نوجوان کسی بھی قوم کا اصل سر مایہ ہو تے ہیں نوجوان
ہی قوم کا مستقبل کہلاتے ہیں اور نوجوان ہی قوم کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت
رکھتے ہیں وہ کہیں مفکربن کر قوم کو آنے والے خطرات سے آگاہ کرتا ہے تو
کہیں دانشور بن کر ان کا حل مہیا کرتا ہے ۔ وہی نوجوان کبھی قوم کا بہادر
سپوت ، سپاہی وجرنیل بنتا ہے ۔ وہی نوجوان کہیں شاعر وادیب وہی نوجوان
قانون کا رکھوالا بنتا ہے وہی نوجوان طاقت وتوانائی سے بھرپور علم وادب کا
مرقع ، اعلیٰ اخلاق وکردار کا مالک ، عقل ودانش ،فہم وفراست کا گہوارہ اور
علم وادب کی نئی راہیں تلاش کرے گا ۔اگر یہ نوجوان تہذیب واخلاق ،تعلیم
وشائستگی کا دامن چھوڑدے ۔ قانون شکن بن جائے قلم چھوڑ کر ہاتھ میں اسلحہ
تھام لے وہ قوم کیلئے رستا ہوا ناسور بن جاتا ہے ۔آج ہماری نوجوان نسل کا
المیہ یہ ہے وہ اخلاقی اقدار ، اسلامی روایات ،مشرقی تہذیب سے ہورہی ہے اور
اخلاقی دیوالیہ پن کا ثبوت دے رہی ہے ۔ تنزلی وانحطاط کی طرف بڑھ رہی ہے
کسی مفکر نے کیا خوب کہا ہے اگر کسی قوم کے قلعوں کو مسمار کردیاجائے وہ
دوبارہ تعمیر کرلی گئی اگر اس کی نئی نسل کے اخلاق کو تباہ کردیا جائے تو
اس قوم کو بربادی سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔ انسان وحیوان میں بنیادی فرق
اخلاقی ضابطوں کا ہے ۔ جو انسانی معاشرہ اخلاقی ضابطوں سے عاری ہو وہ
انسانوں کا جنگل تو کہلا سکتا ہے مگر مہذب انسانی معاشرہ نہیں کہلا سکتا ۔
مضبوط اخلاقی ضابطے انسانیت کو اسلام نے دیئے ہیں ۔ اسلامی تعلیمات کا
بڑاحصہ اخلاقیات پر مشتمل ہے ۔
قرآن مجید میں حکم دیا گیا ہے قولو للناس حسنا لوگوں سے اچھے طریقے سے پیش
آؤ ۔ ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم جو خلق عظیم کا نمونہ اخلاق کے مجسمہ
وپیکر تھے جن کے خلق عظیم کو قرآن مجید میں اﷲ رب العزت نے ارشاد فرمایا
’’وانک لعلیٰ خلق عظیم‘‘ بے شک آپ ﷺاخلاق کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز ہیں ۔
ہمارے آقا ﷺ نے اپنی بعثت کا مقصد فرمایا ’’انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق‘‘
ترجمہ:مجھے اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کیلئے بھیجا گیا ہے ۔آپ ﷺ نے عرب کے اجڑ ،
تہذیب واخلاق سے عاری وحشی درندوں کو اپنے اخلاق عالیہ سے تہذیب وشرافت
اخلاق وکردار کا حسین مجسمہ بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا جن کے اخلاق کو
دیکھ کر لوگ الام کے دائرہ میں داخل ہوگئے ۔اخلاق کو نجی اور انفرادی زندگی
کے ساتھ قومی اور بین الاقوامی زندگی کی لازوال اور اعلیٰ قدر قرار دیا ۔
تمام انسانی طبقات کیلئے تمام اخلاقی اقدار کو یکساں طور پر ضروری قراردیا
سخاوت ، ا یثا ر ، ہمدردی، غم خواری ، محبت ، اخوت، امانت ،دیانت، صد ا قت
، شرافت ، جرأت وشجاعت ، بڑوں کا ادب، چھوٹوں پر شفقت ،اساتذہ کا احترام ،والدین
کی اطاعت، شرم وحیا، عفت وپاکدامنی اخلاق کے حسین پھول ہیں انا پرستی ، خو
د غرضی ، بخل وکنجوسی ، نفرت وعداوت ،کم ہمتی ، بزدلی ، جھو ٹ وفریب ، چوری
، حرام خوری، بد دیانتی ، بے ایمانی ، بے حیائی وبے شرمی کے اعمال وافعال
اخلاقی تنزلی وانحطاط کی علامات میں آج جب ہم اپنے نوجوانوں پر نظر ڈالتے
ہیں تو رونا آتا ہے وہ اخلاقی اوصاف سے عاری نظر آتے ہیں اور تعلیم سے جی
چراتے ہیں ۔
آج جس نوجوان کو ماں باپ کا سہارا ، بھائی کا بازو، بہنوں کی عزت کا
رکھوالا بننا تھا وہ نوجوان جسے ماں ، باپ، بہن ،بھائی ، بڑی چاہتوں اور
ارمانوں سے سکول بھیجتے ہیں انہیں کیا علم کہ ان کا لال ،لاڈلا ان کے
بڑھاپے کا سہارا اور ان کی آنکھوں کا تارا ان کے ارمانوں کا گلا گھونٹ چکا
ہے ۔ انکی چاہتوں کا قتل عام کرچکا ہے نوجوان جن پر تعلیمی اداروں کو کبھی
بڑا فخر ہوا کرتا تھا اور جو کھیلوں میں نام اور عزت بنایا کرتے تھے آج
تعصب وجہالت او ر تاریکی وگمراہی کی ایسی دلدل میں پھنس چکا ہے کہ خود بھی
چاہے تو اس سے نکلنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے ۔ نوجوان جو ملک وقوم
کا سرمایہ تھا ۔ جو اقبال کا شاہین تھا آج ہیروئن اور چرس کے نشے میں دھت
گندے نالوں میں پڑا ہے ۔
درد کے طوفان نے ہر گھر کو جلا کر رکھ دیا
وحشتوں نے سوچ کا محور جلا کر رکھ دیا
دشمنِ انسان نشے نے زہر پھونکا اس طرح
بے بسی کے کرب نے پتھر بنا کر رکھ دیا
ہمارے ہاں نوجوانوں میں اخلاقی بحران کی ایک وجہ میڈیا ہے ۔ہمارے ہاں گندے
گانے ،ڈرامے ، فلمیں ہیں ۔ ہمارے ہاں ریڈیو، ٹیلی ویژن سے وہ کام نہیں لیا
جاتا ہے ۔ پردہ سکرین پر آنے والی اداکارائیں نیم عریاں لباس میں ملبوس
ہوتی ہیں ۔زرق برق لباس اور قیمتی ملبوسات بڑی بڑی کوٹھیاں ، بنگلے ،
عالیشان عمارات وغیرہ دکھائی جاتی ہیں ۔جن کو دیکھ کر معاشرے کے بے بس اور
مجبور افراد جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ ڈاکہ زنی ، چوری ، دہشتگردی ،ذخیرہ
اندوزی ، سمگلنگ ، رشوت خوری ، خویش پروری یہ سب معاشرتی برائیاں ٹیلی ویژن
کے منفی اثرات کا نتیجہ ہیں کسی بھی ملک کے ٹیلی ویژن پر و گر ا مو ں کو
قومی تقاضوں اور امنگوں کے مطابق ہونا چاہیے ۔ ہمارے ہاں خواندگی کی شرح
بہت کم ہے ۔ اسلئیے والدین کی اکثریت ان پڑھ ہے وہ اپنے بچوں پر پوری توجہ
نہیں دیتے ۔والدین کی عدم دلچسپی بھی نوجوانوں کے اخلاق پر اثر انداز ہوتی
ہے ۔
قوموں کی برادری میں ارفع واعلیٰ مقام حاصل کرنے کیلئے نوجوان کا کردار
جزولاینفک ہے ۔ لیکن افسوس کہ آج کا نوجوان ان اقدار سے عاری ہے اور وہ ہر
وہ کام کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کاانجام منفی ہو ۔ اگر ہم ماضی پر
نظردوڑائیں تو ہمارے اہلِ اقتدار کے اعمال بھی اس سلسلے میں کوئی
خوشگوارتاثر قائم نہیں رکھتے ۔ انہوں نے نہ تو خود اسلامی اقدار اپنائیں
بلکہ الٹا نوجوانوں کی عادات واخلاق کا بھی بیڑہ غرق کردیا ۔ہماری آج کی
نوجوان نسل نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کو مشعل راہ بناتی لیکن صد افسوس کہ
انہوں نے شاید کھوکھلی مغربی تہذیب میں زیادہ کشش محسوس کی کہ وہ اس طرف
راغب ہوگئے ۔نوجوانوں کو چاہیے تھا کہ وہ اپنے مسلمان ہیروز حضرت خالد بن
ولیدؓ،محمد بن قاسمؒاور صلاح الدین ایوبیؒوغیرہ کے کارناموں پر فخر کرتے
ہوئے ان کی پیروی کرتے لیکن وہ تہذیب فرنگ کے فلمی ہیروز کا تذکرہ کرتے
نہیں تھکتے ایسے نوجوان کو اپنے اندر کا انسان جگاناچاہیے ۔ |