تہذیبِ مغرب کی عبرت ناک کہانی
طارق محمود مرزا ۔ آسٹریلیا
لندن میں میر اپہلا دن تھا۔ شام کے وقت کھانے کی تلاش میں ہوٹل سے نکلا۔ اس سڑک پر انواع و اقسام کی دُکانیں، ٹریول ایجنسیاں، کرنسی تبدیل کرنے والے دفاتر اور درجنوں ریستوران تھے ۔ میں گھومتا گھماتا ایک عربی ریستوران کے سامنے پہنچا۔ اس پرحلال کا سائن موجود تھا۔ سوچا پاکستانی ریستوران ملے یا نہ ملے، رات بہت ہوگئی ،کیوں نہ آج عربی کھانے سے کا م چلایا جائے۔ کھانا اچھا تھا بس مرچ مسالے کم اور ٹماٹروں کی کھٹاس زیادہ تھی۔ کھانے کے بعد میں آدھے گھنٹے تک اس پر رونق سٹریٹ اور اردگرد کے علاقے میں گھومتا رہا۔ اس کے بعد ہوٹل کی جانب چل پڑا ۔ قدرے سنساں موڑ پر ایک انگریز لڑکی اچانک میرے سامنے آگئی۔ نیلی آنکھوں والی اس دراز قدلڑکی کی عمر بیس بائیس برس ہو گی۔ وہ سر جھکا ئے چل رہی تھی۔میں اس سے ٹکراتے ٹکراتے بچا۔ لڑکی نےسوری کہا تومیں نے جواب دیا "کوئی بات نہیں" پریشانی اس کے چہرے پر تحریر تھی۔چلنے لگا تو اس نے ایک سگریٹ طلب کی ۔میں نے سگریٹ نکال کر دی۔ کہنے لگی" شکریہ، تم بہت اچھے ہو۔ یہیں رہتے ہو؟" میں نے کہا " نہیں ، آسٹریلیا سے بغرض ِ سیاحت ہوں" کہنے لگی "آسٹریلیا بہت خوب صورت ملک ہے۔ کتنے عرصے کے لیے یہاں آئے ہو؟" میں نے کہا" چند دن لندن میں ٹھہر وں گا۔اس کے بعد یورپ کے چند اور شہروں میں جارہا ہوں۔ واپسی پر پھر لندن سے ہوتا ہوا آسٹریلیا جاؤں گا" لڑکی نے اپنی بڑی اور نیلی آنکھیں اشتیاق سے میرے چہرے پر گاڑ دیں اور بولی "بہت خوب ! میں یورپ میں پیدا ہوئی ہوں۔ پھر بھی میں نے بہت کم یورپ دیکھا ہے۔ تم خُوش قسمت ہو جو اتنی دور رہنے کے باوجود یورپ کی سیر کر رہے ہو۔ ویسے اگر جلدی نہ ہوتویہاں قریب کسی ہوٹل میں تھوڑی دیر کے لیے بیٹھیں؟" میں اس لڑکی کو پوری طرح سمجھ نہیں سکا تھا۔ وہ کوئی فراڈ بھی ہو سکتی تھی ۔لیکن سیاحت نام ہی اسی چیز کا ہے۔ اس میں ناگہانی حالات اور اجنبیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ میں نے حامی بھری تو وہ مجھے لے کر ایک ہوٹل کے بار پر پہنچ گئی ۔ کاؤنٹر پر جا کر اس نے پوچھا "کیا پیو گے؟" میں نے کہا "میں شراب نہیں پیتا ۔ کوک لے لوں گا" اس نے عجیب نظروں سے مجھے دیکھا ۔ اس نے اسکاچ لی اور میں نے کوک ۔میں نے مشروبات کی قیمت ادا کی اور ہم ایک ٹیبل آ بیٹھے ۔ میں اپنے سامنے بیٹھی اس لڑکی کی حرکات و سکنات کا بغور مشاہدہ کر رہا تھا۔اس نے اپنا نام روزی بتایا تھا ۔روزی کبھی تو ہنسنے لگتی۔ ا گلے ہی لمحے اس کی آنکھیں اشک آلود نظر آتیں، آواز گلوگیر ہو جاتی۔ کبھی وہ اپنے ہونٹ کاٹنے لگتی اور کبھی ناخنوں پر طبع آزمائی شروع کر دیتی۔ اس کی گفتگو بھی تسلسل سے عاری تھی۔ موسم کی بات ہوتی تو وہ مہنگائی کا رونا رونے لگتی۔ اچانک حکومت کو برا بھلا کہنے لگتی ۔میں اس کی اضطرابی کیفیت کا مسلسل مشاہدہ کر رہا تھا۔ اب مجھے کوئی شک نہیں رہا کہ وہ سخت پریشان تھی۔ یہ پریشانی اس کے ملیح چہرے پر روزِ روشن کی طرح عیاں تھی۔ میں نے اُسے کریدنے کی کوشش نہیں کی۔ ایک تو یہ میری فطرت نہیں ۔ میں دوسروں کے ذاتی معاملات کی ٹوہ میں نہیں رہتا۔ دوسرا یہ کہ انگریزوں کی اس عادت کا بھی مجھے بخوبی علم ہے کہ وہ براہ راست ذاتی نوعیت کے سوالات پسند نہیں کرتے۔ میں بھی اِدھراُدھر کی باتیں کر تارہا ۔اس دوران میں اس کا ڈرنک ختم ہوگیا۔ اصولاً اگلا ڈرنک اسے خریدنا چاہیے تھا۔لیکن میں دیکھ رہا تھا کہ وہ خالی جام ہاتھوں میں گھماتی رہی ،لیکن اُٹھنے کی کوشش نہیں کی ۔ میں جا کر اس کے لیے دوسرا ڈرنک لے آیا۔ اس نے شکریہ ادا کیا اور اس کے ساتھ ہی لاوا ابل پڑا۔ وہ اَشک جو بہت دیر سے اس کی خوبصورت آنکھوں میں جمع ہو رہے تھے ساون بھادوں کے مینھ کی طرح برسنے لگے۔اس نے سوری کہہ کر اپنا سر میز پر ٹکا دیا۔ اس کا جسم ہولے ہولے لرز رہا تھا۔ آنسو اس کے رخساروں پر سے پھسل کر میز کو گیلا کر رہے تھے ۔ میں خاموشی سے کوک کی چسکیاں لیتا رہا ۔ تقریباًدس منٹ تک یہی کیفیت رہی ۔جب میں نے محسوس کیا کہ اس کے اندر کا غُبار آنسوؤں سے دُھل گیا ہے تو اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔اس نے سر اُٹھایا اورہاتھوں سے اپنی آنکھیں صاف کیں ۔ اس کی نیلی آنکھوں میں سُرخی سی بھر گئی تھی۔ چہرہ بھی متورم نظر آرہا تھا ۔میں نے سگریٹ سلگا کر اسے پکڑائی۔ اس نے تشکّر بھری نظروں سے مجھے دیکھا اور بولی "سوری میں اپنے اُوپر قابو نہیں رکھ سکی" میں نے کہا "کوئی بات نہیں، کبھی کبھی ایسا ہو جاتا ہے" روزی بولی "تم بھی کہو گے کہ یہ کیسی لڑکی ہے۔ کبھی سگریٹ مانگتی ہے، مفت کی شراب پیتی ہے اور اچانک رونے لگتی ہے" میں نے کہا" آپ کے انگریز دانشور اور ڈرامہ نگار شیکسپیئر نے کہا تھا کہ زندگی ایک طویل دور انیے کا کھیل ہے۔ جہاں ہر روزنت نئے کرداروں سے واسطہ پڑتا ہے۔ میں اور تم بھی اسی ڈرامے کے کردار ہیں ۔اس میں عجیب بات تو کوئی نہیں" روزی کہنے لگی" تھوڑی دیر پہلے تک میں خود کو بالکل تنہا اور بے آسرا محسوس کررہی تھی، لیکن اب ایسے لگتا ہے کہ مجھے سہارا مل گیا ہے" میں نے سر اُٹھا کر چھت کی طرف دیکھا اور سوچا کہ یہ انگریز بھی کیسی قوم ہے۔ ایک طرف تو ان کی پلاننگ صدیوں پر محیط ہوتی ہے اور دوسری طرف چند منٹ پہلے ملنے والے کو سہارا سمجھنے لگتے ہیں ۔ روزی اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولی "وقت کتنی تیزی سے بدلتا ہے۔ یہ شہر جہاں میں پیدا ہوئی ،جہاں آج صُبح تک میرا اپنا گھر تھا، میرے والدین یہاں رہتے ہیں، آج اسی شہر میں میرے پاس سرچھپانے کی جگہ تک نہیں" میں نے کہا" اچانک ایسا کیا ہوگیا کہ تم گھر سے بے گھر ہو گئیں؟" وہ تھوڑی دیر رُکی اور پھر بتانا شروع کیا۔: " میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں۔ دوسرے والدین کی طرح میرے والدین نے بھی میری تعلیم و تربیت اور پرورش ناز و نعم سے کی۔ لیکن میں ان کی توقعات پر پورا نہ اُتر سکی۔ گرتے پڑتے ایچ ایس سی تو کر لی لیکن نہ آگے پڑھ سکی اور نہ کسی قسم کی پیشہ ورانہ تربیت حاصل کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مجھے عام سی جاب کرنا پڑی۔ پھر بھی میرا گزارا آسانی سے ہونے لگا۔ اصل مسئلہ اس وقت شروع ہوا ،جب میری ملاقات جے سے ہوئی۔ جے سے پہلے میرے کئی لڑکوں سے تعلقات رہے۔ لیکن ان تعلقات میں زیادہ سنجیدگی نہ تھی ۔ جے کے معاملے میں نہ صرف میں پوری طرح سنجیدہ تھی بلکہ اس کی دیوانی ہوگئی۔ حالانکہ جے کسی لحاظ سے اچھا شریکِ حیات نہیں تھا۔ وہ منشیات کا عادی تھا۔ کام دھندہ نہیں کرتا ۔ اس کی دوستیاں بھی اپنے جیسوں سے تھیں ۔ میرے والدین کو علم ہوا تو اُنھوں نے مجھے سمجھایا کہ ایسے شخص سے تعلقات بڑھانا غلط ہے۔ لیکن میں جے کی محبت میں اتنا آگے بڑھ چکی تھی کہ اپنے والدین کی ایک نہ سنی اور جے سے شادی کر لی۔ شادی کے بعد میں جے کے ساتھ رہنے لگی۔ جے ایک کمرے کے تنگ سے فلیٹ میں رہتا تھا ۔ جہاں جے کے دوسرے دوست بھی آتے تھے۔ ان میں لڑکیاں بھی شامل تھیں۔وہ گھنٹوں بیٹھے رہتے۔ مختلف قسم کے نشے کرتے اورفریج میں جو کچھ ہوتا ،چٹ کر جاتے۔ میں نے صُبح اُٹھ کر کام پر جانا ہوتا تھا۔ لیکن ان کی وجہ سے رات بھر سو نہ سکتی۔ صُبح یا تو لیٹ پہنچتی یا نیند کی حالت میں ہوتی۔نتیجہ یہ نکلا کہ چند ہفتوں کے بعد مجھے نوکری سے جواب مل گیا ۔ خُوش قسمتی سے تیسرے روز مجھے نئی ملازمت مل گئی۔ یہ جاب دوپہرکے بعد شروع ہوتی تھی اور رات دس بجے ختم ہوتی تھی۔ میں پھر کام پر جانے لگی۔ جو کچھ کماتی، جے اور اس کے دوست نشے میں اُڑا دیتے۔ گھر کے اخراجات کے علاوہ مکان کا کرایہ، بجلی، گیس اور فون کے بل بھی مجھے دینا پڑتے تھے۔ میں نے یہ توقع اور اُمید لے کر جے سے شادی کی تھی کہ اپنی محبت سے اُسے راہ راست پر لے آؤں گی۔ وہ توقع پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی تھی۔ میری اُمیدوں کا دیا بجھتا نظر آرہا تھا ۔ جے نے نہ سُدھرنا تھا نہ سُدھرا ۔ بلکہ اس کے مطالبات بڑھتے چلے گئے۔ گھر کے اخراجات اور بل کے علاوہ جے کے نشے کے لیے بھی رقم مجھے ہی فراہم کرنا پڑتی تھی،جو ظاہر ہے میری تنخواہ سے پوری نہیں ہوسکتی تھی۔ میں نے اپنے والدین سے مدد کے لیے کہا۔ شروع میں اُنھوں نے کچھ مدد کی بھی۔ اس کے ساتھ ہی وہ مجھے سمجھاتے بھی تھے کہ جے سے پیچھا چھڑالوں ۔ لیکن میں روشن سحر کی اُمید میں تاریک راتوں کا سفر کرتی رہی۔ نتیجے میں والدین مجھ سے ناراض ہوگئے۔ اُنھوں نے مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا۔ ان پریشانیوں کی وجہ سے میں توجہ سے اپنا کام بھی نہیں کرپاتی تھی۔ اس تیز رفتار شہر میں سست چال چلنے والے کو جلد ہی لوگ پاؤں تلے روند دیتے ہیں ۔میری کمپنی کو بھی بہتر شخص مل گیا۔ آج اُنھوں نے مجھے ملازمت سے الگ کر دیا۔ میں یہ خبر لے کر گھر پہنچی تو جے نے بجائے ہمدردی کے مجھے گھر سے نکال دیا۔ اسے نشے کے لیے رقم کی فوری ضرورت تھی جو اب میں اسے فراہم نہیں کر سکتی تھی۔ میں اس کی محبت میں غرق تھی اور اسے مجھ سے نہیں اپنے نشے سے پیار تھا،جو میری کمائی سے اسے حاصل ہوتا تھا۔ اب میرے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ والدین کو میں پہلے ہی ناراض کر چکی ہوں۔ جاب ختم ہو گئی ہے ۔میرے پاس کوئی گھر ہے نہ ٹھکانا۔ میں بالکل بے آسرا ہو گئی ہوں " روزی کی داستان ختم ہوئی تو میں سوچ رہا تھا کہ یہ اس معاشرے کی عبرت ناک کہانی ہے جسے آزاد،جمہوری اور مثالی کہا جاتا ہے۔ لیکن اندر جاکر دیکھیں تو وہاں انسان کتنا اکیلا ، کتنا دُکھی اور کتنا بےبس ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں آزادی ہے ۔ لیکن یہ آزادی کس کام کی جب آپ کےدُکھ بانٹنے والا کوئی نہ ہو۔ روزی نے میز پر رکھے سگریٹ کے پیکٹ سے سگریٹ نکال کر سلگائی۔ اس کی حُسین آنکھیں گہری سوچ میں ڈوبی تھیں۔ لیکن اب وہ پہلے کی طرح بے قرار نہیں تھی۔ اب قدرے بہتر نظر آرہی تھی۔ ایسے لگتا تھا کہ اس کے اندر کا غُبار نکل چکا تھا۔ اچانک وہ اُٹھ کھڑی ہوئی "طارق! تمہارا بہت شکریہ !تم نے مجھے سہارا دیا۔ اب میں چلتی ہوں" میں نے پوچھا " کہاں جاؤ گی؟" کہنے لگی "یہ تو مجھے خود بھی معلوم نہیں" میں نے کہا "میں کوئی مدد کر سکتا ہوں؟" میرے ذہن میں تھا کہ اس کے پاس سگریٹ اور ڈرنک کے پیسے نہیں ہیں ۔یقیناًاس کی جیب خالی ہوگی۔ تھوڑی بہت رقم سے اس کی کچھ مدد ہو سکتی تھی۔ لیکن روزی نے کچھ اورسمجھا اور بولی " تم اچھے شخص دکھائی دیتے ہو ۔اگر آج کی رات مجھے اپنے کمرے میں پناہ دے دو تو کل میں کوئی بندوبست کرلوں گی۔" میرا اس جانب دھیان نہیں تھا ۔ میں نے سنبھلتے ہوئے اسے بیٹھنے کے لیے کہا۔ وہ بیٹھ گئی تو میں نے کہا " دیکھو روزی مجھے غلط نہ سمجھنا! میں دل سےتمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں ۔ تم جانتی ہو میں اکیلا ہوں۔ ہمارا ایک کمرے میں رہنا مناسب نہیں ہے۔لیکن اس مسئلے کا کوئی اور حل نکالا جاسکتا ہے" روزی نے پھر مجھے انھی عجیب نظروں سے دیکھاجیسے اس نے میرے شراب پینے سے انکار پر دیکھا تھا۔ کہنے لگی "تم ٹھیک کہتے ہو۔ ہمارا ایک کمرے میں رہنا درست نہیں ہے ۔ خصوصاً اس صورت میں جب تم مجھے جانتے تک نہیں" میں نے کہا "روزی تم غلط سمجھ رہی ہو۔کسی کو جاننے کے لیے مجھے زیادہ وقت درکار نہیں ہوتا۔ مجھے تمہاری کہانی پر مکمل یقین ہے۔کمرے میں نہ ٹھہرانے کی وجہ یہ نہیں ہے۔ " روزی میری بات سمجھ کر بولی "مجھے معاف کر دینا۔ میں نے ہمیشہ مردوں کی ایک ہی نظر دیکھی ہے۔ آج پہلی دفعہ کسی مرد کی آنکھوں میں احترام نظر آیا۔ میں فوری طور پر تمہاری بات کو سمجھ نہ سکی۔ مجھے معاف کر دینا ۔" اس کے ساتھ ہی اس نے دوبارہ رونا شروع کر دیا۔ اس وقت رات کا ایک بج چکا تھا ۔میں تھکا ہوا تھا اور ہوٹل جا کر سونا چاہتا تھا لیکن روزی کو اس طرح فٹ پاتھ پر چھوڑ کر جانے پر میرا ضمیر مطمئن نہیں تھا۔ میں نے کہا "روزی رونے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا ۔زندگی میں ایسے اُتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔ انھیں ہمت سے برداشت کرنا پڑتا ہے اور حوصلے اور سمجھداری سے ہر مسئلے کو سلجھانا پڑتا ہے۔ تمہارے سلسلے میں دو تین حل ہیں۔ پہلا حل تو یہ ہے کہ تم پولیس سے مدد حاصل کرو ۔ ان کے توسط سے گورنمنٹ کے کسی ادارے میں وقتی پناہ حاصل کرو۔ دوسرا حل یہ ہے کہ میں کچھ رقم تمھیں دے سکتا ہوں۔ ایک دو دنوں کے لیے کہیں رہنے کا بندوبست کرلو۔ اس وقت تک کوئی نہ کئی راہ نکل آئے گی۔تیسرا اور سب سے مناسب حل یہ ہے کہ اپنے والدین سے رابطہ کرو۔ والدین آخروالدین ہوتے ہیں۔ وہ اپنی اولاد کو کبھی دُکھی اور بے بس نہیں دیکھ سکتے۔ انھیں تمہاری بے بسی کا علم ہوگا تو وہ ضرور تمہاری مدد کریں گے" "لیکن اُنھوں نے صاف کہا ہوا ہے کہ وہ آیندہ میری کوئی مدد نہیں کریں گے "روزی بولی میں نے کہا" اُنھوں نے یہ اس وقت کہا ہوگا جب تم جے کے سلسلے میں ان کی بات نہیں مان رہی تھیں۔ اب جبکہ جے سے تمہارا تعلق ختم ہو چکا ہے تو انھیں یقیناً اطمینان ہوگا اور وہ ضرور تمہاری مدد کریں گے ۔اگر وہ غصہ دکھائیں تو برداشت کرو۔ آخر ان کا تمہارے اُوپر حق ہے ۔ تم یہ سکہ پکڑواور ابھی فون کرو" روزی نے مجھے اُمید بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا "کیا وہ میری بات مان جائیں گے ؟" میں نے کہا "ضرور مانیں گے۔ والدین، والدین ہوتے ہیں۔ وہ دفتر کے باس نہیں ہوتے ۔ خونی رشتے اور پیار کے بندھن بہت مضبوط ہوتے ہیں" روزی نے کونے میں موجود پبلک فون سے والدین کو فون کیا۔ انھیں ساری کہانی سنائی۔ شروع میں اس کے ڈیڈ نے اُسے برا بھلا کہالیکن بعد میں نرم ہوتا چلا گیا۔ آخر روزی کے باپ نے پوچھا" تم اس وقت کہاں ہو؟" روزی نےہوٹل کا پتا سمجھایا تو اس کے باپ نے کہا" وہیں ٹھہرو !میں اور تمہاری ماں تمھیں لینے آرہے ہیں" میں پاس کھڑا ساری گفتگو سن رہا تھا ۔ فون بند کرکے روزی پلٹی اور میرے گلے لگ گئی " تمہارا شکریہ! میرے والدین نے مجھے معاف کر دیا ہے اور وہ مجھے لینے آرہے ہیں" میں نے اسے الگ کیا ۔ہم وہیں بیٹھ کر روزی کے والدین کا انتظار کرنے لگے۔ روزی کہنے لگی" میں اس ملک میں پیدا ہوئی ہوں۔ لیکن آج جب یہ مصیبت سر پر آپڑی تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھاکہ کہاں جاؤں ۔حالانکہ سرکاری اور رفاہی ادار وں کا مجھے بھی علم تھا ۔ میں والدین سے اس لیے رابطہ نہیں کر رہی تھی کہ وہ مجھے ہر گز پناہ نہیں دیں گے ۔ لیکن تم نے جس انداز میں مجھے حوصلہ دیا اور درست راستہ دکھایا اس سے لگتا ہے کہ تمھیں یہاں کے حالات اور اداروں سے بخوبی آگاہی ہے۔" میں نے کہا" میرے لیے نئی بات نہیں ہے۔آسٹریلیا میں بھی یہی کلچر ہے اور ایسے ہی ادارے ہیں۔ جہاں تک والدین پر یقین اور اعتماد کی بات ہے، یہ سوچ خالصتاًمشرقی ہے۔ ہمارے ہاں خونی رشتوں کی محبت اور اعتماد کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ یہ یقین مرتے دم تک ہمارے ساتھ رہتا ہے" روزی نے کہا " کاش میں بھی کسی ایسے ہی معاشرے میں پیدا ہوتی جہاں جے جیسے لوگ نہیں ہوتے اور کوئی روزی ان کے رحم و کرم پر نہیں ہوتی۔" اتنی دیر میں روزی کے ماں باپ پہنچ گئے۔ ماں تو فوراًروزی سے لپٹ گئی۔ باپ ایک طرف کھڑا انتظار کرتا رہا ۔روزی ماں سے الگ ہو کر باپ کی طرف بڑھی تو اس نے بھی گلے لگا لیا۔ باپ نے اس کے آنسو پونچھے اور چلنے کے لیے کہا۔ روزی نے والدین سے میرا تعارف کرا یا۔ دونوں نے ہاتھ ملایا اور میراشکریہ ادا کیا۔ روزی نے پوچھا "پھر کب ملو گے؟" میں نے کہا "ایک مسافر سے مل کر کیا کرو گی؟" روزی میرا ہاتھ تھام کربولی "کل تمھارے ہوٹل آؤں گی" تینوں گاڑی میں بیٹھے، الواداعی ہاتھ لہرا یا اور چل دیے ۔ میں بھی بھیگی اور خنک رات میں لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوٹل کی طرف چل پڑا ۔ ( طارق مرزا کے سفرنامے " خوشبو کا سفر " سے ماخوذ )
|