انڈیا کے ایک معروف اخبار کے مطابق ہندو تنظیم آر ایس ایس
یعنی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سینیئر پرچارک (مبلغ) اندریش کمار نے کہا
ہے کہ سنہ 2025 کے بعد پاکستان بھارت کا حصہ بن جائے گا۔
|
|
انھوں نے یہ بات سنیچر کے روز کشمیر کے مسئلے پر ایک تقریر کے دوران انڈیا
کے اقتصادی دارالحکومت ممبئی میں کی۔
انھوں نے مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے کہا: 'آپ لکھ لیجیے کہ آپ پانچ سات سال
بعد کراچی، لاہور، راولپنڈی اور سیالکوٹ میں کہیں بھی مکان خریدیں گے اور
آپ کو تجارت کا موقع حاصل ہوگا۔'
اخبار دی انڈین ایکسپریس کے مطابق اندریش کمار نے کہا کہ سنہ '47 سے پہلے
پاکستان نہیں تھا۔ لوگ یہ کہتے ہیں (سنہ) 45 کے پہلے وہ ہندوستان تھا۔ اور
25 (2025) کے بعد دوبارہ وہ ہندوستان ہونے والا ہے۔'
انھوں نے کہا: 'حکومت ہند نے پہلی بار کشمیر پر سخت موقف اپنایا ہے۔ کیونکہ
فوج پولٹیكل ول پاور (سیاسی عزم) پر عمل کرتی ہے لہذا ہم یہ خواب لیکر
بیٹھے ہیں کہ لاہور جا کر بیٹھیں گے اور کیلاش مان سروور جانے کے لیے چین
سے اجازت نہیں لینی پڑے گی۔ ڈھاکہ میں ہم نے اپنے ہاتھ کی حکومت بنائی ہے۔'
انھوں نے یہ امید ظاہر کی کہ 'اکھنڈ بھارت' کا خواب جلد ہی پورا ہوگا۔
اس کے متعلق میں نے کمیونسٹ پارٹی انڈیا۔مارکسٹ کی رہنما اور اس کی خواتین
ونگ کی سیکریٹری صحافی اور ایکٹیوسٹ کویتا کرششن سے بات کی تو انھوں نے کہا
کہ 'ان کا اکھنڈ بھارت' ہمیشہ سے ایک خواب رہا ہے۔
|
|
اکھنڈ بھارت کا خواب
انھوں نے کہا: 'آر ایس ایس اکھنڈ بھارت کے طور پر صرف پاکستان اور بنگلہ
دیش کو ہی نہیں بلکہ نیپال کو بھی دیکھتی ہے۔ وہ ان سارے ممالک کو اپنے
وسیع تر ہندتوا کے پروجیکٹ کے حصے کے طور پر دیکھتی ہے اور مجموعی طور اسے
ایک فاسشٹ ہندو راشٹر قائم کرنے کی راہ میں ایک قدم مانتی ہے۔'
کویتا کرششن نے مزید کہا: 'یہ ان کی توسیع پسندانہ خواہش ہے جس میں دوسرے
ممالک پر ان کا قبضہ، دوسرے ممالک کے وجود کا خاتمہ اور ہندو کی فتحیابی
اور ہندو راج کا قیام ہے جس میں مسلمان دوسرے درجے کے شہری ہوں گے وغیرہ
شامل ہے۔'
جب میں نے ان سے کہا کہ سی پی آئی ایم ایل کا خیال بھی ایسا ہے کہ انڈیا
پاکستان اور بنگلہ دیش کو ملا دیا جائے تو انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: 'ہم
نے ہمیشہ کہا کہ انڈیا پاکستان میں کشمیر کے مسئلے پر جس قسم کا تنازع ہے
اس کا ایک سیاسی حل نکلے۔ اور یہ حل ایسا ہو کہ بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش
اور کشمیر کا ایک بہت ہی مضبوط فیڈریشن بنے جس میں سب کو مساوی طور پر
دیکھا جائے۔'
اس کی مثال دیتے ہوئے کویتا کرشنن نے کہا: 'مثال کے طور شاویز (ہیگو شاویز
وینزویئلا کے رہنما) کے دور میں لاطینی امریکی ممالک کے اتحاد کو دیکھیں۔
لاطینی امریکی ممالک میں آپس میں بہت جھگڑے تھے لیکن شاویز کے دور میں ان
میں زبردست معاشی اور سیاسی اتحاد پیدا ہوا جس نے سامراجی امریکہ کو کافی
حد تک بڑا چیلنج پیش کیا۔ اور اس اتحاد کو قائم کرنے اور برقرار رکھنے کی
اب بھی کوشش جاری ہے۔
|
|
انھوں نے مزید کہا: 'ہم جنوبی ایشیا میں اسی طرح کے سامراج مخالف اتحاد اور
فیڈریشن کا تصور رکھتے ہیں جس میں سب کا وجود ہو اور سب کو مساوی حقوق حاصل
ہوں۔ اس میں ہم ایک خود مختار کشمیر تک کے بارے میں سوچ سکتے ہیں جو کہ
ابھی بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک روٹی کا ٹکڑا بنا ہوا ہے۔'
ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ یورپی یونین جیسی کوئی چیز ہے تو انھوں نے کہا
کہ ویسا بھی ہو سکتا ہے لیکن یورپی یونین کا معاشی پہلو یہ ہے کہ اس میں
یونان اور رومانیہ جیسے ممالک کے تئیں بڑے ممالک کا رویہ بڑے بھائی جیسا ہے۔
'ہم لوگوں کے تصور میں جو فیڈریشن ہے اس میں ہم ایسا بالکل نہیں مانتے کہ
انڈیا کسی بڑے بھائی یا دادا جیسے کردار میں ہوگا۔'
اندریش کمار کے بیان پر جب ہم نے اردو کے سینیئر صحافی اور مسلم دنیا کے
ایڈیٹر زین شمسی سے سوال کیا تو انھوں نے جواب دینے کے بجائے یہ سوال پوچھ
لیا کہ 'جب پاکستان انڈیا کا حصہ ہونے والا ہے تو پھر آر ایس ایس والے
انڈیا کے مسلمانوں کو ہمیشہ پاکستان کیوں بھیجنے پر تلے رہتے ہیں؟'
|