وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
عورت جس بھی روپ میں ہو وہ اس کائنات کی سب سے خوبصورت تخلیق ہے ، وہ ماں
بھی ہے اور بہن بھی ، بیوی بھی ہے اور بیٹی بھی ، بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ
خواتین کوحقوق دینے کے حوالے سے دنیا میں 148 ویں نمبر پر ہے ۔ ایسا کیوں
ہے ؟ اور اس صورت حال پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے ذیل میں اس پر بحث کرتے
ہیں ۔
8 مارچ کو دنیا بھر میں خواتین کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے پاکستان میں
بھی ـعورتوں کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیموں نے ایک مخصوص طبقہ
کی نمائندگی کرتے ہوئے مارچ کیا اور اس میں ایسے پلے کارڈز تھے جو شاید
ہمارے معاشرے کی خواتین کی بہت بڑی تعداد کے مسائل نہیں ہیں ۔ کیا ان
تنظیموں کو واقعی میں خواتین کے مسائل کا علم نہیں یا یہ جان بوجھ کر ان
مسائل سے صرف نظر کرتی ہیں اور ایک مخصوص ایجنڈے پر کام کرتی ہیں ؟ اس سوال
کا جواب آپ پر چھوڑتے ہوئے بطور ایک سماجی کارکن کے میں ان مسائل کا ذکر
کرتا ہوں جو میری نظر میں ہمارے معاشرے کی خواتین کے بڑے مسائل ہیں ۔
یوں تو شرح خواندگی کی کمی ہمارے پورے معاشرے کا بہت بڑا مسئلہ ہے لیکن
خواتین کا پڑھا لکھا نہ ہونا اس سے بھی بڑا مسئلہ ہے ایک خاتون خانہ اگر
پڑھی لکھی نہ ہو تو اس کے لئے زندگی کی منصوبہ بندی کرنا اور عملی طور پر
مرد کا ہاتھ بٹانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ایک پڑھی لکھی عورت ہی ایک اچھی
ماں ثابت ہو سکتی ہے اور بچوں کی اچھی تربیت کر کے معاشرے کا ایک کارآمد
شہری بناتی ہے ۔ ہمارے ہاں دیہاتوں میں خاص طور پر خواتین کی تعلیم و تربیت
کا بہت فقدان ہے اور وہاں کا ماحول بھی لڑکیوں کی تعلیم کے لئے سازگار نہیں
۔ لہٰذا لڑکیوں کی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لئے تعلیمی ایمرجنسی کا
نفاذ از حد ضروری ہے حکومتی توجہ اور سرپرستی کے بغیر یہ ذمہ داری پوری
نہیں کی جاسکتی اسکے علاوہ معاشرے کی ذہن سازی بہت ضروری ہے ۔ اسکے علاوہ
خواتین کی صحت عامہ کے بہت سارے مسائل درپیش ہیں پاکستان خواتین کی زچگی کے
دوران ہونے والی اموات کی شرح بہت زیادہ ہے۔ ریاست کو کم از کم ہر گاؤں کی
سطح پر زچگی کے لئے بنیادی مراکز صحت قائم کرنے چاہئیں تاکہ زچہ اور بچہ کی
صحت کو یقینی بنایا جاسکے اور اس دوران ہونے والی اموات پر قابو پایا جاسکے
۔ لیکن اس کے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ لیڈی ڈاکٹرز کی کمی ہے ، ایک ریسرچ کے
مطابق میڈیکل کالجز سے فارغ التحصیل ہونے والی خواتین میں سے تقریباّ 60
فیصد معاشرے کی خدمت کے لئے ڈاکٹر بننے کے بجائے گھر بیٹھ جاتی ہیں اسکی
وجہ ان کو گھر سے باہر نوکری کی اجازت کا نہ ہونا ہے ہمیں یہ بات سمجھنے کی
ضرورت ہے کہ ہمیں اگر اپنی بیوی کے لئے لیڈی ڈاکٹر یا ہیلتھ ورکر کی ضرورت
ہے تو اپنی بہن یا بیٹی میں سے کسی کو اس فیلڈ میں بھیجنا ہوگا ۔ آخر لڑکی
کا رشتہ دیکھنے کے لئے ہماری ڈیمانڈ تو لیڈی ڈاکٹر کی ہوتی ہے لیکن ہم اسے
معاشرے کی خدمت کرنے سے روک دیتے ہیں اس کی وجہ شاید ہمارا انفرادی طور پر
سوچنا اور اجتماعی سوچ کا فقدان بھی ہے ۔
خواتین کے مسائل میں سے ایک اور اہم مسئلہ جہیز کا ہے ہم میں سے ہر ایک شخص
کسی نہ کسی طور اس لعنت کا شکار ضرور ہے اور باوجود اس کو برا سمجھنے کے ہم
اس رسم کو آگے چلانے پر مجبور ہیں یا یوں کہیں کہ معاشرہ بے بس ہے اپنی
جھوٹی انا کے لئے ہم اپنی بچیوں اور بہنوں کا استحصال کرتے ہیں ، یہاں شاید
حکومت کو قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے اور جس طرح شادی بیاہ میں ـ’’ ون ڈش
‘‘ کی پابندی سے معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی دیکھنے کو ملی اسی طرح جہیز کے
معاملے میں بھی حکومت کو قانون سازی اور اس پر عملدرآمد کروانے کی ضرورت ہے
۔
8 مارچ کے حوالے سے کیے گئے سیمینارز میں مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ کسی
بھی سیاسی جماعت نے خواتین ورکرز کا سیمینار منعقد نہیں کروایا انکے حقوق
کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی بھی مہم نہیں چلائی گئی ، خواتین کے لئے مخصوص
نشستوں کا تصور بھی چند خاندانوں کی خواتین کو پروموٹ کرنے کا سبب بن گیا ۔
میری ناقص رائے میں بلدیاتی انتخابات میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر ـ’’
ڈائریکٹ الیکشن ‘‘ کروائے جائیں تاکہ خواتین کو اپنے حقیقی نمائندہ خواتین
چننے کا موقع مل سکے اور وہ خواتین اپنے مسائل کے حوالے سے اپنی نمائندہ
خواتین سے جواب طلبی کر سکیں ۔ اس سے خواتین میں خود اعتمادی میں اضافہ
ہوگا اور خواتین کے مسائل کو سمجھنے اور انھیں ان کی دہلیز پر حل کرنے میں
مدد ملے گی ۔
پسند کی شادی میں رکاوٹ اور غیرت کے نام پر قتل بھی ہمارے معاشرے میں عام
نظر آتے ہیں ، قتل کے کیسوں میں لواحقین صلح کر لیتے ہیں جس سے اس کا سدباب
نہیں ہوپاتا لہٰذا قتل کے تمام کیسوں میں ریاست کو مدعی بننا ہوگا اور
لواحقین کے معاف کرنے کی صورت میں بھی قتل عمد کرنے والے کو کم از کم عمر
قید کی سزا لازمی سنائی جائے تاکہ معاشرے میں امن وامان قائم رکھنے میں مدد
مل سکے ابھی حال ہی میں ہماری نہایت قابل احترام عدلیہ نے چند سال قبل ایبٹ
آباد میں چند سال قبل قتل کی گئی غریب کی بچی کے قتل کے ملزمان کو عدم ثبوت
کی بنا پر بری کیا ہے لہٰذا اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے
اور ریاست کے تمام اداروں کو اس پر اپناکردار ادا کرنا ہوگا ۔
خواتین پر تیزاب گردی، دفاتر میں جسمانی استحصال ، پولیس چوکی میں خواتین
کانسٹیبلز کا نہ ہونا بھی اہم مسائل ہیں ۔ خواتین کے حقوق کا تحفظ کر کے
ہمارا معاشرہ دنیا میں توازن رکھنے والا بہترین معاشرہ بن سکتا ہے اور
خواتین کو ہر شعبہ زندگی میں نمایا ں مقام دلا سکتا ہے ۔ لیکن خواتین کے
حقوق کا تحفظ معاشرے کے سنجیدہ ذہن رکھنے والے طبقات کی دلچسپی اور محنت سے
ممکن ہوگا ،نام نہاد این جی اوز اپنے مخصوص ایجنڈے سے خواتین کو ان کے جائز
حقوق سے محروم رکھنے میں اپنا حصہ بھرپور ڈال رہی ہیں ۔
|