کچھ روز قبل اوکاڑہ کے نواحی گاؤں ٹھٹھہ غلام کا دھیروکہ
جانے کا اتفاق ہوا۔یہ دورہ خاص اہمیت کا حامل تھا کیونکہ اس دورے کا اہتمام
پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ برائے جرمن زبان و ادب کی طرف سے کیا گیا۔ہم سب
دوست وفدکی صورت میں وہاں پہنچے ۔اس وفد کی قیادت ہمارے ہر دلعزیز استاد
جناب پروفیسرعامر رفیق صاحب نے کی ۔گاؤں پہنچنے پر انجمن فلاح عامہ (AFA)
کے سربراہ جناب امجد علی صاحب نے ہمارا استقبال کیا۔اس دورے کی اہمیت و
افادیت کو سمجھنے کے لیے اس گاؤں کی امتیازی حیثیت کو جاننا بہت ضروری
ہے۔1990ٔٔء میں ایک ریٹائرڈ جرمن جوڑے( ڈاکٹر سینتاماریہ سلر اور اس کے
شوہر نورابرٹ پینچ)نے اس چھوٹے سے گاؤں میں قدم رکھے۔اس گاؤں کے لوگوں کی
میزبانی نے ڈاکٹر سینتا ماریہ سلر اور اس کے شوہر نوربرٹ پنچ کا دل جیت
لیا۔جس پر ڈاکٹر سینتا ماریہ سلر نے اس گاؤں کو ایک تجربہ گاہ بنانے کا
سوچا ۔ایسی تجربہ گاہ جس میں اس گاؤں کی ترقی کے پیش نظر اقدامات کیے جا
سکیں۔مزے کی بات یہ کہ جو امجد علی آج ہماری میزبانی کر رہے تھے وہی اس
جرمن جوڑے کے میزبان تھے۔امجد علی ایک انتہائی شفیق اور ہمہ جہت انسان
ہیں۔اور ہر وقت انسانیت کے لیے کچھ کر گزرنے کی صلاحیت سے سرشار ہیں۔یہی
وجہ تھی کہ 1991ء میں ـ(امجد کا گاؤں ) کے نام سے ایک ڈاکومینٹری بنائی
گئی جس میں گاؤں کے تہذیب و تمدن کو اجاگر کیا اور تبدیلی سے پہلے کے مناظر
عکس بند کیے گئے۔جو کہ بعد ازاں 2005ء میں برلن میں چلائی گئی۔ڈاکٹر سینتا
کو اپنے پہلے دورے میں یہاں کی خواتین کی سلائی اور کڑھائی نے بے حد متاثر
کیا۔ مگر حیران کن بات یہ تھی کہ اتنا سب کچھ جاننے کے باوجود یہ خواتین
کچھ کما نہیں سکتی تھیں۔ ۔ڈاکٹر سینتا ماریہ شعبے کے اعتبار سے بہت اچھی
فیشن ڈیزائنر تھیں انہوں نے یہاں کی بنی ہوئی گڑیا، کھلونوں اور دستکاریوں
کو نئے رنگوں کی جہت بخشی اور ان کو بازار کی زینت بنانے کے لیے ایک( گڑیا
کے گاؤں )کے نام سے تحریک کا آغاز کیا۔اس تحریک کا مقصد یہ تھا کہ یہاں کی
مصنوعات کو ملکی و بین الاقوامی سطح پر متعارف کروایا جاسکے۔اسی مناسبت سے(
ٹھٹھہ کیڈونا)کے نام سے ایک منصوبہ تیار کیا گیا۔ ڈاکٹر سینتا ماریہ سلر نے
یہاں کی خواتین کی صلاحیتوں کو نکھارنے اور انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے
کی ٹھان لی اور ان کے لیے دستکاری مرکز برائے خواتین (women Art centre)
قائم کیا۔جس میں یہاں کی خواتین اور لڑکیوں کو معیاری گڑیا بنانے کی تربیت
دی جانے لگی۔شروع کے دنوں میں ڈاکٹرسلر لمبے عرصے تک گاؤں میں قیام پذیر
رہتیں یہاں تک کہ شدید گرمی کے دنوں میں بھی اپنے کام میں مگن ہوتیں۔ڈاکٹر
سلر کی ہمہ جہت کاوش کی بدولت یہ آرٹ سنٹر((WAC ،سینٹا سلر ڈیزائن سینٹر (SSDC)میں
تبدیل ہوگیا۔یہاں کی ہاتھ سے بنی ہوئی مصنوعات کو جرمنی کے بازاروں کی زینت
بنانے میں ان کا سب سے اہم کردار ہے۔پاکستانی خواتین کی بہبود کے اعتراف
میں جرمنی کے سب سے بڑے سول ایوارڈ سے بھی محترمہ کو نوازا گیا۔محترمہ نا
صرف اس گاؤں بلکہ چاروں صوبوں کی خواتین کے علاوہ گلگت بلتستان،کیلاشی ،کوچی
اور مکرانی خواتین کو بھی تربیت دے چکی ہیں۔اس گاؤں کی مصنوعات کی نمائش
لاہور اور اسلام آباد میں بھی کی جا چکی ہے۔اس منصوبے سے نا صرف اس گاؤں
بلکہ گردونواح کی خواتین بھی خودکفیل ہوچکی ہیں اور مزے کی بات یہ ہے دیے
سے دیا جلانے کی یہ ریت ابھی بھی چل رہی ہے۔اس کے علاوہ اس گاؤں کے لوگوں
کی صحت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے یہاں 1992ء میں ایک ڈسپنسری کا قیام عمل
میں لایا گیا۔ جس میں ڈاکٹر سینتا ماریہ سلر کی بیٹی ڈاکٹر لیلیٰ سلر نے
اپنی خدمات پیش کیں۔یوں اس گاؤں کی ان فرشتہ نما انسانوں نے تقدیر بدل کے
رکھ دی۔ڈسپنسری کے علاوہ اسی منصوبے کے تحت ایک اسکول بھی کھولا گیا ہے جو
پوری آب وتاب کے ساتھ بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے میں پیش پیش
ہے۔ٹھٹھہ کیڈونا کا یہ ننھا سا پودا جو 1993ء میں لگایا گیا آج ایک تناور
درخت بن چکا ہے۔ جس کے سائے اور پھل سے بہت سارے خاندان لطف اندوز ہو رہے
ہیں۔ٹھٹھہ کیڈونا وہ دیا سلائی ہے جس سے پہلا چراغ روشن ہوا۔اور پھر یہی
چراغ ہر سو روشنی ہی روشنی کا باعث بنا۔اس منصوبے کی کامیابی کو2017ء میں
کرسمس بازار جرمن ایمبیسی اسلام آباد میں سراہا گیا۔اس منصوبے کے تحت ہر
سال لاہور اور اسلام آباد میں نمائش کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں وہ
خواتین جو صرف سپنے بننے کا حق رکھتی تھیں ان کے سپنوں کو حقیقت کا روپ
ملتاہے۔اسی منصوبے کی ایک شاخ انجمن فلاح عامہ(AFA)بھی ہے جس کی سرپرستی
جناب امجد علی صاحب کر رہے ہیں۔اس انجمن کا کام گاؤں کی فلاح و بہبود کے
لیے کارہائے نمایاں سرانجام دینا ہے۔ٹھٹھہ غلام کا دھیروکہ گاؤں جرمن عوام
کی پاکستان کے لیے بے لوث محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اس کے علاوہ اگر ہم
موجودہ حالات میں دیکھیں تو جرمنی کے سفیر مارٹن کوبلر پاکستان کی مثبت
تصویر کو دنیا میں اجاگر کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔پاکستان
کے سیاحتی مقامات ہوں یا ثقافت اور فن کے رنگ مارٹن کوبلر کی نظر سے اوجھل
نہیں ہو سکتے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں موجود تمام غیر ملکی سفیروں میں
مارٹن کوبلر پاکستانی عوام میں زیادہ مقبول ہیں۔آخر میں اس عظیم عورت کا
ذکر کرنا کیسے بھول سکتا ہوں جس نے اپنی جوانی سے لے کر آخری سانسوں تک
پاکستان سے وفا کی۔جی ہاں وہ عظیم جرمن عورت ڈاکٹر رتھ فاؤ جس نے ساٹھ کی
دہائی میں پاکستان میں کوڑ ھ کی بیماری کے خلاف عملی جنگ کا آغاز کیا۔زندگی
کے پچپن قیمتی سال پاکستان کودئیے اور آخر کار کوڑھ جیسے موذی مرض کو شکست
دینے میں کامیاب ہوئیں۔جوانی میں پاکستان آئیں اور اپنا سب کچھ پاکستان کے
نام کر دیا۔اب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں مگر ان کا نام پاکستان کی تاریخ کے
ایک سنہری باب کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔پاکستان کی تاریخ میں اس
طرح کے جرمن کردار ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ہمیں ان رشتوں کوعوامی اور ملکی
سطح پر مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ |