرشہوار پر اچھا نصیب نہیں اور اُسے صغری کی بات کا مفہوم اُسے حقیقت میں
سمجھ آ گیا تھا۔اگر نصیب اچھا ہو سب اچھا اور اگر نصیب اچھا نہیں تو کچھ
بھی اچھا نہیں۔
ختم شد |