آزادی کےاٹھتر سال: قوم نے کس نعرے پر گزارے ہیں؟


آزادی کےاٹھتر سال: قوم نے کس نعرے پر گزارے ہیں؟
تحریر:سیدہ ایف گیلانی
’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اللہ‘‘ یہ وہ نعرہ تھا جس نے برصغیر کے مسلمانوں کے دلوں میں آزادی کی تڑپ پیدا کی، جس نے قیام پاکستان کی بنیاد رکھی، اور جس نے ایک ملت کو جداگانہ تشخص، نظریاتی وحدت اور قومی وقار کا شعور عطا کیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آزادی کے اٹھتر سال بعد ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہم آج بھی اسی نعرے کے سائے میں سانس لے رہے ہیں، یا یہ نعرہ محض جلسوں کی زینت، بینروں کی سطر، اور تقریروں کی حد تک محدود ہو کر رہ گیا ہے؟
یہ نعرہ تھا کہ جس سے چراغِ آزادی جلے
دلوں کے زخم بھی امید کے شعلوں سے بھرے
اور
زمین ملی تو ملی، مقصدِ عظمت نہ ملا
ہم اپنے خواب کو کیوں آج فراموش کریں؟
وہی صدا ہے جو تاریخ میں گونجتی رہی
خود احتسابی سے اس آگ کو پھر زندہ کریں
قیام پاکستان کا مقصد محض زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنا نہیں تھا، بلکہ ایک ایسی مملکت کا قیام تھا جہاں مسلمان دین اسلام کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ عدل و مساوات، انسانی عظمت، اور خودداری کے اصولوں پر مبنی ایک ماڈل سوسائٹی تشکیل دی جا سکے۔ لیکن اٹھترسال گزرنے کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ ’’نظریہ پاکستان‘‘ ایک ابہام کا شکار ہے۔ آج تعلیمی نصاب میں، میڈیا پر، اور سیاسی بیانیے میں اس نظریے کی وہ جگہ نہیں رہی جو ایک نظریاتی ریاست میں ہونی چاہیے تھی۔
پاکستان ایک نظریاتی ریاست تھی، ہے یا نہیں، یہ سوال آج اکثر ذہنوں میں گردش کر رہا ہے۔ 1947 کے بعد سے اب تک ہم نے نظریہ پاکستان کو اپنی پالیسیوں کا محور بننے ہی نہیں دیا۔ ہر دور میں وقتی ضرورتوں، عالمی دباؤ، یا اندرونی مفادات کے تحت نظریاتی اصولوں کو نظرانداز کیا گیا۔
قیام پاکستان کے فوراً بعد جو آئینی و تعلیمی بحران شروع ہوا، وہ آج بھی جاری ہے۔ آئین بنانے میں نو سال لگے، تعلیمی نصاب کبھی یکساں نہ ہو سکا، نظریاتی ادارے سیاسی اثر و رسوخ کی نذر ہو گئے، قوم کو یہ تک نہیں معلوم کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خدوخال کیا ہونے چاہئیں؟، اٹھتر برس کے نعرے: صرف الفاظ یا کوئی وژن؟
نہ نصاب میں ہے، نہ باتوں میں ہے
وہ جوشِ منزل، وہ ذاتوں میں ہے؟
ہوئے ہیں نعرے تو بے اثر سے
نہ فکر باقی، نہ وہ ہنر سے
اٹھو کہ اب بھی ہے وقت باقی
بچا لو ملت کے خواب باقی
نعروں کی سیاست اور قومی شعور کی شکست: ہر دور میں نئی حکومتوں نے نیا نعرہ گھڑا:’’روٹی، کپڑا، مکان‘‘،’’سب سے پہلے پاکستان‘‘،’’تبدیلی آئے گی‘‘،اور’’ریاستِ مدینہ‘‘۔۔۔“نیا پاکستان”،
لیکن یہ نعرے حقیقت کی بجائے جذباتی استحصال کا ذریعہ بنے رہے۔ قوم ہر بار امید کی فصیل پر چڑھی، اور ہر بار مایوسی کی کھائی میں گری۔ کسی بھی نعرے کو عملی قالب میں ڈھالنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ یوں لگتا ہے کہ نعرے صرف ووٹ لینے کا ذریعہ رہ گئے ہیں، قومی شعور جگانے کا ذریعہ نہیں۔
کیا ہم اپنی فکری بنیادوں سے کٹ چکے ہیں؟پاکستان کے قیام کا بنیادی محرک ’’اسلامی تشخص‘‘ تھا، لیکن آج تعلیم، معیشت، سیاست اور قانون کے میدان میں مغرب زدگی، لادینیت اور قومی خودی کی نفی زیادہ نمایاں ہے۔ قائداعظم اور علامہ اقبال نے جس خودداری، آزادیٔ فکر، اور روحانی بیداری کی بات کی تھی، وہ آج کے نوجوان کو صرف کتابوں میں ملتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ ہمارا نصب العین تھا، تو اس کے سائے میں ہمارا اجتماعی کردار کیسا ہونا چاہیے تھا؟
قوم کو نعرے نہیں، نظریاتی بصیرت درکار ہے!اٹھتر سال نعرے سننے کے بعد قوم تھک چکی ہے۔ اب وقت ہے کہ ہم نعروں سے آگے بڑھ کر ایک واضح نظریاتی، اخلاقی، تعلیمی، اور معاشی ایجنڈا مرتب کریں۔ ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ صرف ایک نعرہ نہیں، بلکہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اس کے اندر اجتماعیت، مساوات، آزادی، اور اللہ کی بندگی جیسے اصول مضمر ہیں۔ جب تک ہم اس نعرے کو اپنے نظام کا محور نہیں بنائیں گے، ہم سیاسی، اخلاقی اور قومی بحران سے نہیں نکل سکتے۔
چنانچہ یہ بات واضح ہے کہ نعرہ ایک سمت ہے، منزل نہیں!اس قوم نےاٹھترسال نعرے پر گزارے، لیکن بغیر منزل کے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم نظریہ پاکستان کی اصل روح کو سمجھیں، اپنی نسلوں کو اس سے روشناس کروائیں، اور محض وقتی نعروں سے آگے بڑھ کر ایک دیرپا نظریاتی بنیاد پر پاکستان کی تعمیر نو کریں۔
اٹھتر سال گزرے، صدا تو گونجتی ہے
مگر دلوں میں خالی بصیرتیں چھپی ہیں
’’لا الٰہ الا اللہ ‘‘کا پیغام ہے نظامِ ہستی
اسی میں قوم کی جان، اسی میں روشنی ہے



 

Syeda F Gilani
About the Author: Syeda F Gilani Read More Articles by Syeda F Gilani: 49 Articles with 79744 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.