یہ بات عمران کے حق میں جاتی ہے کہ انہوں نے بغیر جنگ لڑے
بھارت پر پاکستان کی دھاک بٹھا دی ‘ مشکل حالات میں جس مہارت سے انہوں نے
مدبرانہ فیصلے کیے۔ اس کی بازگشت اب عالمی سطح پر سنی جارہی ہے ۔کچھ لوگ تو
یہ بھی کہتے سنے گئے کہ عمران خان ‘ پاکستان میں وزیر اعظم ‘ بھارت میں
اپوزیشن لیڈر اور عالمی سطح پر امن کے داعی تسلیم کیے جاتے ہیں ۔ جنگ کو
روکنا جنگ شروع کرنے سے زیادہ مشکل ہے ۔ عمران خان نے خوبصورت بات کی کہ
کچھ لوگ مجھے امن کے نوبل انعام کا حقدار قرار دے رہے ہیں لیکن میں اس شخص
کواس اعزاز کا حق دار تسلیم کرتا ہوں جو کشمیر کو بھارت کے چنگل سے آزاد
کروائے گا۔ اس میں شک نہیں کہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کا اب عالمی
سطح پر تذکرہ کیاجارہا ہے بلکہ طیاروں کی تباہی کے بعد بھارت میں جس طرح
کشمیریوں اور بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کے خلاف انتہاء پسند ہندووں کی
جانب سے تشدد آمیز واقعات منظر عام پر آرہے ہیں ‘ وہ واقعات بھارت کے چہرے
پر سیاہ دھبے کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ انہی واقعات کانوٹس لیتے ہوئے اقوام
متحدہ کی جانب سے بھارت کو وارننگ جاری کی گئی کہ وہ اپنی اقلیتوں بالخصوص
مسلمانوں اور دلتوں کے حقوق کا تحفظ کرے ۔ان حالات میں عمران خان‘اگر خود
سلامتی کونسل کے رکن ممالک کا دورہ کرکے انہیں کشمیر میں بھارتی فوج کے
مظالم کی ویڈیو اور تصاویر دکھائیں اور بھارتی مسلمانوں کے خلاف انتہاء
پسند ہندووں کی جارحیت کی منظر کشی کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ سلامتی کونسل
کشمیر میں استصواب رائے کی قرار داد فوری طور پر عمل نہ ہوسکے ۔ اس میں شک
نہیں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے
پاکستان کا مقدمہ نہایت کامیابی سے لڑا جس کی تعریف بھارت میں بھی ہورہی ہے
۔ اﷲ کے فضل وکرم سے جو کامیابی پاک فضائیہ کے شاہینوں کی بدولت ہمیں حاصل
ہوئی اب ویسی ہی کامیابی ہمیں سفارتی محاذ پر حاصل کرنا ہوگی ۔ایک جانب
ہمارا ٹارگٹ سلامتی کونسل کے مستقل رکن ممالک تو دوسری جانب عرب ممالک کے
ذہن میں یہ بات ڈالنا ہوگی کہ او آئی سی کے مشترکہ اعلامیہ کو بھارت نے
مسترد کرکے خود کو عرب دشمن کا درجہ حاصل کرلیا ہے اب عرب ممالک کی سرمایہ
کاری کا حقدار بھارت نہیں پاکستان ہے جو عرب ممالک کو بیرونی جارحیت سے
بچانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے ۔ شیخ رشید کو غیر ملکی دورے پر بھیج کر
کشمیر کے مقدمے کو خراب نہ کیاجائے ان کے انداز گفتگو سے عمران خان خود
واقف ہیں اس لیے اگر سفارتی محاذ پر کامیابی حاصل کرنی ہے تو یہ کام وزیر
اعظم اور وزیر خارجہ کو خود کرناہوگا ۔ گھرکے معاملات بعد میں بھی حل کیے
جاسکتے ہیں لیکن اس وقت جبکہ بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن مسلسل گولہ باری
کی جارہی ہے ‘ اور جنگ کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں ۔ سنجیدگی کے ساتھ معاملات کو
آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ نریندر مودی کو دنیا کے مکار ترین شخص کا درجہ
حاصل ہے ‘ وہ اپنی خفت مٹانے کے لیے کسی بھی سطح پر جاسکتا ہے ‘جس کا ایک
اظہار جدید ہتھیاروں سے لیس بھارتی آبدوز کا پاکستانی سمندر میں نقب لگانا
ہے اگر پاک بحریہ ہائی الرٹ نہ ہوتی تو شاید بھارت اب تک اپنے نقصان کا
ازالہ کرچکا ہوتا ۔ خدا کا شکرہے کہ اس وقت افواج پاکستان کے تمام شعبے
اپنی اپنی جگہ متحرک اور مستعد ہیں ۔یہ بات بھی مشاہدے میں آئی کہ بھارت ‘
بیک وقت تمام پاکستانی ائیر بیسوں پر حملہ آور ہونے کا ارادہ رکھتا تھا ‘
جسے بروقت وارننگ دے کر روک دیا گیا۔کیا خبر پھر اس کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے
لگیں اوروہ اپنی شکست کا بدلہ چکانے کے لیے کوئی کارروائی کرگزرے ۔ اس
حوالے سے میں یہ تجویز دوں گاکہ مستقبل کی جنگی حکمت عملی کو مدنظر رکھتے
ہوئے پشاور سے کراچی تک موٹرویز کے اردگرد آٹھ دس مزید انڈ ر گراؤنڈ ائیر
بیس تیار کرلیے جائیں ۔جہاں طیاروں ‘ انجینئرنگ سٹاف اور پائلٹوں کی بحفاظت
موجودگی کو یقینی بنایا جاسکے اور بوقت ضرورت موٹرویز کو رن وے کے طور پر
استعمال کیاجائے ۔ علاوہ ازیں بھارتی سرحد کے ساتھ کنکریٹ کے مورچے تعمیر
کرنا بھی اشد ضروری ہے ‘ انسانی آبادیوں کو بین الاقوامی سرحد سے کم ازکم
بیس پچیس کلومیٹر کے فاصلے تک محدود رکھا جائے ۔یہ حیرت کا مقام ہے کہ اس
وقت DHA پھیلتا پھیلتا ‘بی آر بی کے ساتھ لاہور سے قصور تک جا پہنچا ہے ۔جبکہ
دیگر کتنی ہی ہاؤسنگ سکیمیں DHAکے ساتھ وابستہ ہیں ۔اگر ممکن ہوسکے تو بین
الاقوامی سرحد سے بی آر بی تک تین دفاعی حدبندیاں قائم کی جائیں ۔مکار دشمن
کا سامنا ہو تو ہر لمحے جنگ کے لیے تیار رہنا ہوگا ۔ کسی نے کیا خوب کہاہے
کہ قیادت کاامتحان مشکل وقت میں ہی ہوتا ہے ‘ بلاشہ عمران خان نے ایٹمی جنگ
کو روک کر جو کامیابی حاصل کی ہے اسے تقویت دینے کے لیے کشمیر ایشو کو
عالمی سطح پر مزید ایکسپو کرنا ضروری ہے ۔اگر ہم کشمیر کو بھارت کے چنگل سے
آزاد کروانے میں کامیاب ہوگئے تو سکھوں کو خالصتان بنانے میں وقت نہیں لگے
گا ۔ اس طرح پاکستان کے وہ دریا جو پانی کی قلت کا شکار ہیں ان میں بھی ایک
بار پھر بہار لوٹ آئے گی ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جس دانش مند ی اور تدبر
کا مظاہرہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران کیا گیا ‘اسی کامیابی حکمت عملی کا
مظاہرہ ہمیں اب کشمیرمیں استصواب رائے کروانے اور بھارتی مسلمانوں انتہاء
پسند ہندووں کے چنگل سے بچانے کے لیے کرنا ہوگا ۔ |