اﷲ پاک نے نبی پاک ﷺ کے توسط سے انسانیت کو ایسا نظام
زندگی دیا جس کو دُنیا کے کسی بھی گوشے میں نافذ کرکے بہترین نتائج حاصل
کیے جاسکتے ہیں۔ دین اسلام زندگی کو گزارنے کاا سلوب بھی بتاتا ہے اور اِس
اسلوب کے لیے جو اسباب کی ضرورت ہوتی ہے اُن کی فراہمی کے لیے بھی معاشرے
کو معیشت کی فراہمی کرتا ہے۔ چونکہ اسلام دین ِفطرت ہے اِس لیے انسانی
زندگی کے تمام تر پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے اور کسی بھی معاملے کو سلجھانے
کے لیے نیکی کا دامن ہر گز ہرگز ہاتھ سے نہیں چھوڑتا ۔ گویا اسلام سیاسی
سماجی، عمرانی ،نفسیاتی اور معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہر ہر طور
ہر ہر انداز میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔ اسلامی نظام معیشت کی کامیابی
کا ثبوت ہمیں نبی پاکﷺ کے عہدِ مبارک، خلفائے راشدین اور اُن کے بعد کے
اکثر مسلم حکمرانوں کے ادوار کی روشن تاریخ سے ملتا ہے۔ اقوام ِ عالم کی
خوشحالی اور بدحالی کا تعلق معاشیات کے ساتھ ہے۔ اِس دور میں معاشی طور پر
مضبوط ممالک ہی طاقتور بلکہ سپر پاور ہیں اور معاشی طور پر کمزور ممالک
ویسے بھی کمزور ہیں۔ گویا معاشی طاقت ہی معاشروں کو طاقتور بناتی ہے اور
اِسے معاشروں میں دولت کے منصفانہ تقسیم کو بھرپور خیال رکھا جاتا ہے۔
معاشی طور پر بدحال ممالک میں مسلمان ممالک کی بہتات ہے ایشاء اور افریقہ
کے اکثر ممالک غربت افلاس افراتفری کا شکار ہیں اور ایسامعاشی طور پر کمزور
ہونے کی وجہ سے ہے۔ معاشیات عربی زبان کو لفظ ہے اِس کا مادہ عاش ہے جس کے
معنی زندہ رہنے کے ہیں۔صاحب القاموس کے مطابق معیشت سے مراد کھانے پینے کے
وہ ذرائع ہیں جس پر زندگی کا دارو مدار ہے ۔ اور جن سے زندگی بسر کیجاتی
ہے۔ معاشیات ، اقتصادیا ت اور اکنامکس ہم معنی الفاظ ہیں۔ لفظ معاشیات کے
لغوی معنی زندگی اور سامان ِ زیست کے ہیں۔ معاشیات کوانگریزی زبان میں
اکنامکس کہتے ہیں۔ اصطلاحی معنوں میں معاشیات سے مراد یہ ہے کہ لامحدود
خواہشات کو محدود ذرائع سے پورا کرنے کا نام علم معاشیات ہے۔
عصر حاضر کو ترقی کا دور کہا جاتا ہے اور کچھ غلط بھی نہیں ہے سائنسی
ایجادات کا دورہے ۔ وسائل سفر سے لے کر ذرائع ابلاغ تک میں انقلاب آچکا
ہے۔زمین اپنے خزانے اگل رہی ہے یا اس سے اگلوائے جارہے ہیں۔ اناج،سبزیاں
پھل اور میوے اسقدر بہتات سے ہیں کہ اُن کو ذخیرہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے
لیکن ہر چیز کی فراوانی کے پہلو بہ پہلو انسانی محرومی کی بھی کوئی حد
نہیں۔ آدمیت سسک رہی ہے جذبات سلگ رہے ہیں۔غریب غربت کے بوجھ تلے دب رہا ہے
اور سرمایہ دار بے مقصدیت کے عذاب و اذیت سے گذر رہا ہے۔ یہ نہیں کہ حالت
میں تبدیلی کی کوشش نہیں ہوئی تاریخ شاہد ہے کہ احساسات اور جذبات نے کئی
مرتبہ طوفان کی شکل اختیار کی لیکن صورت حال کچھ یوں ہی رہی۔
رومن ایمپائر، دور غلامی، جاگیرداری اور پھر آخر میں نظام سرمایہ داری کا
تماشہ اور پھر اشتراکیت کے پروکاروں کی من مانیاں،تمام کی تمام شکست کے
عنوانات سے عبارت ہیں ان تمام کوششوں کے باوجود یہی نہیں کہ حالت نہیں بدلی
بلکہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔حقیقت یہ ہے کہ تمام نظامہائے معیشت نام
کی حد تک تو الگ الگ ہیں لیکن نتائج کے حساب سے سارے ایک ہیں۔ ایک ہی تصویر
کے دو مختلف رخ ہیں۔ انسان نے معیشت کو اس کے اصل مقام و مرتبہ سے بڑھا کر
ایسابنا دیا ہے کہ اپنا مرتبہ اور مقصد فراموش کر بیٹھا۔ نتیجہ وہی ہوا جو
ذریعہ کو مقصد بنانے کا ہوتا ہے۔انسان صرف پیٹ کا نام نہیں بلکہ اس میں دل
و دماغ بھی ہے اور اس کے دیگر اعضاء بھی ہیں،اگر کوئی شخص دل و دماغ کے
بجائے پیٹ سے سوچنا شروع کردے تو اس کی جو کیفیت ہوسکتی ہے وہ نظامِ معیشت
کو مرکز و محور بنانے سے پوری انسانیت کی ہوچکی ہے۔ ایک بھوکے کو اجرام
فلکی بھی روٹیاں نظر آسکتی ہیں لیکن اس سے نظام شمسی میں خلل آسکتا ہے اور
نہ علم فلکیات کی اہمیت کم ہوسکتی ہے۔ انسان تنگ نظر اور جذباتی مخلوق ہے
اس لئے اسکی سب سے بڑی غلطی ہے کہ مسائل کو حل کرنے کیلئے اپنے اور اس
کائنات کے خالق سے رجوع کرنے کے بجائے خود ہی ان کا حل کرنے بیٹھ جائے۔عام
زندگی میں خطرناک ہے تو اجتماعی زندگی میں اس کے اثرات کتنے مہلک ہوسکتے
ہیں دنیا کی موجودہ صورت حال اس کا ثبوت ہے ۔انسانیت پر اس سے بڑا احسان
نہیں ہوسکتا کہ انسانی معاشرے کو اجتماعی طور پر اپنے اور اس سارے جہان کے
خالق و مالک کی طرف رجوع کرنے کی تلقین کی جائے۔ انبیاء علیہم الصلاۃ و
السلام اسی لئے انسانیت کے محسن ہیں ۔:’’لوگوں تم کدھر جارہے ہو؟یہ (قرآن)
جہان بھر کے لوگوں کے لئے نصیحت ہی تو ہے‘‘۔قرآن حکیم نے نہ صرف مرض کی
تشخیص فرمائی بلکہ اس کے علاج کے لئے نسخہ ء کیمیا بھی عطا ظالم تھے۔ پس اﷲ
نے تم کو جو حلال طیب رزق دیا ہے،اسے کھاو اور اﷲ کی نعمتوں کا شکر بجا
لاواگر اسی کی عبادت کرتے ہو۔‘‘
اﷲ کی ناشکری کا مظہر یہ ہے کہ اس کی طرف سے بھیجے گئے رسول پر ایمان لانے
ان کی تکریم کرنے اور اطاعت کا دم بھرنے کی بجائے انکار کا راستہ اختیار
کیا۔اس عذاب سے نجات کاایک ہی راستہ ہے کہ اﷲ کا حلال کیا ہوا رزق کھاو اور
اس کی نعمتوں کا شکر بجا لاو اور صرف اسی کی عبادت کرو، کہ مالک الملک اور
عزیز مقتدر ہے اس کی اطاعت کروگے تو آسمان وزمین کی برکتوں کے دروازے تم پر
کھول دے گا۔ ترجمہ:’’اور اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور ہماری
نافرمانی سے بچتے تو ان پر آسمان اور زمین کی برکات کے دروازے کھول دیتے
لیکن انہوں نے تکذیب کی سو ان کے اعمال کی پاداش میں ہم نے ان کو پکڑ
لیا‘‘۔اور جب کسی بستی سے نعمتیں چھین لینا چاہے تو بظاہر ان کی معیشت کتنی
ہی مضبوط ہو سزا کا قانون الہٰی ان پر نافذ ہوکر ہی رہتا ہے۔
ترجمہ:’’اور ہم نے بہت سی بستیوں کو تباہ کر ڈالا جو اپنی معیشت(کی فراخی)
پر اترارہے تھے پھر یہ ان کے محلات ہیں جو ان کے بعد بہت ہی کم آباد ہوئے
اور ان کے پیچھے ہم ہی ان کے وارث ہوئے‘‘۔اسی لئے انسانیت کی فلاح دین حنیف
دین اسلام کے دامن میں پناہ لینے میں ہے۔جب وہ پورے کے پورے اسلام میں داخل
ہوں گے کہ اس کے نظام اقتصاد یات کی برکات سے بھی بہرہ مند اور مستفید ہوں
گے اس لئے کہ اسلام کا نظام معیشت اسلام سے الگ کوئی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ
اسی شجرہ طیبہ کی ایک سرسبز و ثمر بار شاخ ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:
ترجمہ:کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اﷲ تعالیٰ نے کلمہ طیبہ کی مثال کیسی بیان
فرمائی ہے وہ ایسے ہے کہ جیسے ایک پاکیزہ درخت جس کی جڑ مضبوط یعنی زمین کو
پکڑے ہوئے ہے اور شاخیں آسمان میں ہیں۔ اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت پھل
لاتا ہے۔اور یہ اسلام کے تعلیم کردہ راسخ عقائد،قرآن حکیم اور جناب رسول
کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقرر کردہ اور تعلیم فرمودہ حکیمانہ عبادات اور
عظیم ترین اور کامل ترین نظام اخلاق کی سرزمین میں اگلنے والا شجر طیبہ ہے۔
اور خون میں پیوست شاخ ہے۔ جو ہر طرف سے اور ہر طرح سے محفوظ ہے۔ موسموں کے
تغیرات اور افراد کی تلون مزاجی اس پر نظر انداز نہیں ہوتی۔
اس اعتبار سے اسلامی نظام معیشت کی بنیاد ی اور اولین خصوصیت تو یہی ہے کہ
یہ نظام اﷲ کا دیا ہوا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں دیگر نظامِ معیشت تو
انسانی ہیں۔ اس لئے کہ بندہ جب رحمن کا نہیں ہوتا تو شیطان کا ہوتا ہے
تیسرا اختیار یہاں پر سرے سے موجود نہیں،اﷲ تعالی کا فرمان ہے: ترجمہ:وہ
اپنے گروہ کے(لوگوں) کو پکارتا ہے تاکہ وہ دوزخ میں جانے والے بن جائیں۔
ترجمہ: شیطان نے انکو قابو میں کرلیا ہے اور انہیں اﷲ کی یاد بھلا دی ہے یہ
لوگ شیطان کا لشکر ہیں اور آگاہ رہو شیطان کا لشکر نقصان اٹھانے والا
ہے‘‘۔اسلام اﷲ تعالی کا مقرر کردہ اور پسندیدہ فرمودہ نظام حیات ہے تمام
انبیاء علیہم السلام اس کی دعوت دیتے رہے۔اﷲ تعالی کا فرمان ہے:ترجمہ:’’دین
تو اﷲ کے نزدیک اسلام ہی ہے‘‘۔لیکن براہین و بینات سے آنکھیں موندنے والے
نت نئے عقیدے بناتے اور نظام تراشتے رہے۔ اپنے علم میں مختلف انسانی گروہ
انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی دعوت اور نصیحت کو ٹھکراتے رہے اور اس کے
نتیجے میں عذاب پر عذاب چکھتے رہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ترجمہ:’’کیا ان
لوگوں نے زمین پھر کر دیکھا نہیں کہ انہیں نظر آتا کہ جو لوگ ان سے پہلے اس
راستے پر تھے ان کا انجام کیسا ہوا حالانکہ وہ ان سے تعداد میں زیادہ اور
طاقت میں ان سے زیادہ مضبوط تھے اور زمین میں نشانات بنانے میں ان سے کہیں
بڑھ کر تھے تو جو کچھ وہ کرتے رہے ان کے کسی کام نہیں آیا۔ اور جب ان کے
پیغمبر ان کے پاس کھلی نشانیاں اور واضح دلائل لے کر آئے تو وہ اس علم پر
اترانے لگے جو ان کے پاس تھا، نتیجہ جس چیز کا وہ مذاق اڑاتے تھے اسی نے ان
کو آگھیرا‘‘۔مثال کے طور پر شعیب علیہ السلام کی قوم نے تو مالی معاملات
میں ان کی حکیمانہ نصیحت کو’’مداخلت بیجا‘‘قرار دیکر اس پر انتہائی ناگواری
کا اظہار کیا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
ترجمہ:’’اور اہل مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کومبعوث کیا انہوں نے (اپنی
قوم) سے کہا اے میری قوم! صرف اﷲ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود
نہیں اور ناپ تول میں کمی نہ کیا کرو میں تم کو آسودا حال دیکھتا ہوں اور
تمھارے بارے میں ایک ایسے دن کے عذاب کا خوف ہے جو تم کو گھیرے گا۔ اور اے
میری قوم! ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پوری پوری کیا کرو اور لوگوں کو ان کی
چیزیں کم نہ
دیا کرو، اور زمین میں فساد نہ مچاتے پھرو۔ اﷲ تعالیٰ کا دیا ہوا منافع
تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم مومنوں میں سے ہواور میں تم پر نگران نہیں۔انہوں
نے کہا کہ اے شعیب! کیا تمہاری نماز، تمہیں یہی سکھاتی ہے کہ ہم اپنے
معبودوں کو چھوڑ دیں جنہیں ہمارے آباء و اجداد پوجتے آئے ہیں یا ہم اپنے
مالوں میں اپنی مرضی سے تصرف کرنا چھوڑ دیں تم تو بڑے نرم خو اور رست باز
ہو‘‘۔
زندگی میں تجارت اور معیشت کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے،اچھی ومنافع
بخش تجارت مضبوط اور مستحکم معیشت کو جنم دے کر ملک و قوم کی ترقی کا باعث
بنتی ہے،اسلام دین ِ کامل ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں رہبری ورہنمائی کیلئے
جامع اصول وقواعد فراہم کرتا ہے،تجارت ومعیشت پر شارح اسلام صلی اﷲ علیہ
وسلم نے بڑی شرح وبسیط کے ساتھ روشنی ڈالی،تاکہ اِس شعبے کوجھوٹ،دھوکہ دہی،
ملاوٹ، جھوٹی قسمیں کھانے اور ذخیرہ اندوزی و منافع خوری جیسی تجارتی
خرابیوں سے دور کیا جاسکے، پیغمبراسلام صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں’’جو
شخص (تاجر)خرید تا اور بیچتا ہے اُسے پانچ خصلتوں یعنی’’سوداورقسم کھانا،
مال کاعیب چھپانا، بیچتے وقت تعریف کرنااورخریدتے وقت عیب نکالنے‘‘ سے دور
ی اختیار کرنا چاہئے،ورنہ نہ وہ ہر گز خریدے اور نہ بیچے۔‘‘اسلامی تعلیمات
کی رُو سے جو شخص مسلمانوں کے بازار میں تجارتی کارو بار کرتا ہے اُس میں
کچھ مشخص صفات و خصوصیات کا ہونا بہت ضروری ہے،یعنی اُس میں خرید و فروخت
کی عقل موجود ہو اور وہ(صاحب ِتفقہ)خرید و فروخت کے احکام کا علم رکھتا
ہو۔اسلام معیشت کے بارے میں یہ بنیادی تصورات فراہم کرتاہے کہ کسب و صَرف
یعنی مال کا حاصل کرنا اور اُس کا خرچ کرنا اِس طورپر ہوکہ وہ افراد اور
سماج کیلئے نفع بخش ہو،نقصان دہ نہ ہو، اسلام نے ایسی چیزوں کی تجارت سے
منع کیا جو لوگوں کیلئے نقصان دہ ہو،جیسے نشہ آور منشیات وغیرہ۔اسلام تجارت
میں احتکار سے منع کرتا ہے،اسی طرح خرچ کرنے میں بھی فرد اور سماج کے نفع و
نقصان کو ملحوظ رکھا گیا ہے،فضول خرچی کی ممانعت اِس لیے کی گئی کہ اِس سے
قومیں معاشی پسماندگی میں مبتلا ہوتی ہیں اور تعلیم و صحت اور دیگر معاشرتی
مفید کاموں میں خرچ نہیں کرپاتی،جبکہ اسلام نے اِس بات کو بڑی اہمیت د ی کہ
دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں تک محدود نہ رہے، بلکہ وہ زیادہ سے زیادہ تقسیم
ہو کرگردش میں رہے۔
نبی پاک ﷺ کی اطاعت ہی سماج میں امن و سکون کی ضمانت
نبی پاک ﷺ سے محبت کرنے والوں کی عقیدت اطاعت میں کیوں ڈھل نہیں
جاتی۔وکیل،ڈاکٹر، تاجر،عالم دین معاشرئے کے انتہائی اہم افراد کی باتوں میں
حقانیت تو نظر آتی ہے لیکن اُن کے افعال اُن کے اقوال کی تصدیق نہیں کرتے
جن کی وجہ سے معاشرئے میں نفوس پذیری کے حامل افراد کی بات کو وزن حاصل
نہیں رہا۔زبان بھی نکتہ توحید تو آسکتا ہے۔ تیرئے دماغ میں بُت خانہ ہو تو
کہیے انسان کے وجود سے آنے لے کر اب تک خالقِ کائنات نے جس طرح انسان کو
ہمیشہ رفعتوں سے نوازا ہے اور جس طرح اُسے نعمتوں سے مالا مال کیا ہے۔وہ
ایک ایسی انمٹ حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔انسان نے سماجی رویوں کے
مختلف ادوار طے کر کے اوجِ ثریا تک رسائی حاصل کی۔کائنات کی تخلیق کاسبب
بھی افضل البشر نبی پاکﷺ کی ہستی ہے۔ خالق نے فرمادیا کہ اگر میں اپنے
محبوب کو پیدا نہ کرتا تو کائنات پیدا نہ کرتا حتیٰ کہ اپنے رب ہونے کا
اظہار نہ کرتا۔تیری پہچان اگر ہے تو میرئے نام سے ہے تو بھی مٹ جائے اگر
مجھ کو مٹایا جائے۔گویا رب کی پہچان بھی نبی پاکﷺ سے ہے۔غزوہ بدر میں مُٹھی
بھر ساتھیوں کے ساتھ میدان بدر میں وجہ تخلیق کائنات نبی اعظم ﷺ نے اپنے
خالق سے التجا کی کہ ائے میرئے رب اگر آج یہ مُٹھی بھر تیرئے بندئے فتحیاب
نہ ہوئے تو قیامت تک تیرا نام لینے والا کوئی نہ ہوگا۔اﷲ پاک نے اپنے رب
ہونے کا اظہار بھی نبی پاکﷺ کی تخلیق سے مشروط فرمادیا اور ساتھ ہی یہ امر
بھی فرمادیا کہ آدم کی تخلیق سے پہلے ہی محمد ﷺ کو نبوت سے سرفراز فرمادیا۔
رب کو جب جب اپنی پہچان کروانا مقصود ٹھرا تب تب نبی پاکﷺ کی ناموس کو اُمت
کے لیے لازم ٹھرایا۔ کبھی منع فرمادیا کہ اپنی آوازوں کو نبی پاکﷺ کی
آوازوں سے اونچا نہ کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھارئے اعمال ضائع کردئیے
جائیں اور تمھیں پتہ بھی نہ چلے۔کسی جگہ یہ فرمادیا کہ ائے نبی ﷺ جس نے
میری اطاعت کی اُس نے آپﷺ کی عطا فرمائی۔بلال حبشیؓ کا عشق، اویس قرنی ؓکا
عشق، ابوبکر صدیق ؓ کا جذبہ یہ سب کچھ تو اِسی لیے عشق کی تمازتیں بکھیررہا
ہے کہ محبانِ نبیﷺ خود کو عشق ِ رسولﷺ سے بہرہ مند فرمالیں۔ نبی پاکﷺ کی
محبت کا فیضان ہے کہ آپ ﷺکی محبت کے طفیل پوری دنیا میں امن وآشتی کو فروغ
نصیب ہوا۔عشقِ رسولﷺکا اعجاز ہی ہے کہ کہ پوری کائنات کا نظام آپ ﷺکے دم سے
ہے۔ درویش شاعر مشرق اقبالؒ نے فرمایا تھا کہ یہ فاقہ کش جو ڈرتا نہیں ذرا
روح محمدﷺ اِس کے جسم سے نکال دو۔ اِسی لیے جب بھی مقصود یہود نصاریٰ کو یہ
ہو کہ مسلمانوں کو تنگ کرنا ہے اُن کو تکلیف میں ڈالنا ہے تو شان نبیﷺ میں
گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں۔انسانی جذبوں میں محبت کاعمل دخل ہی انسان کو
جینے کی اُمنگ دئیے رکھتا ہے۔ معاشرتی رہن سہن اور رواجات میں معاشی حالات
کا بہت گہرا تعلق ہے اور معاشی حالات درست سمت تک اُس وقت تک نہیں کیے
جاسکتے جب تک ملکی عوام امن وسکون کی زندگی بسر نہ کر رہے ہوں۔
معاشرے میں قانون کی عملداری
انسانی بنیادی ضروریات عوام کے مفادات کی ذمہ داری جن محکموں پر قانونی طور
پر لاگوہے اُن کی طرف سے چشم پوشی اور کوتاہی موجودہ دور میں بہت بڑا المیہ
ہے۔ جب قانون پر عملدرآمد نہ ہورہا ہو تو پھر معاشرئے کا زوال شروع ہو جاتا
ہے۔ اس لیے حکمران حاکمیت کے مزے لوٹنے کی بجائے عوامی خدمت کو پیشِ نظر
رکھیں کیونکہ اگر اب بھی موجودہ حکمرانوں نے سابقہ حکمرانوں کی طرح عوام کو
نوچنا بند نہ کیا تو پھر معاشرتی زوال اُن کا مقدر ہوگا تب اُن کی حکمرانی
قائم نہ رہ سکے گی کیونکہ حکمرانی کرنے کے لیے حکمرانوں نے پورے ملک کو میں
افراتفری کی جو آگ لگا رکھی تھی جس میں اب تو عوام جل رہے ہیں اُس کے بعد
اِس آگ میں جلنا ِاُن حکمرانوں کا مقدر ٹھر گیا ہے۔ کس قدر المیہ ہے کہ جب
کوئی بھی شخص آئین کی پاسداری کی بات کرتا ہے تو اُسے سازشی گردانا جاتا
ہے۔ قران جیسا کوڈ آف لائف رکھنے کے باوجود اور نبی کریمﷺ کے پیروکار
کہلوانے کے باوجود ہمارے معاشرے میں جو درگت عام آدمی کی بنی ہوئی ہے اس سے
تو یہ بات قرین قیاس ہے کہ خدانخواستہ یہ انسانی معاشرہ ہی نہیں ہے بلکہ
حیوانات کی حیوانیت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ہمار ا معاشرے تو بیچارہ جنگل
کے قانون سے بھی محروم ہے یہاں تو انصاف بکتا ہے اور اشرافیہ اِس کی خریدار
ہے۔ طاقت کے نشے میں دھت اشرافیہ ملک کے غریب طبقے کو کچلنے پر تُلی ہوئی
ہے۔ عام انسان کی نہ تو عزت محفوظ ہے اور نہ زندگی۔ معاشرتی طور پر دیکھا
جائے جس طرح کا نظام ہمارے ہاں پنپ چکا ہے ایسے نظام سے یہ توقع لگائے
رکھنا کہ یہ نظام عام آ دمی کی حالت بدلے گا، دن میں خواب دیکھنے کے مترادف
ہے۔ ہمارے معاشرے میں بغاوت سی کی صورت حال پیدا ہوتی جارہی ہے۔بیروزگاری
کا جن کسی طور بھی قابو میں نہیں آرہا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان
کسی طور بھی اپنے آپ کو حقیقی معنوں میں لیڈر ثابت نہیں کر پارہے لیڈر وہ
نہیں ہوتا جو کہ صرف اپنے پیٹ پر ہی ہاتھ پھیرے۔ لیڈر عوام کے لیے باپ جیسا
ہوتا ہے اور باپ کا کام صرف محبتیں بانٹنا اور احساس کرنا ہوتا ہے۔ ہماری
سوسائٹی میں کاش محمد علی جناحؒ کی شخصیت جیسا رہنماء ہمیں کوئی میسر
آجائے۔تو یقیناً پاکستانی عوام ان جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے چُنگل سے
نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ عوامی شعور تو بیدار ہے لیکن رونا تو اس نظام کا ہے
یہ نظام درحقیت مسائل کی جڑ ہے۔ مصطفے کریمﷺ نے جو نظام وضع فرمایا ہے وہ
معاشرے سے بے چینی دور کرنے کا نہ صرف داعی ہے بلکہ معاشرے میں امن وسکون
کی ضمانت ہے۔ امریکی پٹھو ہر صورت میں امریکی ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
پاکستان کا انتظامی ڈھانچہ ایسی صورت حال اختیار کرچکا ہے کہ جھوٹ کرپشن کا
دور دوراں ہے۔امن عامہ کی صورتِ حال کا مخدوش ہونا اس بات کی دلالت کرتاہے
کہ معیشت کی بربادی کی ذمہ داری امن و عامہ کی گھمبیر صورت حال پر ہے۔ طاقت
کا توازن اس سوسائٹی میں ہمیشہ عوام مخالف رہا ہے۔ عوام کی شنوائی کہیں بھی
نہیں ہے آئین پاکستان کے آرٹیکل2 6 اور 63 کے معیار پر کونسا عوامی
نمائیندہ پورا اُترتا ہے۔ کونسلر بننے کے لیے تھانے کچہری کی سیاست کرنا
پڑتی ہے ایم این اے اور ایم پی اے بننے کے لیے کیا کیا کچھ نہیں کرنا پڑتا
ہے۔
شُکر اسلامی معاشرے کی نشانی
خالق اور بندئے کا تعلق اِس طرح کا ہے کہ خالق سراپا عطا ہے۔خالق کی اپنی
مخلوق کے ساتھ محبت کا ادراک انسانی عقل و دانش کے لیے ممکن نہیں ہے۔ انسان
کے اِس دنیا میں قدم رکھنے سے لے کر رخصت ہونے تک۔ہر ہر لمحہ ہر ہر گھڑی
خالق کی جانب سے احسان کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ مخلوق کو جب جب کو ئی
کامیابی ملتی ہے تو وہ اُسے کبھی تو اپنی محنت کا شاخسانہ سمجھتی ہے اور
کبھی اِس کامیابی کو اپنے چالاک ہونے یا ہوشیار ہونے کا صلہ سمجھتی
ہے۔حالانکہ خالق کے ہاں تو اپنی مخلوق کے لیے عطا ہی عطاکے دراز سلسلے ہیں
جو ختم نہیں ہوتے۔ آدمیت کی تاریخ اِس بات کی گواہ ہے کہ جن اقوام نے خالق
کو حقیقی معنوں میں خالق تسلیم کیا تو خالق نے اُن پر نعمتوں کی بارش کردی۔
حضرت امام غزالیؒ نے کیمیائے سعادت میں تفصیل کے ساتھ شکر کی حقیقت کو بیان
فرمایا ہے۔حضرت امام غزالی کے ہاں۔دین کے تین مدارج ہیں علم، حال اور
عمل۔لیکن ان تینوں کی اصل علم ہے۔اور اِس سے حال اور حال سے عمل پیدا ہوتا
ہے۔ پس شکر کا علم یہ ہے کہ بندہ جانے اور پہچانے کہ جو نعمت اِس کو ملی ہے
خالق کی جانب سے ملی ہے۔حال نام ہے دل کی اس خوشی کا جو نعمت پا کر حاصلہو
اور عمل یہ ہے کہ اس نعمت کو اس کام میں صرف کرئے جس میں اِس کے خالق کی
مرضی ہو۔ ویسے بھی یہ عمل زبان اور جسم سے تعلق رکھتا ہے۔ پس جب تک یہ تمام
احوال ظاہر نہیں ہوں گے شکر کی حقیقت معلوم نہیں ہوگی اور علم یہ ہے کہ تم
اس بات کو پہچانو کہ جو نعمت تم کو ملی ہے وہ خدا وند تعالیٰ کی عطا کردہ
ہے کسی غیر کا اِس میں دخل نہیں ہے جب تک تمھاری نظروسیلہ اور اسباب پر
پڑتی رہے گی اور تم اس کو دیکھتے رہو گے تو یہ معرفت اور ایسا شکر نا قص ہے
کیونکہ اگر کوئی بادشاہ تم کو تحفہ عطا فرمائے اور تم یہ سمجھوکہ مجھے یہ
تحفہ وزیر کی مہربانی سے ملا ہے تو اس طرح بادشاہ کا شکر تم نے پورا ادا
نہیں کیا بلکہ تم نے اس کا کچھ وزیر کو بھی دے دیا اوراس طرح تم پورے طور
پر بادشاہ سے شادمان نہیں ہوئے اور اگر تم یہ سمجھو کہ تحفہ با دشاہ کے حکم
سے ملا ہے اور حکم قلم اور کاغذکے وسیلے سے ہو اہے تو اس طرح سمجھنے سے اس
شکر کو کچھ نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ تم جانتے ہو کہ قلم اور کا غذ ایک
دوسرے کے مسخرہیں اور بذات خود کچھ نہیں کرسکتے بلکہ یہاں تک کہ اگر تم یہ
بھی سمجھ لو (کہ حکم جاری ہونے کے بعد)تحفہ خزانچی نے دیا ہے تو اس میں بھی
قباحت نہیں کرسکتا کیونکہ تحفہ عطا کرنے میں خزینہ دار کا کچھ اختیا ر نہیں
تھا،وہ غیر کا محکوم ہے اس کو جب حکم دیا جائے گا وہ اس کی نا فرمانی نہیں
کرسکتا،اگر مالک کا اس کو حکم نہ ہو تو وہ کبھی تحفہ نہیں دے گا اس کا حال
بھی بالکل قلم کی طرح ہے۔اسی طرح اگر تم تمام روئے زمین کی نعمت (غلہ پھل
اور دوسری غذاؤں)کا سبب بارش کو اور بارش کا سبب ابر کو سمجھو کشتی کا ساحل
پر رک جانا بادِ مراد کا نتیجہ سمجھے گا تو اس طرح بھی پورا شکم (منعم
کا)ادا نہیں ہوگا۔ہاں جب تم غور کروگے کہ ابر اورباران،ہو ااورسورج،چاند
اور ستارے وغیرہ سب کے سب خد اوند تعالی کے دست قدرت میں اس طرح مسخر ہیں
جس طرح قلم کاتب کے ہاتھ میں ہے کہ قلم کاکچھ حکم نہیں ہے کاتب جس طرح
چاہیے اس سے لکھوائے تو اس طرح سوچنا شکر کے نقصان کا موجب نہیں ہو سکتا
اگر ایک نعمت کسی شخص کے واسطے سے تم کو ملی ہے او،تم کو یوں سمجھناا چاہیے
کہ اس دینے والے شخص نے تجھ کو جو کچھ دیا وہ اس وجہ سے دیا کہ حق تعالی نے
اس پر ایک موکل کو نازل کیا تاکہ اس کو دینے پر مجبور کرے اگر وہ شخص ا کے
خلا ف کرنا چاہتا تو خلاف کرنا ممکن نہ ہوتا اگر ممکن ہوتا تو وہ ایک چھدام
بھی تم کو نہ دیتا۔یہ ہم نے جس موکل کا ذکر کیا اس سے مراد وہ خواہش ہے جو
ا? تعالی نے اس دینے والے کے دل میں پیدا کی (کہ وہ تم کو کچھ دے)اور اس کو
یہ بات سمجھائی کہ دونوں جہان کی خوبی اس میں ہے کہ یہ نعمت تو دوسرے شخص
نے دی۔ بس اس دینے والے نے تم کو جو کچھ دیاوہ یہ سمجھ کردیا کہ دین کی
بھلائی اس میں ہے۔ حضرت امام غزالیؒ مزید بیان فرماتے ہیں۔ اسطرح اس نے
جوکچھ تم کو دیادہ حقیقت میں اپنی ذات کو دیا کیونکہ اس دینے کو اس نے اپنی
ذات کا وسیلہ بنایا۔حق تعالی نے تم کو مال ونعمت عطافرمائی کیونکہ اس پر
ایک ایسا موکل بھیج دیا۔ پس جب تم کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہوگئی کہ تمام
بنی آدم مالک حقیقی کے خزانچی کی طرح ہیں اور خزانچی درمیان میں اسباب اور
واسطوں کے اعتبا ر سے قلم کی مانند ہیں، ان میں سے کسی کا بھی کسی چیز پر
اختیار نہیں بلکہ ہر اس صورت میں تم خدا ہی شکر ادا کروگے بلکہ اس حقیقت کا
جان لینا بھی شکر گذاری ہے۔حضرت موسی علیہ السلام نے بارگاہ الہی میں عرض
کیا کہ یا الہی،آدم (علیہ السلام)کو تونے اپنے دستِ قدرت سے پیدا فرمایا
اور ان کو طرح طرح کی نعمتیں عطا فر ما ئیں تو انہوں نے تیرا شکر کس طرح
ادا کیا۔حق تعالی نے فرمایا کی آدم نے یہ سمجھا کہ وہ تمام نعمیتں صرف میری
طرف سے ہیں اور اس طرح سمجھنا عین شکر ہے۔معلوم ہوناچاہیے کہ ایمان کی
معرفت کے بہت سے ابواب ہیں ان میں سے اول تقد یس ہے یعنی تم اس بات کو
سمجھو کہ خدا وند عالم تمام مخلوقات کی صفت سے اور ہر اس بات سے جو اس
سلسلہ میں وہم وخیال میں آئے پاک ہے۔سبحان اﷲ کے یہی معنی ہیں۔دوسری توحید
یہ ہے کہ تم یہ سمجھوکہ دونوں جہان میں جو کچھ ہے وہ اس کامال ہے اسی کی
نعمت ہے الحمداﷲ کے یہی معنی ہیں۔ یہ معرفت پہلی بیان کردہ دونوں باتوں سے
زیادہ اہم ہے کیونکہ وہ دونوں اسی کے تحت میں ہیں۔اس بنا پر سرور کونین ﷺ
نے ارشاد فرمایا ہے کہ سبحان اﷲ میں اس کی حسنات ہیں اورلا الہ الا اﷲ میں
بیس اور الحمد اﷲ میں تیس نیکیاں ہیں۔یہ حسنات وہ کلمات نہیں ہیں جو زبان
سے کہے جائیں بلکہ ان سے مراد وہ معرفتیں ہیں جوان کلمات میں موجود ہیں اور
ان سے نکلتی ہیں امام غزالیٰ نے آگے جاکر مزید اِس بات پر بحث کی ہے کہ شکر
کے علم کے معنی یہی ہیں۔لیکن شکر کا حال وہ فرحت اور آسودگی ہے جو دل میں
پیدا ہو۔ اس معرفت اور آگاہی سے جب کوئی شخص کسی غیر سے نعمت حاصل کرے تواس
کے تصور سے خوش ہوااس خوشی اور مسرت کے اسباب تین ہیں ایک یہ کہ اس وجہ سے
خوش ہوکہ اس کو اس نعمت کی حا جت اور ضرورت تھی اور وہ اسکو ملی گئی تواس
کی شادمانی کو شکر نہیں کہا جائے گا۔ اس کواس مثال سے سمجھوکہ کسی بادشاہ
سے سفر کا ارادہ کیا اس نے اپنے ایک غلام کو ایک گھوڑادیا۔ اب اگر گھوڑا پا
کر اس لئے خوش ہے کہ اس کواس کی حاجت تھی تواس طرح بادشاہ کا شکر کس طرح
ادا ہوا کیونکہ یہ فرحت وشادمانی تواس کو اس وقت بھی حاصل ہوتی اگراس گھوڑے
کو جنگل میں پا تا،دوسرا سبب یا وجہ یہ ہے کہ وہ بادشا ہ کی اس عنائیت کو
جو اس کے باب میں ہوئی ہے پہچان کر خو ش ہوکہ بادشا ہ اس کے حال پر کسی قدر
مہربان ہے اور دوسری نعمتوں کی امید بھی دل میں پیداہوئی،اگر وہ گھوڑا کسی
صحرا یا جنگل میں پاتا تو اسے ایسی خوشی حاصل نہیں ہوتی ْکیونکہ یہ مسرت اس
کے دل میں منعم کے انعام سے پیدا ہوئی ہے لیکن منعم نہیں۔ یہ بات اگر چہ
شکر میں داخل ہے لیکن نقصان سے خالی نہیں ہے۔تیسری وجہ یہ ہے کہ گھوڑے پر
سوار ہو کر بادشاہ کے حضور میں جارہا ہے تاکہ اس کا دیدارکرے اور سلطان کی
ملا قات کے سوا اس کا کچھ اور مطلب نہیں ہے تو چونکہ یہ خوشی بادشاہ کے
باعث پیدا ہوئی اس لئے یہاں شکر پورا ہوا۔ اسی طرح اگر اﷲ تعالی نے کسی کو
نعمت عطا کی اور وہ اس نعمت سے خوش ہو نعمت دینے والے سے نہیں تو اس کو شکر
نہیں کہا جائے گا اور اگر منعم کے سبب سے خوش ہوا کہ اس کو یہ نعمت اس کے
دین کی خاطر جمعی کا باعث بنی تاکہ علم و عبادت میں مشغول ہو کر بارگا ہ
الہی کا تقرب حا صل کرے تو اس شکر کا کما ل ہے اور اس کما ل شکر کی علامت
یہ ہے کہ دنیاوی علا ئق سے اس کو جو چیز حاصل ہو وہ اس سے ملول ہو اور اس
کو نعمت نہ سمجھے بلکہ اس کے زوال کو ا? تعالی کا فضل سمجھے اور اس کا شکر
ادا کرے۔ایسی چیز جو اُسے دین کے راستے کو طے کرنے میں اس کی مدگار نہ ہواس
سے خوش نہ ہو۔شیخ شبلی قدس سرہ نے کہا ہے کہ کما ل شکریہ ہے کہ نعمت نہ
دیکھے بلکہ نعمت عطا کرنے والے کو دیکھے۔موجودہ ادوار میں انسان کی زندگی
کو ایک ایسی ہوس نے آن گھیرا ہے جس کا سلسلہ ختم ہونے کو ہی نہیں آرہا۔
اِسی ہوس نے وحشت کی شکل اختیار کرلی ہے کہ انسان سے سکون چھن گیا ہے۔ ظلم
و ستم روا رکھ کر کمائی جانے والی دولت کو بندہ اپنا حق سمجھتا ہے۔ ایسا
ہونے کے لیے انسان کو روحانیت کا گلا کاٹناپڑ رہا ہے جس کی وجہ سے جتنی عیش
و عشرت اُسے میسر ہوتی ہے اُتنی ہی بے چینی اُسکا مقدر بن جاتی ہے۔ ہماری
مندرجہ بالا بحث سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ معاشی مسائل
کے حال کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں امن و سکون ہو، رواداری ہو، منافقت
سے پاک معاشرہ ہو۔ جھوٹ سے نفرت ہو۔ سود سے آزاد معاشر ہ ہو۔ گویا کہ
اخلاقیات کا معاشرے کی روحانی اقدار سے گہرا تعلق ہے اور معاشرے کی روحانی
اقدار ہی نبی پاک ﷺ کے دین حق کے مطابق معاشی سسٹم کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔ |