رسول اکرم ﷺ دنیا کی عظیم ہستی، دوسرے انبیاء و بانیان
مذاہب کے مقابلہ میں کہیں ممتاز اور نمایاں خصوصیت کی حامل ہے اور راسخ
العقیدہ مسلمانوں کوآپ ﷺ کی ذات گرامی سے گہری عقیدت اور اُنس و پیار ہے جس
کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کی عظمت اور کارناموں کا ذکر کر کے آپ ﷺکو
خراج تحسین پیش کیا ہے ۔ آپ ﷺکی زندگی کا ہر پہلو نوع انسانی کے لیے روشنی
کا مینار ہے جس کے ہر گوشہ کا مطالعہ کرنا ضروری ہے ۔ آپ ﷺکی ذات جس کاملیت
اور جامعیت کی حامل ہے اس کے پیش نظر سیرت نگاری کا کام آسان نہیں تا ہم
ماہرین نے جدیددور میں سیرت نگاری کیلئے چند اصولوں کو ضروری قرار دیا ہے
دونوں سیرت نگاروں کے حوالے سے ان اصول کا تقابل پیش ہے۔
بنیادی مآخذ سیرت سے استفادہ
سیرت کے اولین اور اصل original مآخذ پر اس کی بنیاد نہ ہو اور قرآن و حدیث
سے اس میں سرِ موانحراف نہ کیا گیا ہو، وہ موسوعیEncyclopedie طرزپر نہ
لکھی گئی ہو ۔ جس میں سارے معلومات بغیر کسی بحث و تمحیص کے بھر دیئے جاتے
ہیں اور ہر طرح کا ضروری و غیر ضروری مواد پیش کر دینا ضروری سمجھا جاتا ہے
، یہ وہ طرزِ تصنیف اور اسلوب تحریر ہے جس کے دورِ آخرکے اکثر مصنفین اور
بعض متقد مین بھی عادی رہے ہیں۔ یہ طرزِ بہت سے ایسے غیر ضروری اشکالات و
سوالات پیدا کرتا ہے جن سے سیرت نبوی بالکل بری و بے داغ ہو اور جس میں
بادیہ پیمائی اور آشفتہ سری کی مسلمانوں کو کوئی ضرورت نہیں، اس لیے کہ
تحقیق و تنقیح کا قلم (تجدد پسندانہ رجحانات اور مستشرقین کی تشکیک کا کوئی
اثر قبول کیے بغیر) اپنا کام کر چکا ہے۔(۱)
حسن بیان، حسن ترتیب، حسن انتخاب
واقعہ یہ ہے سیرت اپنے حسن و جمال ، اپنی موزونیت و لطافت اور اپنی اثر
انگیزی و دل آویزی کے لیے ، کسی بڑے آدمی کی سفارش، کسی حکیم کے علم و دانش
اور کسی ادیب اور صاحب قلم کے انداز نگارش یا رنگینی بیان کی محتاج نہیں اس
کے لیے زیادہ سے زیادہ ایک مصنف کو جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے ۔ حسن بیاں،
حسن ترتیب اور حسن انتخاب۔(۲)
دینی مسلمات و حقائق
ایک سیرت نگار ان دینی مسلمات اور حقائق کے ساتھ ہم آہنگ ہو جن کی روشنی و
رہبری کے بغیر، آسمانی کتابوں ، انبیاء کی سیرت و معجزات و غیبی واقعات و
حقائق کو صحیح طور پر سمجھنا مشکل ہے اور جو اس اصول پر کار بند اور اس
عقیدہ کا حامل ہو کہ یہ ایک نبی کی سیرت ہے جو اﷲ کی طرف سے دنیا میں مبعوث
کیا گیا ہے اور جس کو ہر دم و ہر لحظہ خدا کی نصرت و تائید حاصل تھی نہ کہ
کسی بڑے قومی لیڈر اور ملی رہنما کے حالاتِ زندگی، اس کا عقیدہ ہو کہ یہ وہ
سیرت ہے جو ہر منصف مزاج ، تعلیم یافتہ شخص(خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم)
کے سامنے کسی تحفظ Reservation، استشناء اور کسی تاویل کا سہارا لیے بغیر
پیش کی جا سکے۔(۳)
عربی پر مہارتِ تامہ
سیرت نگاری کے لیے لازمی ہے کہ وہ عربی زبان و ادب پر عبور رکھتا ہو، عربی
گرائمر، محاورات اور زبان و ادب کا ذوق حاصل ہو ۔ بقول سید سلیمان ندوی: جب
عربی زبان و ادب کا کچھ ذوق پیدا ہو ا تو اس نے اپنی ساری توجہ سیرت کے
عربی مآخذ پر مرکوز کردی ان میں سرِ فہرست دو کتابیں تھیں ، ایک ابنِ ہشام
کی کتاب ’’السیرۃ نبویۃ‘‘ دوسرے امام ابن القیم کی کتاب’’زاد المعاد‘‘ اس
نے کتابوں کو صرف علمی یا روایتی طریقہ سے پڑھنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ
کہنا صحیح ہو گا کہ انہیں کتابوں میں اپنی زندگی کے شب و روز بسر کیے ۔ یہی
وہ وقت تھا جب اس کا دل ایمان و یقین کی حلاوت سے آشنا ہوا اور جذبہ شوق و
محبت کو نئی غذا ملی اور اس کی از سرِ نو آبیاری ہوئی اس لیے کہ ’’سیرت کے
موثر واقعات‘‘ تربیت و رہنمائی کا سب سے طاقتور ذریعہ اور انسان کے قلب و
دماغ کے لیے (قرآن مجید کے بعد ) سب سے زیادہ اثر انگیز اور حیات آفریں سر
چشمہ ہیں۔(۴)
جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ یہ کتب عربی میں تو نہیں لکھی گئیں مگرمصنفین
کو عربی زبان پر مہارت حاصل تھی۔
سیرت نگاری کی قدیم و جدید کتابوں کا مطالعہ
سیرت نگاری کے لیے ضروری ہے کہ وہ عربی ، فارسی ، پشتو، پنجابی ، انگریزی
اور دیگر زبانوں میں لکھی جانے والی سیرت کی کتابوں پر مکمل عبور رکھتا ہو
۔ بقول سید سلیمان ندوی : یہی وجہ ہے کہ سیرت اس کی کتابوں اور تحریروں کی
ہمیشہ سب سے بڑی بنیاد رہی ۔ اس کے دم قدم سے اس کا سار اسوز و ساز اور آب
و رنگ تھا ور اسی کے نقشِ قدم کے طفیل اس کے نقوشِ قلم میں تازگی تھی ،
اپنے مقاصد و مطالب کی وضاحت کے لیے اس کو قوی سے قوی تر دلائل اور بلیغ سے
بلیغ مثالیں سیرت کے جمال و کمال ہی سے ملتی تھیں اور سیرت ہی سے اس کی طبع
میں روانی اور جولانی پیدا ہوتی تھی اور اس کی خوابیدہ صلاحیتیں بیدار ہوتی
تھیں ، اس کی کوئی قابل ذکر تحریر ایسی نہیں جس پر اس جمالِ محمدی ﷺکا کوئی
پر تو اور سیرت نبوی ﷺکے گہرے مطالعہ اور فکر و تدبر کا کوئی عکس نہ ہو۔
(۵)
جن ا دوار میں یہ کتب منظر عام پر آئیں وہ دور سیرت نگاری کاسنہری دور
سمجھا جاتا ہے اور اس دور میں ابن اسحاق ،عروہ بن زبیر،ابن سعد اور دیگر
سیرت نگار وں کی کتب سے استفادہ کیا جاتا رہا لہذاعبد الحق محدث دہلوی اور
مولانا مبارکپوری نے ان کتب سے حوالہ لیا اور اپنی اور دیکراسناد سے
واقعاتِ سیرت کو بیان کیا۔
عقل و جذبات کی جلوہ گری
ان کتب میں متعدد جگہ پراپنے جذبات کی عکاسی کی، پھر اس میں عقل و جذبات
دونوں کی بیک وقت اور شانہ بشانہ جلوہ گری اور کارفرماہیں۔ایسا نہیں ہے کہ
صرف عالمانہ بحث اور معروضی نقد وجائزہ جذبہ محبت اور ذوق و شوق کی کیفیت
کو سرد اور افسردہ کرکے پیش کیا ہو، جو سیر ت کے جمال جہاں آراء سے لطف
اندوز ہونے اور اپنے دید و دل کو اس سے روشن اور منور کرنے کی ایک ناگزیر
ضرورت اور اس سے صحیح و کامل استفادہ اور اس کے مسائل ، احکام اور واقعات
کو صحیح طور پر سمجھنے اور صحیح نتائج تک پہنچنے کی لازمی شرط ہے ، اگر
سیرت کی کوئی کتاب اس جذباتی اور ایمانی عنصر سے خالی ہے تو یہ سمجھنا
چاہیے کہ وہ چوب خشک کا مصنوعی ڈھانچہ ہے جس میں زندگی کی کوئی حرارت اور
نمی موجود نہیں اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ یہ جذباتی و ایمانی عنصر عقلِ
سلیم کے تقاضوں پر غالب نہ آجائے جن کی اہمیت عصرِ حاضر نے خاص طور پر بڑھا
دی ہے ، نہ وہ منطق کے صحیح ، معقول اور قابلِ فہم اصولوں کے منافی ہو نہ
عقیدہ اور تقلید پر مبنی ایسا خراجِ عقیدت اور ایسا خراج تحسین ہو جن کو
صرف قوی الایمان پشیتنی مسلمان اور وہ علماء راسخین قبول و تسلیم کر سکیں
جن کی بیرونی دنیا اور جدید ثقافت سے کوئی راہ و رسم نہیں۔(۶)
محبت و عقیدت
جہاں پر اس کتاب میں عشق مصطفی ﷺ جگہ جگہ نظر آتا ہے وہاں یہ عقیدت و محبت
بلاشبہ ایک عطیہ خداوندی اور نعمت خداداد ہے۔ لیکن یہ بات ہمیں کبھی نہیں
بھولنا چاہیے کہ وہ بہرحال اس نبی کی سیر ت ہے جس کو رحمت اللعالمین بنا کر
دنیا کے تمام انسانوں اور نوعِ انسانی کے تمام طبقوں کی طرف بھیجا گیا ہے
اس لیے اس طبقہ کے افراد کے لیے ممنوع یا مہر بند نہیں کیا جا سکتا جن کو
حالات نے اس اسلامی و ایمانی ماحول میں نشوونما حاصل کرنے کا موقع نہیں دیا
اور تقدیر الٰہی کا فیصلہ ہوا کہ وہ غیر اسلامی ماحول ہی میں پیدا ہوں ،
وہیں ان کی نشوونما ہو پھر لطفِ الٰہی ان کی مساعدت کرے اور سیرتِ محمدیﷺ
کا کوئی معطر و جاں نواز جھونکا اپنی دل آرائی و مسیحائی کے ذریعہ ان کو اس
جگہ سے اُٹھا کر اسلام کے سایہ رحمت اور ایمان کی بارگاہ میں پہنچا دے ۔
واقعہ یہ ہے کہ ان غیر مسلموں کا حق سیرت پر ان مسلمانوں سے ہرگز کم نہیں
جو پہلے ہی سے اسلام و ایمان کے سایہ رحمت میں ہیں ، اس لیے کہ دوا و علاج
کی تندرست سے زیادہ ایک بیمار کو ضرورت ہے ۔ دریا کے اس پار رہنے والے کو
پل کی جتنی حاجت ہو گی اتنی حاجت پل کے اسی طرف رہنے والوں کو کیوں کر ہو
سکتی ہے ۔ (۷)
اس وقت کا ماحول اور اس عہد کا مطالعہ
سیرت نگاری کے لیے اس وقت کے ماحول اور عہد کو بھی کسی طرح نظر انداز اور
فراموش نہیں کیا جا سکتا جس میں نبوت محمدی ﷺکا آفتاب پہلی بار طلوع ہوا ،
اس لیے اس عہد کی عالم گیر جاہلیت کی پوری تصویر کشی بھی ضروری ہے جو چھٹی
صدی مسیحی میں ہمیں ساری دنیا پر محیط نظر آتی ہے اس میں یہ بھی دکھانا ہو
گا کہ اس زمانہ میں فساد، اخلاقی بگاڑ اور انسان کی بے چینی و اضطراب، کس
درجہ پر پہنچ چکا تھا اس کی اخلاقی، سماجی ، معاشی اور سیاسی حالت کی تھی ؟
تخریب و فساد کے کیا کیا اسباب و عوامل اس وقت کی دنیا میں کار فرما تھے
اور کیسی کیس ظالمانہ حکومتیں، مسخ شدہ مذاہب، انتہا پسندانہ و خیالی
فلسفے، تباہ کن تحریکیں اور دعوتیں اپنا کام کر رہی تھیِں ، جب مصنف نے
اپنی کتاب ’’ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین‘‘ کی تمہید اور مقدمہ کے طور
پر عہد جاہلیت کی ذرا تفصیل کے ساتھ تصور کھینچنے کی کوشش کی تو اس قدر
دشواری کا سامنا کرنا پڑا جو اسے آج تک یاد ہے ، اس کو اس کے لیے ان تمام
مغربی مآخذ کا جائزہ لینا پڑا جن میں ظہور اسلام کے وقت کے متمدن ملکوں اور
اقوام عالم کی تاریخ بیان کی گئی تھی، اس نے ان تمام ضیخم کتابوں سے ان
منتشرحالات کو اس طرح جمع کیا جیسے چیونٹیوں کے منہ سے شکر کے دانے اکٹھا
کیے جائیں۔(۸)
بحث و تحقیق کا انداز
بعثت محمدیﷺ کی عظمت و وسعت اور منصب نبوت کی نزاکت و اہمیت ان کے عظیم
الشان نتائج کی مکمل تصویر پیش کرتی ہے ، عہد حاضر کے سیرت نگار کے لیے بہت
ضروری ہے اور اس کا کام اس وقت تک مکمل قرار نہیں دیا جائے گا جب تک اس بحث
اور تحقیق کا یہ انداز اختیار نہ کیا گیا ہواور آغاز اسلام کے وقت عہد
جاہلیت کا نقشہ اور اس کے فساد و اضطراب، اخلاقی پستی اور خود فراموشی و
خود کشی کی زندہ و متحرک تصویر پوری امانت داری کے ساتھ بے کم و کاست پیش
نہ کی گئی ہو۔ یہی اس ماحول اور اس شہر کا نقشہ تھا جہاں اسلام کی پہلی کرن
چمکی، جہاں محمد رسول اﷲﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی اور دعوت حق کے قافلہ نے
پہلا قدم آگے بڑھایا، جہاں آپ ﷺکی عمر مبارک کے ۵۳ سال گزرے اور جہاں تیرہ
سال دعوت اسلام کے سخت و جاں گداز مرحلوں میں بسر ہوئے۔(۹)
عقل و شعور اور تہذیب و تمدن کی سطح
یہ ضروری ہے کہ اس زمانہ میں عقل و شعور اور تہذیب و تمدن کی جو سطح تھی وہ
اس سے باخبر ہو، نیز اس ملک کے اجتماعی اور سیاسی اور دینی و مذہبی حالات
اس کے اقتصادی و سیاسی ڈھانچہ اور حربی و عسکری طاقت کی نوعیت سے بھی واقف
ہوتا کہ اس ملک کے باشندوں کے صحیح رجحانات، ان کے مزاج و افتاد طبع، ان کے
ذہن و نفسیات کو اچھی طرح سمجھ سکے اور اس کو ان دشواریوں اور رکاوٹوں کا
پورا اندازہ ہو سکے جو اسلام کی ترقی و پیش قدمی کی راہ میں حائل ہو رہی
تھیں ۔ یہی بات بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی یثرب کے بارے میں کہی جا سکتی ہے
جہاں اسلام مکہ سے منتقل ہوا، جہاں رسول اﷲ ﷺاور صحابہ کرامؓ نے ہجرت
فرمائی اورتقدیر لٰہی نے اس کو اسلام کا اولین مرکز قرارا دیا، اس لیے کہ
اس کے پس منظر کو سمجھے بغیر اسلام کی کامیابیوں اور کامرانیوں کاپور
اندازہ نہیں کیاجا سکتا ۔ ان حالات کو جانے بغیر ہم سمجھ ہی نہیں سکتے کہ
اسلام نے ان افراد کیااورکس طرح تربیت کی ، ان کو کیسے حیاتِ نو بخشی،
مختلف مسائل کو کس طرح حل کیا، متضاد و متحارب عناصر کو کس طرح شیر و شکر
کیا، اس سلسلہ میں نبوتِ محمدی ﷺکا کارنامہ کیاتھا؟اس نے ٹوٹے ہوئے دلوں
کوجوڑنے اور روٹھے ہوئے انسانوں کو ملانے اور ان کی تعلیمی تربیت اور تزکیہ
و تطہیر کا فریضہ کس طرح انجام دیا۔یہ بات صرف اسی وقت سمجھی جا سکتی ہے جب
آدمی کے سامنے ا س عجیب و غریب ا ور پیچیدہ ماحول کی پوری تصویر ہو جس
کاسامنا رسول اﷲ ﷺ اور مسلمانوں کو کرنا پڑا ، بہت سے واقعات اور فیصلے جو
حدیث و سیرت کے مطالعہ میں آدمی کی نظر سے گزرتے ہیں اس وقت تک سمجھے ہی
نہیں جا سکتے جب تک مدینہ کی اجتماعی ، اقتصادی اور سیاسی حالت ، وہاں کی
زمین کی خاصیت، اس کے جغرافیہ، اس کے گرد ونواح، وہاں کی انفرادی اور
علاقائی طاقتوں، ان کے باہمی تعلقات و روابط، معاہدوں ور عہد ناموں اور
ہجرت سے قبل کے معاملات اور قومی و ملکی دستور ور رسم و رواج کا قاری کو
علم نہ ہو ، گر کوئی شخص ان تمام باتوں سے بالکل ناواقف ہو کر سیرت کی
کتابوں میں اپنا سفر شروع کرتا ہے تو اس کی مثال ایک سرنگ میں چلنے ولے کی
سی ہو گی جس کو پنے دائیں بائیں اور آغاز و منزل کسی چیز کی خبر نہ ہو
۔(۱۰)
حواشی
۱۔ محمد طفیل،نقوش رسول نمبر،ادارہ فروغِ ادب اردو،1982ء ج۱،ص۸۲
۲۔ ایضاً ،ج۱،ص۸۲
۳۔ ایضاً ،ج۱،ص۸۱
۴۔ ایضاً ،ج۱،ص۸۱
۵۔ ایضاً ،ج۱،ص،۸۳۔۸۲
۶۔ ایضاً ،ج۱،ص۸۳
۷۔ ایضاً ،ج۱،ص۸۳
۸۔ ایضاً ،ج۱،ص۸۴
۹۔ ایضاً ،ج۱،ص۸۴
۱۰۔ ایضاً،ج۱،ص۸۴ |