تذکرہ پیغمبر ِانقلاب ﷺ کا

اسےعرب افریقہ کی کان سے نکلا کوئلہ سمجھ کر لائے تھے۔ لیکن جب اسے آفتاب رسالت کی کرنوں نے چھواتو معلوم ہواکہ یہ تو دنیا کا سب سے قیمتی ہیراہے۔ جسے عرب مٹی کے ذروں کے برابر سمجھتے تھے وہ عشق مصطفی ﷺ سے فیضیاب ہو کر ایسا ستارہ بن جو تا قیامت راہ روان حق کو جنت کی سمت بتاتا رہے گا ۔ دستور عرب کے مطابق ظلم کے ستائے اس غلام کو ایک روز بخار ہو جاتا ہے۔ اور اسکا عرب آقا اسے جو پسینے کا کہہ کر چلا جاتا ہے۔ بخار کی شدت کی وجہ سے یہ غلام کانپنے لگتا ہے اور اوڑھنی اوڑھ کر سو جاتا ہے۔ رات کواس کا مالک یہ دیکھنے چلا جاتا ہے کہ غلام جَو پیس رہا ہے یا نہیں۔ وہ غلام کو سوتادیکھ کر سیخ پا ہوجاتا ہے۔ اس غلام کی قمیص بھی اتار کراسے دروازے میں بٹھا دیتا ہے۔ کہ اب یہاں بیٹھ کر جَو پیسو۔ یہ جَو پیستا جاتا تھااور روتا جاتا تھا۔ کہ ایک نورانی چہرے والا شخص دروازے پہ دستک دیتا ہے۔ یہ غلام اسے اندر آنے کا کہتا ہےتو وہ اندر آکر اس سے رونے کا سبب دریافت کرتا ہے۔ یہ غلام نا امیدی اور مایو سی سے کہتا ہے۔ کہ جاؤ چلے جاؤ تم صرف پوچھوگےکرنا توتم نے کچھ نہیں۔ وہ نورانی چہرے والا شخص تلخ جواب سن کر اٹھتا ہے اور چل پڑتا ہے۔ تو غلامکہتا ہے کہ میں نے کہا تھاکہ تم نے کرنا کچھ نہیں۔ وہ شخص سنی ان سنی کر کےچلا جاتا ہے۔ یہ غلام اور زیادہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے کہ جس نے اتنی محبت اور پیار سے پوچھا تھا شاید وہ مدد بھی کردیتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس وقت اس حبشی غلام کو خبر نہیں تھی کہ جس سے وہ مایوس ہو رہا ہےوہ دنیا میں رحمت للعالمین ﷺ بنا کر بھیجا گیا ہے۔کچھ دیر گزری تھی کہ وہی شخص دودھ کا جام اورکھجوریں لئے آتا ہے اور اس حبشی غلام کو پیش کردیتا ہے۔ جب یہ غلام کھ پی لیتا ہےتو شخص کہتا ہےجا کر سو جاؤ ۔ تو غلام کہتا ہےکہ میرےمالک نے جَو پیسنے کیلیے دیئے تھے ۔ اگر رات کو یہ نہ پیسے تو وہ مجھ پر تشدد کریگا۔ اس شخص نے کہا کہ تم سو جاؤ اور مجھ سے پیسے ہوئے جَو لے لینا۔وہ غلام تو سو گیا اور آقائے دو جہاں رات کو جَو پیستا رہا۔ اس نے ایسا تین دن تک کیا، جب تک غلام صحت مند ہو گیا ۔ روبصحت ہوتے ساتھ ہی وہ جان گیا۔ کہ دودھ کا پیالہ لے کر آنے والا ہی ساقیٔ کوثر ہے۔یہیں سے اس غلام کی داستانِ عشق شروع ہوتی ہے ۔اس نے حبشی غلام کی حیثیت سے آنکھ کھولی تھی لیکن محمد ﷺ کی غلامی نے اسے سیدنا (ہمارا آقا)بلال رضی اللہ عنہ بنا دیا۔ جی ہاں وہی بلال رضی اللہ عنہ جسے مکہ کی گلیوں میں گھسیٹا گیا۔ اور اسکے جسم کے پسینے نے عرب کے ریگزاروں کی گرمی میں تپتی ریت کو ٹھندا کیا۔ جس کےسینے پہ پتھر کی بھاری سل رکھ کر جسم پہ کوڑے برسائے گئے ، اور وہ اکھڑی سانسوں کے ساتھ بھی نعرۂ عشق " احد احد" کی پکار پہ ڈٹا رہا۔وہی بلالؓ جس کے قدموں کی چاپ نبی مہرباں ﷺنے جنت میں سنی۔ وہی بلالؓ جس کی آذاں کے بغیر صبح نے طلوع ہونے سے انکار کر دیا تھا ۔ وہی بلال ؓجسے مسجد حرام ، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کا پہلا مؤذن ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔ جو مؤذن رسول ﷺ کہلائے اور فتح مکہ کے وقت جب عرب کے بڑے بڑے سپوت ہاتھ باندھے کھڑے تھے اور نبی مہربان کا ارشاد ہوتا ہے بلالؓ کعبے کی چھت پہ چڑھ جاؤ اور اذان دو اور یہ حبشی غلام کعبے کی چھت پہ کھڑا اذان دیتا ہے۔مکہ کی ریت میں سڑتا بلال ؓ کعبے کی چھت پہ کھڑا اذان دیتا ہے ۔
سلام اس پر جس نے بے کسوں کی دستگیری کی
سلام اس پر جس نے بادشاہی میں فقیری کی

یہ آفتاب رسالت ﷺ صرف بلال ؓ پہ ہی روشن نہیں ہوا بلکہ اس کی کرنوں نے پورے عرب و عجم کو روشن کیا ہے ۔ اسی سورج کی کرنوں نے عمر ابن الخطاب جیسے بارعب اور صاحب جلال شخص کو عدل کے استعارے میں ڈھال دیا ۔وہی عمر ابن الخطاب جو ننگی تلوار لئے قتل نبی کے ارادے سے نکلے تھے لیکن عمر ؓ کے حق میں نکلی سرکار دوعالم کی دعا عرش معلی ٰ پہ شرف قبولیت حاصل کر چکی تھی اور یہی عمر ابن الخطاب گرویدہ ٔ رسول ﷺ ہو گئے ۔ یہ وہی نور نبوت ہے جس کی روشنی نے مصعب ؓبن عمیر کو اپنے مال و دولت، جاہ و حشم کو چھوڑ کر درویش بن جانے پہ آمادہ کر لیا کیونکہ یہ درویشی بر حق تھی اور وہ جاہ و حشم محض سراب تھا۔یہ وہی سورج تھا جس کی کرنوں نے آل یاسر کے دلوں میں گھر کیا تو انہوں نے حق کی خاطر اپنی جانیں تک لٹا دیں مگر حق پہ ڈٹے رہے ۔آفتاب رسالت کی کرنوں نے ابو بکر ؓ کو بھی منور کیا اور عزیمت کا پہاڑ بنا ڈالا، عثمان ابن عفان ؓ کو بھی ذولنوریں بنا ڈالا اور ان کے ہاتھ میں ایسی برکت عطا کی کی ان کے صدقات آج چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود جاری و ساری ہیں ۔اسی منبع نور نے علی ؓ کو باب العلم بنا دیا اور شجاعت حیدری تو خود ایک استعارہ ہے ۔ جنہیں دیدار مصطفی ٰ عطا ہوا ان کا عشق تو سمجھ بھی آتا ہے لیکن اویس قرنی جیسے محبان رسول ﷺ بھی اہل ایمان کا قیمتی اثاثہ ہیں جو نبی ﷺ سے ملاقات تو نہ کر سکے لیکن حب رسول ﷺ نے انہیں اتنا قرب الٰہی عطا کیا کہ عشرہ مبشرہ بھی ان سے دعائیں کرانے لگے ۔ جو شمع رسالت کے پروانے بنے انہوں نے تو خوب فیض پایا لیکن جو راستے کا پتھر بنے انہیں بھی دعاؤں سے نوازا۔ جب اہل طائف نے پتھر مار مار کر نبی مہربان کو لہولہان کر دیا اور ملک الجبال رب کے حکم سے نازل ہوئے اور اہل طائف کو پہاڑوں کے درمیان کچل ڈالنے کی اجازت طلب کی تو اس پیکر رحمت ﷺ نے اپنے زخمی جسم کو بھلا کر رب سے ان کے لئے رحم کی دعا کی اور فرمایا یہ لوگ مجھے نہیں جانتے شاید ان کی اولاد ایمان لے آئے ۔ یہ ان کی دعا تھی کہ اہل طائف ایمان لے آئے اور انہی اہل طائف کے ایک بطل جلیل محمد بن قاسم نے ہندوستان میں اسلام کا جھنڈا گاڑھا اور آج یہاں کروڑوں مسلمان آباد ہیں ۔
سلام اس پرکہ اسرار محبت جس نے سکھلائے
سلام اس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے
سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں

اس نورمجسم نے توجزیرہ نما عرب میں ایک انقلاب برپا کر کے رکھ دیا ۔ 23 برس کی جانفشانی نے عرب کا نقشہ ہی بدل دیا ۔مکہ جو شرک کا مرکز تھا،کعبۃ اللہ میں تین سو سے زائد بت رکھے تھے ، کسی بت کو لات کہتے تھے کسی کو منات کہتے تھے اور حبل نامی بڑے بت کو بتوں کا باپ کہتے تھے؛ وہ مکہ توحید کا مرکز بن گیا ۔ جو لوگ توحید پرستوں کے دشمن اور خون کے پیاسے تھے وہ خود توحید کے علمبردار اور جان نثار بن گئے۔ جو ظالم تھے وہ رحمدل و عادل بن گئے ۔جو لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے وہ عورت کے احترام کے قائل ہو گئے ۔ جہاں فحاشی و زنا عام تھا وہاں حیاء اور پاکدامنی کا چلن ہوگیا۔شراب مکہ سے ایسے غائب ہوئی جیسے اس قوم نے کبھی شراب دیکھی ہی نہیں ۔ جو مال و عزت لوٹ کر فخر کرتے تھے وہ ایسے پر امن ہو گئے کہ ہزاروں میل سے کوئی عورت زیورات سے لدی اکیلی سفر کرتی تو اسے سوائے جنگلی درندوں کے اور کسی کا ڈر اور خوف نہ ہوتا ۔ جو لوگ حق مار کر فخر کرتے تھے وہ حق لے کر حقدار ڈھونڈتے پھر تے تھے ۔لوگ بھی وہی تھے زمین بھی وہی تھی لیکن مکہ وہ مکہ نہ تھا جو آفتاب نبوت کے طلوع ہونے سے قبل تھا ۔ اگر کوئی شخص اعلان نبوت سے پہلے مکہ سے نکلتا اور پھر وصال نبی ﷺ کے وقت مکہ میں واپس آتا تو یقیناً کہہ دیتا کہ یہ وہ مکہ نہیں جسے میں چھوڑ کر گیا تھا۔خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر حق کے پروانوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی ۔یہ تغیر یہ انقلاب کیونکر برپا ہوا ۔ دور حاضر میں اسلام سے خار کھانے والے اہل مغرب نے یہ افواہ عام کر رکھی ہے کہ اسلام تو محض جنگ و جدل کا نام ہے اور دنیا میں اسلام تلوار کے ذریعے پھیلا ہے ۔ تہذیب و تمدن کے دعویدار مغرب نے اسلام پہ یہ الزام تو دھر دیا لیکن کبھی یہ نہیں بتایا کہ اس انقلاب میں کتنا خون بہایا گیا ۔ سن 2 ہجری سے لے کر وصال نبی ﷺ تک آٹھ برس کا عرصہ بنتا ہے جس میں کل 83 جنگیں لڑی گئیں جن میں غزوات اور سرایا دونوں شامل ہیں ۔ ان 83 جنگوں میں طرفین کی جانب سے کل 1027 کی جانیں گئی ہیں ۔ اب اس تعداد کا موازنہ خود کو تہذیب اور امن عالم کا مجاور کہنے والے غیرمسلموں کے انقلابات سے کرتے ہیں ۔ انقلاب فرانس میں 86 لاکھ افراد قتل ہوئے ۔انقلاب روس نے ایک کروڑ افراد کی جان لی ۔امریکہ نے خود کو بالادست کرنے کے لئے 1945 میں جاپان کے دو شہرناگاساکی اورہیروشیما کوصفحہ ہستی سے نیست و بابود کر ڈالا۔مجموعی طور پر جنگ عظیم دوم میں 5 کروڑ آدمی کام آئے ۔پہلی جنگ عظیم میں 2 کروڑ لوگ لقمۂ اجل بنے۔ دنیا میں سب سے کم انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ اگر کوئی انقلاب آیا ہے تو وہ یہی انقلاب مکہ ہے ۔جس میں دلوں کو فتح کیا گیا۔اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے دل بدل جانے کی وجہ یہ تھی کہ نبی مہرباں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا کبھی وعدہ خلافی نہیں کی ۔انہوں نے کبھی امانت میں خیانت نہیں کی حق ہمیشہ حقدار تک پہنچایا ، انہوں نے ہمیشہ عدالت کا مظاہرہ کیا معیشت میں عدل ، معاشرت میں عدل سیاست میں عدل اور یہی عدالتتھی جس پہ مساوات اسلامی قائم تھی نہ کوئی ادنی نہ کوئی اعلی تمام آدم زاد برابر ہیں اگر کوئی فضیلت ہے تو تقوی کی بنیاد پہ ۔ اور سب سے اہم شجاعت ،گزشتہ تمام خوبیوں کا دفاع اگر ہوا ہے تو شجاعت کے ساتھ ہوا ہے ۔نبی ﷺ ہر میدان میں ڈٹے رہے ہیں کبھی پشت نہیں دکھائی ۔ان چار خوبیوں کو لے کر خدمت انسانیت کے جذبے سے دعوت کے میدان میں اترے ، دل خود بخود بدلتے رہے اور ثابت قدمی اور دلجمعی سے اس عمل کو جاری رکھا تو انقلاب کی منزل نے قدم بوسی کی ۔
درود اس پر کہ جس کے تذکرے ہیں پاک بازوں میں
درود اس پر کہ جس کا نام لیتے ہیں نمازوں میں

اس پر امن انقلاب کا ایک اور پہلو بھی ہے جو موجودہ دور سے متعلق ہے ۔ایک بار پھر فتح مکہ کے دن کو دیکھیے لشکر اسلام مکہ میں داخل ہو رہا ہے ہر کسی کے دل میں خوف ہے ، دہشت ہےکہ کیا ہونے والا ہے ۔ ہر کوئی اپنے تئیں یہ سمجھا تھا کہ اب مسلمانوں نے کھل کر انتقام لینا ہے جیسا کہ فاتح قوموں کا شیوہ ہے ۔ لیکن فاتح ِمکہ تو رحمۃ للعالمین ہیں ۔ اعلان ہوتا ہے ہر اس شخص کو امان ہے جو اپنے گھر کے اندر ہے ، ہر اس شخص کو امان ہے جو بیت اللہ کے اندر ہے ہر اس شخص کو امان ہے جو ابو سفیان کے گھر پہ ہے ہر اس شخص کو امان ہے جو ام ہانی کے گھر پہ ہے ۔ ۔امان کا یہ اعلان اگرچہ تمام لوگوں کے لئے عام تھا لیکن چند افراد اُس سے مستثنیٰ تھے جنہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کا ارتکاب کیا جس کی وجہ وہ قابل گردن زدنی ہوچکے تھے اس لئے ان کے قتل کا حکم دیا گیا ۔ ایک گستاخ کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اسے قتل کرڈالو اگرچہ وہ خانہ کعبہ کے غلاف سے چمٹا ہوا ہو۔ ہر شخص خانہ کعبہ میں داخل ہوتے ہی امن و سلامتی پالیتا ہے اگر کوئی حرم شریف میں اپنے باپ کے قاتل کو بھی دیکھ لے تو اس کو یہ حق نہیں کہ حرم شریف میں اسے تکلیف پہنچائے لیکن ان افراد نے بارگاہِ نبوت میں گستاخی کرکے ایسے جرم کا ارتکاب کیا کہ زمین کا کوئی خطہ ان کی پناہ گاہ نہیں بن سکتا تھا یہاں تک کہ وہ حرم کعبہ میں غلاف کعبہ سے چمٹے ہوئے ہوں تب بھی اُنہیں امان نہ ملتا۔ ان گستاخوں کا انجام صرف یہ تھا کہ انہیں قتل کردیا جائے۔ ان میں عبدالعزیٰ بن خطل کعبہ کے پردوں میں چھپ گیا تھا ، حضرت سعید بن حریث مخزومی رضی اللہ عنہ نے قتل کیا۔ حویرث بن نقید اور حارث بن ہشام ان دونوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قتل کیا۔ مقیس بن صبابہ کونُمَیْلَہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے قتل کیا ، ’’قریبہ‘‘ یہ ابن خطل کی باندی تھی اس کو بھی قتل کیا گیا۔(نسائی شریف ۔ ص 169، سبل الھدی ۔ ج5۔ ص225/226) اسی طرح مدینہ میں بھی کعب بن اشرف اور دیگر گستاخان رسول کا سر تن سے جدا کیا گیا ۔ البتہ کعب بن زہیر اور عکرمہ بن ابوجہل رضی اللہ عنہما کا ذکر ہمیں ملتا ہے کہ دونوں کے بارے میں بھی یہی حکم دیا گیا تھا لیکن بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر انہوں نے اسلام قبول کر لیا اس لئے انہیں معاف کر دیا گیا۔ اس پہلو سے یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ نبی ﷺ کی شان میں نازیبا الفاظ (گالی گلوچ) کرنا اور لوگوں کو اس طرف ابھارنا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کی معافی نہیں ہےخواہ اسکا مرتکب بیت اللہ میں بھی پناہ لے لے ۔اور کسی مسلمان کے لئے یہ روا نہیں کہ وہ کسی ایسے عمل کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرے ۔
سلام اس پر کہ جس کے نام لیوا ہر زمانے میں
بڑھادیتے ہیں ٹکڑا، سرفروشی کے فسانے میں

سیرت کے گلدستے سے کسی بھی پھول کو اٹھا لیں اسکی اپنی رعنائ ہے اسکی اپنی مہکار ہے ۔ سیرت کے کسی بھی گوشے کا مطالعہ کریں تو اس میں زندگی کے لئے ہدایت کاسامان ملتا ہے ۔سیرت کا آج کے مسلماں کے لئے یہی پیغام ہے کہ اپنی زندگیوں کو اسوہ ٔ رسول ﷺ کے تابع کر دیں دنیا و آخرت کی کامیابی ہمارا مقدر بنے گی ۔ہماری پستی کی وجہ یہی ہے کہ
تیرے حسن خلق کی اک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے در و بام کو تو سجا دیا

ہمیں سیرت یہ پیغام دے رہی ہے کہ دو رنگی اور منافقت چھوڑ کر صرف للہیت کو اپنائیں ۔ اپنی نجی اور اجتماعی زندگی میں جھوٹ کو ترک کر کے صداقت کو اپنائیں ۔گھماؤ (یو ٹرن) کی پالیسی ترک کر کے ایفائے عہد کو اپنا شعار بنائیں ، اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی سے ہر سطح پہ خیانت چھوڑ کر امانت داری اختیار کریں ۔ سیرت ہمیں یہ درس ہے کہ کسی سے اسکی قوم اور نسل کی بنا پر امتیاز نہ کریں بلکہ دشمن سے بھی محبت کریں ۔ دشمنی اور محبت کا معیار للہیت ہی کو ہونا چاہیے ۔احترام انسانیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور تکفیر مسلماں سےگریز کرنا چاہئے ۔خو د کو ان اوصاف حمیدہ سے متصف کریں جو اللہ اور اسکے رسول ﷺ کو پسند ہیں اور ان اعمال سے اجتناب کریں جس دے ہمارے پیغمبر نے منع فرمایا ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں نبی ﷺ کے اسوہ پہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین ۔
 

Raja Muhammad Attique Afsar
About the Author: Raja Muhammad Attique Afsar Read More Articles by Raja Muhammad Attique Afsar: 85 Articles with 105215 views Working as Assistant Controller of Examinations at Qurtuba University of Science & IT Peshawar.. View More