پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے
لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قید پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف سے
ملاقات اور عیادت کی ہے۔ جیل میں اس ملاقات کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی
کے سینیئر ممبران بھی موجود تھے۔
|
|
بلاول بھٹو زرداری اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کا اصرار ہے کہ دونوں
سیاسی شخصیات کی ملاقات کی نوعیت غیر سیاسی تھی جس کا مقصد صرف نواز شریف
کی بیماری کے باعث عیادت کرنا تھا۔
جیل کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے انھوں نے وزیر اعظم عمران خان اور ان
کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ تین مرتبہ ملک کے وزیر اعظم رہنے والے کو بہترین
علاج کی سہولیات مہیا کی جائے۔
میاں نواز شریف کی ممکنہ ڈیل کے متعلق ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو کا
کہنا تھا کہ ’کچھ لوگ ان کے خلاف سازش کر رہے ہیں، میاں صاحب خود متعدد بار
اب نظریاتی سیاست کرنے کا دعویٰ کر چکے ہیں اور آج کی ملاقات میں مجھے کوئی
ایسا تاثر یا اشارہ نہیں ملا کہ نواز شریف کوئی سمجھوتا کریں گے یا ڈیل
کریں گے۔ وہ اپنے اصولوں پر قائم ہیں اور ان کی جماعت بھی ان اصولوں پر
قائم رہے گی۔‘
|
|
تاہم سیاسی تجزیہ کار اس ملاقات کے مفہوم کو محض تیمارداری سے زیادہ
گردانتے ہیں۔ کوٹ لکھپت جیل میں نواز شریف سے حزبِ اختلاف کی کسی بھی بڑی
جماعت کے سربراہ کی یہ پہلی ملاقات تھی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے جانب سے ملاقات کے لیے ایسے وقت کا تعین کیا گیا ہے
جب حال ہی میں پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے سندھ کے علاقے چھچھرو کے
دورہ کے موقع پر اپنی تقریر میں بلاول بھٹو اور ان کی قومی اسمبلی میں کی
گئی تقریر کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
دوسری جانب نواز شریف کی صحت کے حوالے سے ان کے خاندان اور جماعت کے اندر
پائی جانے والی تشویش کے باوجود وہ ہسپتال منتقل نہ ہونے پر بضد ہیں۔ کوٹ
لکھپت جیل اور میاں نواز شریف کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے سامنے
تاریخ کی تلخ یادیں بھی موجود ہیں۔
بلاول بھٹو زرادری کے والد سابق صدر آصف زرداری کو نواز شریف کے دورِ حکومت
میں کوٹ لکھپت جیل میں بھی قید رکھا جا چکا ہے۔
دونوں جماعتیں کئی سیاسی موضوعات پر متضاد خیالات بھی رکھتی ہیں۔ تاہم
پاکستان کی ان دونوں پرانی سیاسی جماعتوں کی قیادت سیاست میں لچک کے نظریہ
کی حمایت کرتی بھی نظر آئی ہے۔
دونوں جماعتوں کی قیادت کو قومی احتساب بیورو کی جانب سے مبینہ کرپشن پر
کارروائی کا بھی سامنا ہے۔ تو کیا اس موقع پر بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے
جیل میں جا کر نواز شریف سے ان کی ملاقات کے نتیجے میں کوئی با معنی سیاسی
اتحاد وجود میں آ سکتا ہے؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی سیاست کے حالیہ منظر نامے پر اس بات کے
زیادہ امکانات نظر نہیں آتے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے صحافی اور تجزیہ
کار سہیل وڑایچ کا کہنا تھا کہ دونوں سربراہان کی یہ ملاقات علامتی ہے۔
'کوئی بڑی پیش رفت تو متوقع نہیں۔ اس کی حیثیت علامتی ہے۔ میرے خیال میں وہ
پاکستان تحریکِ انصاف کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ ایک ہیں۔'
تاہم سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے معاملے پر دونوں جماعتوں کے
درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔' اس سے مراد اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رویہ ہے یعنی
'کس کو وہ زیادہ لفٹ کرواتے ہیں۔'
|
|
کیا بلاول بھٹو زرادری اس تقسیم کو ختم کر پائیں گے جو اس سے قبل دونوں
جماعتوں کے دوسری قیادت نہیں کر پائی؟ تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کے مطابق
بلاول بھٹو زرداری کا خود نواز شریف کے پاس جا کر ملاقات کرنا 'عمران خان
کی چھچھرو میں کی جانے والی تقریر کا فوری جواب ہے۔'
تاہم وہ نہیں سمجھتے کے اس ملاقات کے نتیجے میں حکومت کے خلاف کوئی اتحاد
بن پائے گا یا تحریک چلنے جا رہی ہے۔
نواز شریف سے بلاول بھٹو زردراری کی ملاقات تقریباً ایک گھنٹہ تک جاری رہی۔
ملاقات کے بعد جیل کے باہر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہیں بلاول
بھٹو کا کہنا تھا کہ نواز شریف سے ملاقات میں ان کا بنیادی مقصد ان کی
عیادت تھا تاہم چارٹر آف ڈیموکریسی جیسے موضوعات پر بھی بات ہوئی۔
'کسی اتحاد کی بات کرنا ذرا قبل از وقت ہو گا۔ تاہم ہماری چارٹر آف
ڈیموکریسی اور جو حکومتی اقدامات ہو رہے ہیں ان پر بھی بات چیت ہوئی۔ امید
ہے کہ چارٹر آف ڈیموکریسی کے حوالے سے مستقبل میں مزید پیش رفت ہوگی۔'
بلاول بھٹو سے ان کی اس ملاقات کے نتیجے میں دونوں جماعتوں کے درمیان کسی
ممکنہ اتحاد کے حوالے سے متعدد بار سوال کیا گیا۔
ہر سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ان کا بنیادی مقصد نواز شریف کی عیادت
تھا تاہم ہر بار انھوں نے اس بات کا ذکر بھی کیا کہ ان کی چارٹر آف
ڈیموکریسی جیسے موضوعات پر نواز شریف سے بات چیت ہوئی۔
'پارلیمان کے اندر تو تمام حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے درمیان یہ اتحاد ہے
کہ قومی اہمیت کے مسائل پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔ چارٹر آف ڈیموکریسی کے
حوالے سے مجھے امید ہے کہ مستقبل میں مزید بات چیت ہو سکتی ہے۔'
بلاول کا کہنا تھا کہ یہ ان کے لیے ایک تاریخی دن تھا۔ ان کے والد، نانا
ذولفقار علی بھٹو اور جماعت کے دیگر کارکنان اسی جیل میں سیاسی قیدی رہ چکے
ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ 'نواز شریف یا کسی بھی دوسری سیاسی لیڈر کو ان حالات
میں نہیں دیکھنا چاہیں گے۔'
صحافی اور تجزیہ کار راشد رحمان بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں فی الفور
دونوں جماعتوں کے درمیان کسی سیاسی اتحاد کی توقع نہیں ہے۔ ان کے مطابق اس
کی وجہ دونوں جماعتوں کے درمیان پائی جانے والی ماضی کی سیاسی تلخیاں ہیں۔
|
|
'اور اس کی کوشش اس لیے بھی زیادہ سنجیدگی سے نہیں کی جائے گی کہ 'اس حوالے
سے سیاسی عزم بھی نہیں پایا جاتا۔'
تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان اور ان کی حکومت کی طرف سے ن لیگ اور
پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کو دیوار کے ساتھ لگانے کا سلسلہ جاری رہا تو
نہ چاہتے ہوئے بھی وہ شاید اتحاد بنانے پر مجبور ہو جائیں۔
'عمران خان اور ان کے حامی ہی ن لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان
مستقبل میں کسی ممکنہ سیاسی اتحاد کے اصل محرکات ہیں۔'
|