اردو زبان دنیا کی بڑی زبانوں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔
اگر بھارت اور پاکستان کی آبادی کو ایک کر دیا جائے تو یہ چائنہ کی آبادی
سے بڑھ جاتی ہے۔ تقریباََ پورے پاکستان اور بھارت میں اردو بولی اور سمجھی
جا تی ہے ۔اردو ہندوستانی زبان کی معیاری قسم ہے جبکہ پاکستان کی قومی اور
رابطہ عامہ کی زبان ہے ۔اردو بھارت کی چھ ریاستوں کی دفتری زبان کا درجہ
رکھتی ہے۔ آئین ہند کے مطابق اسے 22 دفتروں میں شناخت کی زبانوں میں شامل
کیا جاچکا ہے۔ 2001ء کی مردم شماری کے مطابق اردو کو بطور مادری زبان بھارت
میں 5.01 % لوگ بولتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ بھارت کی چھٹی بڑی زبان ہے جبکہ
پاکستان میں اس بات سے ہم اس کی حمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ اگر ہم
جائزہ لیں تو اردو زبان کے پھیلاؤ کی شرح بھی انگریزی اور دیگر زبانوں سے
کئی گنا زیادہ ہے۔ مسلمانوں کی آبادی بڑھنے کی وجہ سے اس کا حجم بھی بڑھ
رہا ہے اس کے علاوہ یہ بین الاقوامی سطح پر باقاعدہ سیکھی اور سمجھی جا رہی
ہے۔ لیکن اسے آج تک بین الاقوامی سطح پر قومی زبان کا درجہ نہیں ملا۔ جس کی
وجہ وہ گورا ہے جو برصغیر سے تو چلا گیا لیکن ہمارا بیڑہ غرق کر کے گیا ۔
اردو کی اہمیت کو وہ بخوبی جانتا تھا ۔اس نے ہندوستان سے جاتے وقت ہندوستان
میں اردو کا رسم الخط کو دیوناگری اور پاکستان کیلئے وہی پرانا جو فارسی
رسم الخط ہے رہنے دیا۔ ہماری اردو کو اردو اور ان کی اردو کو ہندی کہہ دیا
تاکہ دنیا میں دو الگ الگ زبانیں شمار ہوں حالانکہ ان زبانوں میں کوئی فرق
نہیں تھا۔ ان کے گانے ، فلمیں ، ادب اور تحریریں سب خالصتاََ اردو میں ہیں
۔برائے نام ہندی زبان کو وجود دینے کیلئے وہاں کے کچھ لکھاریوں نے عربی اور
فارسی زبانوں کے الفاظ نکال کر اس میں سنسکرت کے مشکل الفاظ ڈال دیئے تاکہ
وہ واقعی ہندی زبان لگے لیکن اردو ایک لشکری زبان ہے اسی لئے اس میں کسی
بھی زبان کے الفاظ شامل کرنے سے زبان نہیں بدل سکتی ۔اس طرح ان کی کوشش
کامیاب نہیں ہو رہی ، انکی بی بی سی اگر سنیں تو مجھے لگتا ہے کہ انہیں بھی
اس چینل کی ہندی سمجھ میں نہیں آتی با نسبت اردو کے ۔اردو کا ایک بہت بڑا
فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ بہت ساری اقوام کو متحد بھی کرتی ہے ۔آپ کہیں بھی
بیٹھے ہوں تو مختلف اقوام کے لوگ اپنی مادری زبان چھوڑ کر اس ایک زبان پر
اکتفا کرتے ہیں ۔ یعنی جوڑنے کا کام اردو زبان کرتی ہے جس کی وجہ سے ہم
دوسری زبانوں کے بولنے والوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ علامہ اقبال حقیقی طور پر
پنجابی تھے لیکن انہوں نے شاعری میں اردو اور فارسی کو منتخب کیا ، فارسی
کی شاعری تو خیر ایک مختص وقت کیلئے تھی لیکن اردو زبان میں انہوں نے شاعری
کی ۔ اسی طرح دیگر لوگ اگر سبھی مادری زبان میں رہتے ہوئے لوگوں تک اپنے
ہنر کو پہنچانے اور قابلیت کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے تو اتنی شہرت نہ ملتی
ہاں مگر اردو چونکہ سبھی کی سمجھ میں آتی ہے تو اس طرح انہیں بہت شہرت بھی
ملی اور ان کا پیغام بھی پہنچا۔ اس جوڑنے اور اتفاق پیدا کرنے والے عمل کی
وجہ سے برصغیر پاک و ہند میں علماء نے یہ فتویٰ بھی دیا تھا کہ اردو زبان
کا نفاذ فرض کفایہ ہے۔ ہر زبان کی اپنی خاصیت ہوتی ہے لیکن اس کی سب سے بڑی
خاصیت جو اسے دوسری زبانوں سے ممتاز کرتی ہے وہ ہے اس کی شائستگی۔ بعض
جگہوں پر اس زبان کو عربی پر بھی فوقیت ملتی ہے ۔ کسی بھی قوم کی نمائندگی
اس کی زبان کرتی ہے۔ مثال کے طور پر کوئی جاہل ، اجڈ قوم ہے جو ہر وقت مار
دھاڑ میں لگے رہتے ہیں تو ان کی زبان میں بھی ایسا ہی کلچر آئے گا، گالی
گلوچ وغیرہ لیکن اردو زبان برصغیر کے بڑے خاندانوں سے نکلی ہے ۔ بہادر شاہ
ظفر کی شاعری آپ کے سامنے ہے ۔اس کا اثر یہ ہے کہ اس زبان میں ادب بہت ہے ،
بچوں اور بڑوں سے بات کرنے کے صیغے الگ ہیں ! مثال کے طور پر جب آپ انگریزی
میں کسی کو پکاریں گے تو کہیں گے YOU اور عربی میں کہیں گے ’’اَنتَ‘‘ ، اس
کے علاوہ کوئی لفظ موجود نہیں ہے ہاں وہیں اردو زبان بڑے اور چھوٹے میں
تفریق کرتی ہے ۔اردو میں بڑے کو آپ کہتے ہیں ، احترام کم ہوگا تو تم سے توُ
تک آئے گا اس سے نیچے نہیں ۔ کوئی چیز آپ نے کسی کو دینی ہے ، انگریزی میں
آپ نے کہنا ہے پڑھ لیں توکہیں گے ’’READ This BOOK‘‘ اور عربی میں ’’اقراء‘‘
لیکن اردو میں بہت سارے الفاظ ہیں اس کیلئے ۔ کھانے کی مثال ہی لے لیں کہ
جب ہم کسی کو کھانے یا پینے کیلئے پوچھتے ہیں انگریزی میں تو ’’Drink it‘‘
یا’’Eat this‘‘ یا ’’ Take this‘‘ کہتے ہیں اور عربی میں کہیں گے’’ کُل
یعنی کھاؤ‘‘لیکن اردو میں کیا کہیں گے! کھائیے! ۔ اس کے علاوہ دو صیغے اور
ہیں جیسے کھائیے گا، ہمارے پاس ضرور آئیے گا، کھائیے نا! یہ اتنا میٹھا
لگتا ہے اور اتنی مٹھاس پیدا ہوتی ہے کہ انسان زہر بھی کھا جائے ۔ ہر زبان
کی اپنی ایک شائستگی ہے اور وہ اپنی اہمیت کی خود حامل ہے لیکن اردو نے
تمام زبانوں پر فوقیت واہمیت اس لئے حاصل کی ہے کہ اس نے تمام زبانوں کو
ادب سکھایا ہے۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ کراچی چونکہ اس وقت اردو کا گڑھ
سمجھا جاتا تھا تو لوگ دور دراز سے کراچی ادب ، شائستگی سمجھنے آیا کرتے
تھے ۔ ہماری تہذیب کا بیڑہ غرق صرف سیاست نے کیا ہے۔ اگر ہم نے جوڑنے کا
کام برصغیر پاک و ہند میں کرنا ہے تو کم از کم ہمیں اردو زبان کو خاصی
اہمیت دینی پڑے گی اور اس کی ترویج کیلئے کردار ادا کرنا ہوگا۔اس کی حفاظت
ضروری ہو چکی ہے۔اس وقت کراچی کی اردو بلا مبالغہ بر صغیر پاک و ہند میں سب
سے اچھی ہے ۔ پنجاب میں اردو پر سب سے زیادہ کام ہوئے ہیں ، یہاں کے لوگوں
نے ڈکشنریاں بھی لکھی ہیں لیکن یہ لوگ لب و لہجے میں کراچی سے آج بھی پیچھے
ہیں کیوں کی ان کی مادری زبان پنجابی ہے۔ پاکستان کا حالیہ معاشرہ عدم
برداشت ، رواداری سے عاری اور استحقاق کا متحمل ہو رہا ہے۔ سونے پر سہاگہ
غیریکساں نظام تعلیم ہے جس نے لوگوں کے درمیاں ایک تفریق ڈال دی ہے۔ اگر
اردو زبان کو آئین پاکستان کے مطابق قومی زبان کی اہمیت دی جائے اور تمام
تر محکمہ جاتی کام خواہ وہ کوئی بھی ادارہ ہو اردو زبا ن میں طے پانے لگ
جائے تو کافی حد تک استحقاق کی جنگ کو قابو کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ
نظام تعلیم میں اردو زبان کو مرکزی حیثیت دے کر شعور کے نئے در واہ کئے جا
سکتے ہیں ۔ ایک ایسی زبان جو سب قوموں کو جوڑتی ہے کے نفاذ سے پاکستان کی
عوام تمام تر تعصبات سے نکل کر ایک ملت بن سکتی ہے۔اختر شاہجہان پوری نے
کیا خوب کہا:
ابھی تہذیب کا نوحہ نہ لکھنا
ابھی کچھ لوگ اردو بولتے ہیں |