انڈیا میں سوشل میڈیا پر ایک ایسی ویڈیو گردش کر رہی ہے
جس میں کہا جا رہا ہے کہ ایک پاکستانی کرنل نے بالاکوٹ میں انڈین فضائیہ کے
حملے سے 200 عسکریت پسندوں کی ہلاکت کو قبول کر لیا ہے۔
|
|
انڈین فورسز نے پاکستان میں صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے بالاکوٹ میں 26
فروری کو ایک ہوائی حملہ کیا۔ ان کے مطابق یہ ایئر سٹرائیک پلوامہ میں
خودکش حملے میں مارے جانے والے 40 انڈین نیم فوجی اہلکاروں کی ہلاکت کا
بدلہ تھا۔
لیکن دونوں ممالک نے ان ہوائی حملوں سے متعلق مختلف بیانات دیے ہیں۔
پاکستان نے دعویٰ کیا ہے کہ اس حملے میں کوئی ہلاکتیں نہیں ہوئیں، جبکہ کئی
انڈین وزرا نے کہا ہے کہ کاروائی میں 200 سے زائد عسکریت پسند مارے گئے۔
20 سیکنڈ کی وائرل ویڈیو میں ایک شخص، جن کی شناخت کرنل فیصل کے نام سے
ہوتی ہے، جنہیں ایک بچے سے بات کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
متعدد انڈین میڈیا نے بدھ کو یہ ویڈیو شیئر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ایک
پاکستانی فوجی افسر نے بالاکوٹ حملے میں 200 عسکریت پسندوں کی ہلاکتوں کو
تسلیم کر لیا ہے۔
فیس بک پر کئی مقبول دائیں بازو کے گروپس نے اس ویڈیو کو ’انڈین ائیر فورس
کے بالاکوٹ پر حملے کا ثبوت‘ کی عبارت کے ساتھ شئیر کیا۔
یونین وزیر گری راج سنگھ نے ویڈیو کو ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ’پاکستان انڈین
فوج کی بہادری پر رو رہا ہے۔ یہ ملک کے ان غداروں کے لیے گواہی ہے جو حملے
کا ثبوت مانگ رہے ہیں۔‘
|
|
اس وائرل ویڈیو کو لاکھوں دفعہ یوٹیوب، فیس بک اور ٹوئٹر پر شئیر کیا گیا
ہے۔
|
|
|
|
لیکن اس دعوے پر سنجیدہ سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
بی بی سی کی تحقیق کے مطابق ویڈیو میں نظر آنے والے پاکستانی فوجی افسر نے
فضائی حملے میں ہونے والی 200 مبینہ ہلاکتوں کی تصدیق نہیں کی۔
|
|
ایک شخص کی ہلاکت
سینیئر پاکستانی صحافی رحیم اللہ یوسفزئی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا
’ویڈیو میں فوجی افسر سے بات کرنے والے بوڑھے آدمی پشتو بول رہے ہیں جبکہ
خیبر پختونخوا کے بالاکوٹ کے علاقے میں زیادہ تر ہندکو بولی جاتی ہے۔
|
|
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ویڈیو میں سنی جانے والی آواز 200 میں سے
ایک شخص کی ہلاکت کی بات کر رہی ہے۔
ویڈیو میں افسر کہتے ہیں ’ہم اسی لیے یہاں آئے ہیں کیونکہ ہم سب کا ایمان
ہے کہ جو حکومتِ وقت کے ساتھ کھڑا ہو کر لڑائی کرتا ہے وہ جہاد ہے۔‘
پھر ایک اور آواز سنائی دیتی ہے ’یہ رتبہ اللہ کے کچھ خاص بندوں کو نصیب
ہوتا ہے، ہر کسی کو نہیں ہوتا۔ کل 200 لوگ اوپر گئے تھے (پہاڑوں پر) لیکن
صرف اس کے نصیب میں لکھی ہوئی تھی شہادت۔ ہم روزانہ چڑھتے ہیں، جاتے ہیں،
آتے ہیں۔ یہ صرف اللہ کے خاص بندوں کو نصیب ہوتی ہے جس پر اس کی خاص نظر و
کرم ہوتی ہے۔‘
یہ بات واضح نہیں ہوئی کہ آواز افسر کی ہے یا کسی اور شہری کی کیونکہ آواز
کیمرے کے پیچھے سے آ رہی ہے۔ تاہم پاکستانی صحافیوں کا یہ خیال ہے کہ آواز
کرنل فیصل کی ہی ہے، لیکن ویڈیو میں تکنیکی خرابی کے باعث اس کی آواز اور
تصویر میں تال میل نہ ہونے کی وجہ سے یہ ظاہر نہیں ہو رہا۔
|
|
ویڈیو بالاکوٹ کی نہیں
اس ویڈیو کی سب سے پرانی پوسٹ فیس بک پر 1 مارچ 2019 کو کی گئی تھی۔
فیس بک پر دستیاب اردو کی پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ پاکستانی سپاہی
احسان اللہ کی لاش ہے جو کہ مغربی خیبر پختونخوا کے ایک گاؤں سے ہے۔
پاکستان فوج کے ایک ترجمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ویڈیو
دیر زیریں کی ہے جو کہ بالاکوٹ سے تقریباً 300 کلومیٹر دور ہے۔
اس واقعے سے متعلقہ ایک اور ویڈیو میں ہم نے سوشل میڈیا کے ذریعے تین لوگوں
کی شناخت کی جن کے نام جاوید اقبال شاہین، فرمان اللہ خان اور خیشتہ رحمان
درانی ہیں۔
تینوں افراد کی فیس بک پوسٹس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ برگیڈیئر حلیم اور کرنل
فیصل متاثرہ خاندان سے ملنے ان کے گاؤں گئے تھے۔ تینوں افراد نے فیس بک پر
یہ بھی لکھا ہے کہ ان کا تعلق دیر سے ہے۔
|
|
پاکستان میں متضاد رائے
کئی پاکستانی میڈیا ویب سائیٹس نے اس ویڈیو کو جعلی کہہ کر انڈیا پر الزام
لگایا ہے کہ وہ بالاکوٹ کے حملے میں ہلاکتیں ثابت کرنے کے لیے ایک اور
جھوٹی ویڈیو کا استعمال کر رہے ہیں۔
لیکن ان ویب سائٹس پر دی گئی اطلاعات بھی غلط ہیں۔
ڈیلی پاکستان کے مطابق ’یہ ویڈیو پاکستانی سپاہی عبدالرّب کی ہے جو کہ ایک
اور سپاہی نائیک خرم سمیت ایل او سی پر انڈین فورسز کی شیلنگ سے ہلاک ہوئے
تھے۔‘
لیکن ریڈیو پاکستان کی ٹویٹ کے مطابق یہ دونوں سپاہی پنجاب کے ڈیرہ غازی
خان سے تعلق رکھتے تھے۔
|