ایک شاعر کے پڑوسیوں کا مُرغا ہر وقت شور مچائے رکھتا تھا،
شاعر اس سے بہت زیادہ تنگ تھا، وہ جب بھی کچھ لکھنے کو بیٹھتا ادھرسے مرغا
اونچی آوازیں نکالنے لگتا جس سے شاعر بہت زیادہ پریشان ہوتا اور کچھ لکھ نا
پاتا، ایک دن شاعر نے اپنے نوکر کو پیسے دئیے کہ جاؤ اور پڑوسیوں سے وہ
مرغا خرید لو اور آج دوپہر کو اسے ذبح کر کے اسکا سالن بناؤ ساتھ ہی شاعر
نے اپنے ایک دوست کو بھی مدعو کر لیا، شاعر بہت خوش تھا کہ آج سے اس مرغے
کی چیخ و پکار سننے کو نہیں ملے گی اور جب اسکا دوست آیا تو اسکو سارا
ماجرا سنایااور کہا کہ جب سے اس مرغے کو نوکر نے ذبح کیا ہے میں سکون میں
آگیا ہوں اور اس پُر سکون ماحول میں آج اس نے دو نئی غزلیں بھی لکھ ڈالیں۔
تھوڑی دیر بعد نوکر کھانا اٹھائے کمرے میں داخل ہوتا ہےاور مودبانہ گزارش
کرتا ہے کہ صاحب جی بڑی کوشش کی لیکن ان پڑوسیوں نے اپنا مُرغا نہیں فروخت
کیا اس لئے بازار سے مرغے کا گوشت خرید لایاتھا۔ یہ سننا تھا کہ شاعر نے
غور کیا کہ مُرغا تو ابھی بھی ویسے کا ویسے ہی شور مچائے ہوئے تھا، لیکن اس
کے باوجود آج انکو یہ سکون کیسے میسر آیا۔ دراصل ان کی سوچ بدل چکی تھی اور
انہوں نے اپنے دماغ میں اس بات کو نقش کرلیا تھا کہ آج تو مُرغا ہے ہی نہیں
اس لئے وہ آج اپنا کام بہترین طریقے سے سرانجام دے سکے گا اور اس سوچ کی
وجہ سے اس دن اسکو مُرغے کی آوازیں سنائی ہی نا دیں۔ اس کے بعد اس نے مُرغے
پہ توجہ دینا چھوڑ دی اور اپنا کام کرتا رہا اب مرغا شور مچائے رکھتا تھا
لیکن شاعر کو اس کی پروا نا ہوتی تھی۔
زندگی کے سفر میں ہمیں بہت سے مخالفین کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ہمیں ہر
موڑ پہ پریشان کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں، چونکہ ان سے ہماری کامیابیاں
برداشت نہیں ہوپاتیں تو اس وجہ سے وہ ہماری کردار کشی کرتے ہیں، لوگوں میں
بیٹھ کر ہمارا مذاق بناتے ہیں، اور کبھی ہمارے دوست احباب کے سامنے ہمارے
گلے شکوے کرتے نظر آتے ہیں، بعض اوقات مخالفین کی ان چالوں سے ہم بے حد
پریشان ہوجاتے ہیں لیکن اگر ہم ایسے ہی پریشان ہوتے رہیں گے تو کبھی بھی
زندگی میں کامیاب نا ہو پائیں گے، ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہوگی اپنے اردگرد
ایک ایسی دیوار تعمیر کرنا ہوگی جس میں رہ کر ہم تنقید کرنے والوں کی
آوازیں نا سن سکیں، اس دنیا میں جتنے بھی کامیاب انسان ہیں ان سب کی
کامیابی کا راز پوچھا جائے تو یہی ہوگا کہ انہوں نے کبھی تنقید کرنے والوں
کی باتوں پہ کان نا دھرے اور اپنے کام میں لگے رہے، انہوں نے اپنے اردگرد
ایک دیوار بنا لی جو انہیں مخالفین کی کارستانیوں سے بے نیاز رکھتی تھی۔
جیسے ایک تنگ کرنے والے مُرغے کو چپ کروانے کا حل مُرغے کو ذبح کرنا نہیں
کیونکہ ایک مُرغا گیا تو ہوسکتا ہے دس اور نئے مُرغے آجائیں اسی طرح اس
دنیا سے ہم اپنے مخالفین کو ختم تو نہیں کرسکتے البتہ اپنی سوچ بدل کر انکو
مکمل نظر انداز کر سکتے ہیں اور ایسے زہریلے لوگوں کو اتنا نظر انداز کریں
کہ ایک دن وہ خود کو ہی کاٹ لیں۔
زندگی میں کامیابیوں سے ہمکنار ہونے کئے لئے سر جھکا کر چلتے رہیں اگر شور
مچانے والے مُرغوں پہ توجہ دیں گے تو کبھی بھی منزل پہ نا پہنچ پائیں گے۔ |