سرکاری ادارے اپنی جگہ کچھ تو بہت اچھے انداز میں اپنی
خدمات سرانجام دے رہے ہیں مگر کچھ کے خلاف عوام ناراض بھی ہے اور اُن کی
کارکردگی بھی ایسی ہے کہ وہ مفت میں بس اپنی من مرضی کے ساتھ سرکاری امور
ادا کر رہے ہیں ،جس کی وجہ سے کئی افراد رشوت کے ذریعے اپنے معاملات کو
سدھار لیتے ہیں یا پھر محتسب کے ادارہ کے ذریعے سے حل کر وا لیتے ہیں ۔مگر
کچھ ایسے بھی ہیں جو کہ پھر بھی کہیں کے نہیں رہتے ہیں ۔وائس آف پاکستان
چونکہ پورے پاکستان کی آواز کی ترجمانی کرتا ہے تو اس کے ذریعے ایک معاملہ
اعلی حکام بالخصوص وزیر اعظم پاکستان عمران خان صا حب اور وزیر اعلی پنجاب
عثمان بزار صاحب کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ محمد صدیق خان لودھی ، اسسٹنٹ
ڈائریکٹر پاپولیشن ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ بہاولپور اور بہاولنگر میں تعینات رہ
چکے ہیں اُن کی دوران سروس 2006میں وفات کے بعد سے پنشن گریجویٹی ودیگر
واجبات جو بھی بنتے تھے وہ آج تک اُن کے حقیقی وارثان کو نہ مل سکے ہیں ،
بے سہارا بیٹی اور ماں اپنے حق کے لئے برسوں سے یہاں وہاں کے چکر لگا رہی
ہیں۔ جو کہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے سرکاری ادارے کس طرح سے کام کر رہے
ہیں ۔ اس حوالے سے اُن کی بیوہ نے محتسب پنجاب میں بھی درخواست دی ۔جناب
محتسب پنجاب نے اگرچہ فیصلہ اُن کے حق میں دیا ہے مگر تاحال بیوہ محمد صدیق
کے مطابق محتسب کے فیصلے بحوالہ شکایت نمبرPOP-BPW-216/17 کی ہدایات کے
باوجود مذکورہ معاملہ تعطل کا شکار ہے ۔ بارہ سال سے رکی پنشن وگریجویٹی
کانہ ملنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ بہت سی معاملات میں ہمارے ادارے یا اُن میں
موجود سربران کچھ پہلوتہی سے کام لے رہے ہیں جس کی وجہ سے ایسے افراد جن کے
پاس وہ ذرائع نہیں جس کی بدولت وہ پاکستان سٹیزن پورٹل یا وزیر اعلی پنجاب
کے شکایتی سیل تک رسائی حاصل کر سکیں یا رشوت دے سکیں تو پھر وہ کس کو منصف
بنا کر اپنے لئے انصاف کی پکار کی کوشش کریں۔اگر معاملہ اس قابل ہے تو جناب
عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان صاحب ازخود نوٹس لیتے ہوئے داد رسی کریں۔
مذکورہ معاملہ فوری طور پر حل کرایا جائے ،کیونکہ بیوہ کے پاس ماسوائے بیٹی
کے اور کوئی اس حوالے سے بھاگ دوڑ کرنے والا نہیں ہے اور مذکورہ محکمہ حیلے
وبہانوں سے ٹال مٹول کر کے ناجائز تنگ کر رہا ہے جو کہ ذہنی اذیت کا سبب بن
رہا ہے کیونکہ تاحال معاملہ برسوں کی تاخیر کے باوجود زیر کاروائی ہے جو کہ
قابل تعزیز ہے ،اس حوالے سے کسی بھی قسم کا تعاون مذکورہ محکمہ نہ کر رہا
ہے جس کی وجہ سے ذہنی پریشانی بڑھتی جا رہی ہے۔ازروقوانین و انسانی ہمدردی
کی بنیاد پر انصاف کی فراہمی فوری کرائی جائے اورمذکورہ ادائیگی کروائی
جائے تاکہ گذر بسرآسانی سے ہو سکے ۔
اس حوالے سے بتاتا چلوں کہ کسی کو پوراپورا ہرلحاط سے اسکا حق دے دینا اور
کسی کے ساتھ زیادتی نہ کرنا عدل وانصاف کہلاتاہے۔اسلامی معاشرے میں عدل
وانصاف کی بڑی اہمیت ہے۔ معاشرے میں امن سکون کی ضمانت اس کو قرار دیاگیا
ہے۔ہماری کائنات کا نظام عدل پر قائم ہے۔ اس کی ایک ایک چیز درست مقام پر
کام کر رہی ہے۔ کائنا ت میں موجود اشیاء ایک دوسرے کے دائرہ اختیار میں
مداخلت نہیں کرتی ہیں۔ عدل اﷲ تعالی کی صفت ہے۔ قران میں بھی باربار اس
بارے میں احکام بیان کئے گئے ہیں۔قران میں ایک جگہ پر اس کو یوں بیان کیا
گیا ہے کہ ــ’’میں بند وں پر ظلم نہیں کرتا ‘‘جبکہ دو سرے مقام پر یہ بات
یوں کہی گئی ’’اے رسولﷺ جب آپ انکے درمیان فیصلہ کریں تو عدل کے ساتھ فیصلہ
کریں بیشک اﷲ تعالی ٰ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ جبکہ سورۃ
شوری میں اسطرح سے حضور ﷺ کی زبان سے قران میں کہلایا گیا کہ’’کہو مجھے یہ
حکم دیا گیا ہے کہ تمھارے درمیان عدل کرو‘‘۔
پاکستان میں انصاف کے حصول کے لئے جنگ لڑنا اتنا آسان نہیں ہے۔اس کے لئے
بدعنوان عناصر کے خلاف اُٹھ کھڑا ہونا بھی ایک طرح کا جہاد ہے۔جناب وزیر
اعظم پاکستان عمران خان صاحب اور اُن کے رفقاء کی کوشش ہے کہ نیا پاکستان
بنایا جا ئے تو یہ کوئی انوکھی خواہش نہیں ہے اس کے جڑیں بہت گہری تک جاتی
ہیں۔پاکستان میں پسا ہوا طبقہ قیام پاکستان سے کچھ اپنے لئے مراعات چاہتا
ہے مگر اُن کو وہ نہیں دی جا رہی ہیں کہ اُس کے بعد سیاسی نعروں میں
مقبولیت نہیں رہی گی اور شاید کچھ سیاست دانوں کی سیاسی زندگی بھی ختم ہو
کر رہ جائے گی کہ جب وہ انصاف فراہم کر یں گے تو پھر خوشحالی اور امن و
سکون کے دور میں اُن کو کون یا د کرے گا۔مگر اگر مذکورہ معاملہ متعلقہ حکام
فوری طور پر حل کر وا دیں تو یقینی طو رپر متاثرہ خاندان تاحیات اُن کو
اپنی دعا میں یاد رکھے گا اور یہ تو آپ سب جانتے ہیں کہ دُعا سے بڑھ کر
کوئی اور تحفہ کسی کے لئے کیا ہو سکتا ہے اوریہی معاملہ ہو سکتا ہے کہ
بدعنوانی کے خاتمے اور نئے پاکستان کی بنیاد بھی بن جائے،اس لئے فوری اقدام
اُٹھایا جائے۔
نوک شمشیر |