تحریک پاکستان کا ایک لازوال ہیرو_محمد رشید قریشی رح

آج بہتر سال گزرنے کے بعد ایک بار پھر ہمارے یہاں ایک طبقہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ سکھ ہمارے دوست اور ہمدرد ہیں۔انڈیا کے مقابل پاکستان کا ساتھ دیں گے کرتا پور کو لیکر محبت کی پینگیں بڑھائی جارہی ہیں مگر یاد رہے کہ انسان کی سرشت کبھی بدلتی ہے نہ اقوام کی جبلت ۔ہمیں محتاط طرز عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

کراچی کا ریلوے اسٹیشن ہے ۔

تقسیم ہند کے بعد کافی عرصے تک ہندوستان کے مسلم اقلیتی علاقوں سےمسلمانوں کے لٹے پٹے قافلے بذریعہ ٹرین ہجرت کر کے پاکستان آتے رہے۔ماضی کے دکھ سمیٹے اور مستقبل کے اندیشے لیئے ان مفلوک الحال اور بے آسرا خاندانوں کا پہلا پڑاؤ یہی ریلوے اسٹیشن ہوتا ۔

نیا نیا ملک بنا تھا ۔لوگوں میں اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ یہ جذبہ ہجرت مدینہ کی یادیں تازہ کررہا تھا۔
ایسے میں رشید صاحب بےآسرا مہاجرین کی مدد میں سرگرم عمل دکھائی دیتے ہیں ۔اپنی سرکاری ملازمت سے فارغ ہوکر روزانہ سیدھا ریلوے اسٹیشن آجاتے ہیں تاکہ
بےسروسامانی کے عالم میں پہنچنے والے مسافروں کی مدد کرسکیں اور انکی رہائش اور کھانے پینے کا بندوبست کرہں۔
اسی دوران میں رشید صاحب کو کلیم میں شکارپور کالونی میں شاندار بنگلہ الاٹ ہوگیا۔مگر رشید صاحب نے اسکو مہاجرین کا مہمان خانہ بنادیا ۔اسٹیشن سے مہاجرین کو اپنے ساتھ بنگلہ پر لے آتے اپنے محدود وسائل کے باوجود انکی مہمان نوازی کرتے یہ فیملیز اس وقت تک انکے یہاں مقیم رہتیں جب تک انکی رہائش کا کوئی دوسرا بندوبست نہ ہوجاتا۔پھر جب مہاجرین کا رش زیادہ بڑھنے لگا اور جگہ تنگ پڑنے لگی تو آفرین ہے رشید صاحب پر کہ اس بنگلہ کو مکمل طور پر مہاجرین کیلے وقف کردیا اور اپنی فیملی کو لیکر سرکاری کوارٹر میں منتقل ہوگئے ۔

جب لوگ جھوٹے کلیم داخل کروا کر بڑی بڑی عمارتیں اپنے نام الاٹ کروا رہے تھے۔اور نئے ملک کی بنیادیں جس کے لیے لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کیا گا انکو کھوکھلا کررہے تھے وہیں رشید صاحب جیسے انمول مجاہد اس نوخیز اور نوزائیدہ مملکت کی بقا اور سربلندی کیلیے تن من اور دھن کی بازی لگا کر اس مملکت کو مضبوط اور توانا بنیادیں فراہم کر رہے تھے ۔
یہی وہ بنیادیں تھیں کہ جن پر اس مملکت خداداد کی بلند و بالا عمارت قائم ہونے جارہی تھی۔

رشید صاحب کی شخصیت کو جاننے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ۔

نگاہ بلند سخن دل نواز جاں پرسوز

دراز قد کھلتی ہوئی رنگٹ کشادہ پیشانی کتابی جہرہ ، چہرہ پر متانت اور سنجیدگی ،جناح کیپ اور شیروانی میں ملبوس ایک متوازن مزاج شخصیت کہ جس کہ رگ و پے میں اسلام پسندی حب الوطنی، ایثار وفا محبت خلوص اور روا داری خون بنکر دوڑ رہی تھی۔یہ سراپا ایثار و رضا کون تھا۔
یہ تھا ۔
تحریک پاکستان کا ایک سچا سپاہی پیکر عہد ووفا جناب محمد رشید قریشی ۔
آئیے انکی شخصیت کا ایک نیا روپ دنیا کے سامنے لاتے ہیں جو آج تک دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے اس کیلیے ہمیں ماضی کے بند جھروکوں میں جھانکنا پڑے گا۔

ماضی کا ورق الٹ کر دیکھیں تو 1930 کا دور ہے جب مسملانان ہند کے حقوق کی جنگ لڑنے والی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ نے علامہ اقبال کے افکار کی روشنی میں نظریہ پاکستان کی بنیاد رکھ دی تھی اور تحریک پاکستان شروع ہوچکی تھی ۔ بچہ بچہ بوڑھے جوان خصوصا مشرقی پنجاب کے نوجوان اسکا ہراول دستہ تھے ۔اسی ہنگامہ خیز دور میں مشرقی پنجاب کے شہر کلانور میں جوکہ عظیم مغل بادشاہ اکبر کا پایہ تخت رہا ہے وہاں کا ایک نونہال محمد رشید علامہ اقبال کے خوابوں کو اپنی آنکھوں میں بسائے تعلیمی منازل طے کرتا جارہا تھا اور بالآخر برٹش گورنمنٹ میں سرکاری ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔اسکی پوسٹنگ شملہ میں ہوگئی ۔یہاں اسکو انگریز اور ہندووں کے گٹھ جوڑ کا اندازہ ہوا اور وہ جان گیا کہ مسلمانان ہند کی بقا اور سربلندی صرف اور قائدا اعظم ہی کے نظریات سے وابستہ ہے۔
3 جون 1947 کو برٹش گورنمنٹ نے تقسیم ہند کے منصوبے کا اعلان کیا تو پورے ہندوستان خصوصا مشرقی پنجاب میں ایک طے شدہ منصوبے کے تحت مسلم کش فسادات شروع ہوگے ۔محمد رشید کی پوسٹنگ اس وقت دہلی میں تھی وہ جلد از جلد اپنے شہر پہنچ کر اپنے گھر والوں کے ساتھ ہجرت کرنا چاہتا تھا تاکہ اپنے آزاد ملک پاکستان پہنچ کر اپنے خوابوں کی تعبیر پاسکے۔مگر دیلی سے کلانور تک خاک و خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی۔ہندو اور سکھ مسلمانوں کے خون کے پیاسے بن چکے تھے ۔گرداسپور اور ملحقہ مسلم اکثریت کے علاقوں میں مسلمانوں کو یقین تھا کہ وہ پاکستان میں شامل ہو جائیں گے اور بعض جگہوں پر مسلمان گومگو کی کیفیت میں مبتلا تھے۔بعض اس معاملے کی سنگینی کونہ بھانپ سکے اور اس خوشگمانی کا شکار رہے کہ کچھ بھی ہوجائے مگر سکھ ہمارے دکھ سکھ کے ساتھی ہیں ہندووں کے مقابل ہمارا ساتھ دیں گے۔مگر دنیا نے دیکھا کہ سکھوں نے مسلمانوں پر وہ انسانیت سوز مظالم ڈھاٹے کہ انسانیت شرما گئی ۔
آج بہتر سال گزرنے کے بعد ایک بار پھر ہمارے یہاں ایک طبقہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ سکھ ہمارے دوست اور ہمدرد ہیں۔انڈیا کے مقابل پاکستان کا ساتھ دیں گے کرتا پور کو لیکر محبت کی پینگیں بڑھائی جارہی ہیں مگر یاد رہے کہ انسان کی سرشت کبھی بدلتی ہے نہ اقوام کی جبلت ۔ہمیں محتاط طرز عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔مشرقی پنجاب کے سکھ مصلحتا بظاہر تو ہمارا ساتھ دیتے دکھائی دیں گے مگر انکے فطری اتحادی ہمارے دشمن ہی رہیں گے۔

نہ ہم بدلے نہ تم بدلے نہ دل کی آرزو بدلی
میں کیسے اعتبار انقلاب آسماں کر لوں

بہرحال رشید اور اسکا خاندان کسی نہ کسی طرح جان بچاتے دیلی اسٹیشن پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تاکہ بذریعہ ٹرین پاکستان پہنچ سکیں ۔ٹرین کیا تھی لٹے پٹے روتے سسکتے انسانوں کا ایک سیل رواں تھا جو کہ اپنے خون سے دنیا کی سب سے بڑی ہجرت کی المناک تاریخ مرتب کرہا تھا۔
ٹرین امرتسر کے قریب سے گزر رہی تھی تو رشید نے دیکھا کہ راستے میں بلوایئوں کے جتھے کے جھتے انسانیت کے قتل عام میں مصروف ہیں ۔
امرتسر سے واہگہ کا فاصلہ تقریبا 32 کلومیٹر ہے ۔
یہ 32 کلومیٹر کا سفر مسلمانوں کیلیے سوہان روح تھا۔آایک آگ کا دریا تھا اور ڈوب کر جانا تھا۔
ٹرین اٹاری شیام سنگھ اسٹیشن پر پہنچی توکھڑکی میں بیٹھے رشید نے رات کی تاریکی میں چمکتی کرپانوں اور لہراتے بالوں کو دور ہی سے دیکھ لیا جو چلتی ٹرین پر سوار ہو رہے تھے اس نے ایک نظر ٹرین کے ڈبہ میں بیٹھے مسافروں پر ڈالی ڈبہ کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ناتواں بوڑھے نہتے مرد اور خوفزدہ عورتیں ۔ان سب کے چہروں پر موت کے سائے لرز اں تھے۔ ہر آہٹ پر موت دستک دیتی سنائی دے رہی تھی ۔
رشید کی نظر وں میں گذشتہ چند دنوں میں گزرے تمام واقعات گھومنے لگے۔چشم تصور میں مردوں اورعورتوں کی سربریدہ لاشیں اور بھالے کی نوک میں پروئے شیر خوار بچے نظر آئے اور نسوانی چیخیں کانوں میں گونجتی سنائی دیں ۔ اس نے فورا ان سب کی جان بچانے کا فیصلہ کیا اور اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہ کھڑکی کے راستہ باہر نکل کر آخری بوگی تک پہنچ گیا جسمیں بلوائی سوار تھے ،
آپ جانتے ہیں کہ دو بوگیوں کو مضبوط اسکرو کی مدد سے ایک دوسرے سے باہم جوڑا جاتا ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے منسلک رہیں ، راشد نے کلہاڑی کی مدد سے ، جو سفر پر نکلتے وقت کسی بھی خطرے سے نمٹنے کیلیے اپنے پاس رکھ لی تھی ، وہ اسکرو کاٹ ڈالا اور اسطرح وہ بوگی بقایا ٹرین سے کٹ کر علحیدہ ہوگئی مگر اس سخت جدوجہد میں وہ خود ٹرین سے نیچے گر پڑا۔
جب ہوش آیا تو اپنے آپ کو دیہاتیوں کے درمیان پایا۔جنہوں نے اسکی خوب دیکھ بھال کی اور بتایا کہ تم دو دن تک بے ہوش رہے ہو ۔دو دن پہلے مسلمانوں سے بھری ٹرین پر سکھوں نے حملہ کردیا تھا۔وہ ٹرین میں سوار ہوگے تھے تاکہ مسلمانوں کو قتل کرسکیں ۔وہ آخری بوگیوں میں قتل عام میں مصروف تھے اور کچھ معصوم بچیوں کو اغوا کرکے اپنے ساتھ بھی لے گے۔وہ تو اللہ نے معجزہ کردیا اور اچانک جس بوگی میں بلوائی سوار تھے بقایا ٹرین سے علحیدہ ہوگئی اور کافی پیچھے رہ گی۔سکھ حملہ آور جتنی دیر میں صورتحال کو سمجھتے اور دوبارہ پلٹ کر حملہ آور ہوتے اتنی دیر میں ٹرین دو تین کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکےانڈیا کی حدود سے نکل کر کے پاکستان کی سرحد واہگہ بارڈر پر پہنچ گئی جوکہ اٹاری سے بمشکل تین کلومیٹر فاصلے پر تھا۔
اس طرح معجزاتی طور پر ہزاروں مسلمانوں کی جان اور عزتیں محفوظ رہیں ۔رشید نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اسکی محنت رائیگاں نہیں گئی ۔
14 اگست کے دن رشید ایک بلوچ رجمنٹ کے ٹرک پر سوار ہوکر لاہور پہنچ گیا۔وہاں صف ماتم بچھی ہوئی تھی سب یہی سمجھ رہے تھے کہ محمد رشید شہید ہوچکا ہے۔
15 اگست کو امرتسر جو سکھوں کا مذہبی شہر ہے وہاں فتح کا جشن منایا گیا۔نشہ میں مست سکھوں نے وہ کیا کہ جسکی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی ۔ان سفاکانہ اور وحشی درندوں نے عفت ماب مسلمان دوشیزاوں کوسربازار رسوا کیا انکا شرمناک جلوس نکالا ۔بعض کو قتل کردیا اور بعض کو زندہ جلادیا۔
محمد رشید قریشی تحریک پاکستان کے ایک ایسے خاموش سپاہی تھے کہ جنھیں نہ کبھی ستائش کی تمنا رہی نہ ہی صلہ کی امید ۔وہ سپاہی کہ جسکی بہادری و دلیری اور بروقت جراتمندانہ کاروائی نے نہ صرف ہزاروں مسلمانوں کی جان بچائی بلکہ انکو اپنی منزل مقصود تک پہنچانے کیلیے اپنی جان کی بازی لگانے سے بھی گریز نہیں کیا ۔اور یوں شہید نہ سہی غازی بنکر اپنے نئے ملک پاکستان لوٹے۔
کیسے کیسے انمول غازی اور شہید تھے جو اپنی اس دھرتی کی آبیاری اپنے خون جگر سے کرکے منوں مٹی تلے جا سوئے ۔

یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
بخشا ہے جن کو تو نے ذوق خدائی
 

M Munnawar Saeed
About the Author: M Munnawar Saeed Read More Articles by M Munnawar Saeed: 37 Articles with 50214 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.