تحریر:انیلہ افضال
عورت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہے چھپی ہوئی چیز۔ عورت چھپی ہوئی ہی
اچھی لگتی ہے اس لیے تو اﷲ رب العزت نے اسے پردے کا حکم دیاہے۔ حیا کو عورت
کا زیور قرار دیا جاتا ہے۔عورت ایک نازک آبگینے کی مانند ہوتی ہے۔ اتنی
نازک کہ ایک پھول کے ذریعے اسے راضی اور خوش کیا جاسکتا ہے۔ اتنی نازک ہے
کہ ایک لفظ اسے توڑ کے رکھ دیتا ہے۔تعجب ہے کہ یہی عورت اپنے بچپنے میں باپ
کے لیے رحمت ہوتی ہے اور پھر اپنی جوانی میں وہ سب کچھ چھوڑ کر شوہر کا
ایمان کامل کرنے چلی آتی ہے۔ماں بنتی ہے تو ساتوں آسمانوں کے اوپر کی جنت
اس کے قدموں کے تلے آ جاتی ہے۔ یہی عورت ایک معاشرہ تخلیق کرتی ہے۔ کہا
جاتا ہے کہ اگر مرد ضد پہ اتر آئے تو عورت کی زندگی تباہ و برباد کرسکتا ہے
لیکن اگر عورت ضد پر اتر آئے تو نسلیں برباد کرسکتی ہے۔
یہ سب تو ہم سب ایک عرصہ سے مختلف انداز اور اسلوب میں پڑھتے چلے آ رہے ہیں۔
آج نیا دور، نئی سوچ لیے ہمارے معاشرے کی دہلیز لانگنے کو کھڑا ہے اور
گزشتہ سے پیوستہ نسل اس کے آگے بند باندھنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن مقام
حیرت تو یہ ہے کہ دور جدید نے ہمارے معاشرے پر جو اثرات بد مرتب کیے ہیں آج
کی نسل نہایت خوش دلی سے انہیں خوش آمدید کہتی ہے اور جدت کے نام پر عورت
کی وہ رسوائی ہو رہی ہے کہ الامان الحفیظ!
ہم سول سوسائٹی کے خلاف نہیں ،ہم لبرل طبقے کو بھی نہیں چھیڑتے ، جس نے
’’میرا جسم ،میری مرضی‘‘ جیسا فاش نعرہ دے کر عورت کو تباہی کے دہانے پر لا
کھڑا کیا ہے۔ ہمارا سوال تو ان لوگوں سے ہے جو وطن عزیز اور دین عزیز ترین
کے آمین ہونے کے داعی ہیں ان کی عقلوں پر کون سا پردہ پڑ گیا ہے جو وہ آدھا
تیتر آدھا بٹیر بن کر کوئی خاص قسم کا فخر محسوس کرنے کو کوششوں میں دل و
جان سے مصروف ہیں۔ آپ نے یقیناً محسوس کیا ہوگا کہ جب ابتدا میں ہم نے
ڈرامے دیکھنا شروع کئے تھے تب ہمیں بہنوں بیٹیوں کی موجودگی کی وجہ سے
ڈرامے کے کئی مراحل پر ناگواری محسوس ہوتی تھی لیکن آج !کسی صابن کے اشتہار
میں جب ایک خاتون کو نہاتے ہوئے جسم پر صابن لگاتے دکھایا جاتا ہے تو جنبش
بھی پیدا نہیں ہوتی کیونکہ مچھلی کی طرح پانی میں رہ رہ کے ہم یہ بھول چکے
ہیں کہ یوں پانی میں رہنا ڈوبنے کا باعث ہے۔آج فلمی انداز کے نیم برہنہ
لباس جب ہم اپنی معصوم بچیوں کو پہناتے ہیں تو درحقیقت ہم انہیں اس ناری
ماحول کی طرف لے کے جا رہے ہوتے ہیں جو جسم کو جلا دیتا ہے۔
یونیورسٹی میں کسی لڑکی کا لڑکوں کے ساتھ مل بیٹھنا اب والدین کو بھی برا
نہیں لگتا کیونکہ ہم مینڈک کی طرح گرم پانی میں خود کو ڈھالتے جا رہے ہیں۔
تہذیب جو کسی مذہب اور خطے کا لباس ہوتی ہے اسے ہم تاریخ کی کتابوں میں بند
کرتے جا رہے ہیں۔ ٹیلی ویژن کی اسکرین سے لے شادی بیاہ اور منگنی کی تقاریب
تک ہم ایک جس ماحول کی طرف بڑھ رہے ہیں یہ ماحول کل تک ہمارے آباؤ اجداد کے
سامنے حد درجہ قابل نفرت تھا۔
میری عزیز بہنو!اپنے آپ کو دیکھو اور اپنی آنے والی نسلوں کو بچاؤ؛ کہیں ہم
اس آگ کے تو نہیں بنتے جا رہے جو کل تک ہمیں جلاتی رہی تھی؟ شرم و حیا جو
مسلمان کے لیے کئی برائیوں کے خلاف ایک ڈھال کی حیثیت رکھتی ہے کہیں ہم یہ
ڈھال پھینک تو نہیں رہے؟ کہیں ہم وہ بیج تو نہیں بو رہے جس کی جڑیں کل کو
ہماری عمارت ہی اکھاڑ پھینکیں گی؟ اے بنت حوا! رب العالمین نے تجھے معاشرے
کے ماتھے کا جھومر بنایا ہے اور تو ان دیسی انگریزوں کے دام میں گرفتار ہو
کر پیروں میں گرتی جا رہی ہے۔ خدارا اب بھی دیر نہیں ہوئی! سمیٹ لے خود کو
! کہ اسی میں تیرا بھلا ہے، اسی میں تیرا احترام، اسی میں تیرا وقار اور
اسی میں تیرا مقام ہے۔ وہ مقام جو تیری نادانیوں کے باعث تیرے ہاتھوں سے
پھسلتا جا رہا ہے۔
|