پیش لفظ
یہ ایک عام سی بات ہے کہ کسی بھی چیز کی قدروقیمت اُس کو کھو دینے کے بعد
ہوتی ہے بالکل ایسے ہی وقت کے گزرجانے کے بعد ہی ہم اس کی قدروقیمت کو
سمجھتے ہیں اس مضمون میں جس کا عنوان (وقت) ہے بہت سی ایسی باتیں قلم بند
ہیں یہ مضمون انسانوں کے ضابطہ حیات کو مدِنظر رکھتے ہوئے لکھا گیا ہے اس
کے ساتھ ساتھ چند اور بھی باتوں کو مدِنظر رکھا گیا ہے جو وقت کے ساتھ وجود
میں آتی ہیں اور وقت کے ساتھ تبدیل ہو تی ہیں مگراس کی تخلیق انسانی زندگی
پرمبنی ہے اس مضمون کا مرکزی خیال وقت کی نوعیت بیان کرتا ہے اس کا
مقصدقارئین کو وقت کی قدر و قیمت کے متعلق آگاہ کرنا ہے۔۔
دنیا میں وقت کو لوگ بہت سی چیزوں سے تشبیہ دیتے ہیں ۔جیسے کہ انگریزی زبان
میں وقت کے لیئے ایک جملہ استعمال کیا جاتا ہے (Time Is Money)یعنی وقت
پیسہ ہے اسی طرح ہر قوم ونسل کے لوگ اپنے اپنے نظریے سے وقت کی تعریف بیان
کرتے ہیں وقت ایک قید ہے اور ہر شے پر حاوی ہے بے شک کائنات کا خالق و مالک
اللّد ہے مگر دنیا کی ہر شے پر وقت کی تحویل ہے جو تا حیات رہتی ہے جس پر
خداوند عظیم کے سوا کسی کا اختیار نہیں۔
یہ دنیا ایک درس گاہ ہے حالات اس درس گاہ کی جماعتیں ہیں انسان اس درس گاہ
کا طالب علم اور وقت اُستاد ہے یہ بات ہر انسان کے علم میں ہے کہ وقت کسی
کا انتظار نہیں کرتا اور یہ مانا جاتا ہے کہ وقت کبھی یکساں نہیں رہتا آج
کے جدید دور میں دن کوچوبیس (24 )گھنٹوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس میں سے
بارہ (12)گھنٹوں کے دورانیہ پر آفتاب حکومت کرتا ہے یعنی دن کا اْجالا اور
باقی کے بارہ(12) گھنٹوں پر تا ریکی کا قبضہ ہوتا ہے جبکہ پرُ انے وقتوں
میں طلوع آفتا ب سے غروب آفتاب تک کو دن کہا جاتا تھا اوراندھیرے کو رات سے
تشبیہ دی جاتی تھی انسان کی زندگی میں سب سے اہم کردار وقت ادا کرتا ہے نہ
صرف انسانی زندگی میں بلکہ کائنات میں ہونے والے ہر فعل میں بھی وقت کا اہم
کردار ہوتا ہے ہم انسانی زندگی سے یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ وقت کوہماری
زندگی میں کیا وقار حاصل ہے۔
بچہ نو (9)مہینے تک ماں کی کوک میں رہتا ہے پھر اس دنیا ء فانی میں قدم
رکھتا ہے اور اپنی زندگی کے سفر کا آغاز کرتا ہے جیسا کہ یہ بات عام ہے کہ
انسان نے خود ہی اپنے درمیان امیری اور غریبی کا فرق پیدا کیا ہے اسی طرح
جب بچہ اپنی زندگی کا آغاز کر چکاہوتا ہے تو بچپن ہی سے اس کی فطرت ظاہر
ہونے لگتی ہے ہر والدین یہی چا ہتے ہیں کہ اُن کی اولاد ایک اچھے ماحول میں
کامیاب زندگی گزارے لیکن یہ سب باتیں اسکی پرورش پر انحصار کرتی ہیں چند
والدین اپنے بچوں کی پرورش بہت ہی بہترین طریقے سے کرتے ہیں جو کہ وقت کے
ساتھ ساتھ بچے کے لئے مثبت ثابت ہوتی ہے۔
اور کچھ والدین اپنے بچے کی پرورش آزادانہ انداز میں کرتے ہیں یعنی ہر چیز
کی آزادی اور دستیابی سے نوازتے ہیں مگر اس انداز سے بچہ اچھے اوربُرے میں
فرق کو پہچاننے سے قاصر رہتا ہے اور پھر ایسے لوگوں کو وقت کے ہاتھوں ٹھوکر
کھانا پڑتی ہے چند والدین تو اپنے بچے کی پرورش انتہائی سختی برتتے ہوئے
کرتے ہیں جس کابچے پر منفی اثر پڑتا ہے اور ایسے لوگوں کی زندگی میں وقت
اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اُن کو سنبھال لیتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ انسان کی تعلیم و تربیت کا دورشروع ہوتا ہے لہذا بچے کو
کسی تعلیمی ادارے میں داخل کر دیا جاتا ہے امیر والدین کے بچے معروف اور
نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں او ر چند غریب والدین کے بچے
نجی تعلیمی ادارے میں رو دھو کر تعلیم حاصل کرلیتے ہیں او ر کچھ غریب
والدین کے بچے سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں خیر یہ تو
دنیاوی اورسائینسی تعلیم کہلاتی ہے لیکن اس تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم
کا حصول بھی لازمی قرار دیا گیا ہے چنانچہ دینی تعلیم کو مدِنظررکھتے ہوئے
بچے کو مدرسہ یا کسی دینی درس گاہ میں داخل کر دیا جاتا ہے زندگی کے اس
دورِعمر میں بچے کی دنیاوی اور دینی تعلیمات کے حصول کا دورانیہ جاری رہتا
ہے آج کے جدید دور میں انسانی زندگی کا یہ معمول عام بن جاتا ہے کہ بچہ
زیادہ وقت دنیاوی تعلیم کے حصول میں گزارتا ہے اور دینی تعلم میں دنیاوی
تعلیم کی نسبت کم وقت گزارتا ہے اور بعض لوگوں کا یہ معمول تا حیات قائم و
دائم رہتا ہے۔
وقت اپنی رفتار پکڑ ے اپنا سفر جاری رکھتا ہے بچہ وقت کے ساتھ ساتھ قد،عمر
اور جسامت میں بڑھتا رہتا ہے لہذا انسان اب اپنے بنیادی تعلیم کے حصول کے
دور سے نکل چکا ہوتا ہے اور اپنی باقی کی تعلیم جاری رکھتا ہے اپنے آس پاس
کے ماحول سے بھی انسان بہت کچھ سیکھتا ہے مگرسب سے زیادہ سبق وقت سے سیکھتا
ہے جیسے کہ ہر جاندار اور بے جان شے پر وقت کی ہی تحویل ہے اور انسان اپنے
آس پاس کے ماحول سے کچھ یوں درس حاصل کرتا ہے جیسے کہ اردگرد کے جانوروں سے
اُن کے رہن سہن سے ،پرندوں سے، پانی کی سطح پر رینگنے والے جانداروں سے،
کھیت کھلیانوں سے حتی کہ پانی کے بہاؤ،آب وہوا کے طرز عمل، آفتاب کی روشنی
،رات کی خاموشی ،رات کی تاریکی میں ستاروں کی چمک اور چاند کے سفرسے درس
حیات حاصل کرتا ہے۔
پھر اس سلسلے کے بعد وہ وقت آجاتا ہے کہ جب انسان ایک حد تک خود پر انحصا ر
کرنے لگتا ہے مگر اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتالہذا یہ
وجہ کافی ہوتی ہے اپنے والدین پر انحصار کرنے کے لئے وقت خاموشی سے چیختے
ہوئے اپنی رفتار برقرار رکھتا ہے اورساتھ ہی ساتھ انسان کواُس کے موجودہ
حالات کے متعلق خبردارکرتے ہوئے اپنا کردار ادا کرتا ہے دوسری جانب ماں باپ
بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں ۔
جبکہ ماں باپ کے درجے کو بھی بلند مقام حاصل ہے لہذا وہ انسان کو معاشرے
میں رہنے کے قابل بناتے ہیں اور اُس کی ہر ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش
میں جُھٹے رہتے ہیں اور انسان کی ہر جائز اور نا جائز خواہشات میں فرق پیدا
کرتے ہوئے نا جائزخواہشات پر اُسے تنبیہ کرتے ہیں اور جائز خواہشات کو پورا
کئے دیتے ہیں مگر چند ماں باپ اپنے بچے کا دل نہ توڑتے ہوئے اُس کی نا
جائزخوائشات کو بھی سر آنکھوں پر سجا لیتے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ غلط
ثابت ہو تی ہیں اور زندگی کی یادوں پر منفی اثرات چھوڑ جاتی ہیں پھر ان
منفی اثرات کو مثبت اثرات میں تبدیل کرنے کے لیئے وقت کو سختی برتنی پڑتی
ہے جو کہ ٹھوکر کا باعث ثابت ہو سکتی ہے انسان تو چاہتا ہے کہ اُسکی
خوائشات پوری ہوں لیکن یہ بات ازل سے نا ممکن قرار پائی ہے کیونکہ انسان کی
زندگی ختم ہو جاتی ہے مگر اُس کی خواہشات پوری نہیں ہوتیں۔
اس بات پر جناب مرزا اسداللّد خان غالب شعر ارشاد فرماتے ہیں۔۔۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں مگر پھر بھی کم نکلے
لہذا اسی طرح وقت اور زندگی کی رزم جاری و ساری رہتی ہے اس رزم کے دورانیہ
میں انسان وقت کے طرح طرح کے روپ دیکھتا ہے چنانچہ وقت کے ساتھ ساتھ خاک
داں میں ذات یزداں کی ہر ایک تخلیق کردہ شے بھی بدلتی رہتی ہے مثلاََ موسم
بدلتے ہیں ایک وقت آتا ہے کہ موسم انتہائی گرم ہوتا ہے جبکہ وقت کی قید کے
رہتے ہی موسم آنچل لہراتے ہوئے بادِسرد جھلتا ہے اوروقت کے چلتے چلتے بادِ
سرد بادِ بہاری کی صورت اختیار کرکہ میں گھُل جاتی ہے اور اس کے کچھ وقت
بعد فضاء کو خزاں سے نبھا کرنا پڑتا ہے یہ عمل اسی طرح چلتا رہتا ہے ۔
اور آدم ذات وقت کے اس ہیر پھیر میں نظامِ قدرت کا دید کرتے اپنی زندگی آگے
بڑھاتی ہے وقت بھی اپنا سفر جاری رکھتا ہے اور پھر اب وقت ایسے موڑ پر
آجاتا ہے جہاں شور حریم ذات کے فضل وکرم سے انسان ایک آ ٓٓزاد اور خود
مختیار شخصیت کامالک بننے کی حیثیت رکھتا ہے۔
مگر یہ دنیا کا دستور ہے (80)سال کا بوڑھا انسان بھی اپنے والدین کے لئے
بچہ ہی کہلاتا ہے اور دنیا میں ہر چیز پر ایک ہی قانون لاگو ہوتا ہے یعنی
کہ جو چیز دنیا میں پیدا کی گئی ہے اُ س کا اختتام ہونا لازمی ہے اور اسی
طرح والدین ہمیشہ تو ساتھ نہیں رہ سکتے ۔
’’ جو کوئی زمین پر ہے فنا ہو جانے والا ہے‘‘
’’ اور آپ کے پرور دگار کی ذات با قی رہے گی جو بڑی شان اور عظمت والا ہے
‘‘ (القرآن)
لہذااس بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انسان کی ٓ ٓٓآزاد اور خود مختیار شخصیت
کا مالک بننے کی خوائش پوری ہو جاتی ہے چنانچہ انسان اپنی زندگی کے تمام
فیصلے اپنی مرضی کے مطابق کرتا ہے وقت بدلتا رہتا ہے اور وقت کے ساتھ حالات
بھی بدلتے رہتے ہیں اور زند گی کا سفر جاری رہتا ہے اب ایک ایسا وقت آ جاتا
ہے جس میں انسان کی دمہ داریاں بڑھنے کو ہو تی ہیں سب سے پہلی ذمہ داری تو
یہ کہ انسان کو ا پنے لئے رزق تلاش کرنا ہوتا ہے ازل سے ابنِ آدم پر یہ
قانون لاگو ہے ابنِ آدم اپنا رزق خود محنت کر کے تلاش کرتا ہے اور صدا ہی
انسان اس کام میں مشغول رہتا ہے البتہ انسان محض وسیلہ بنتا ہے ہمت و کُمک
ذاتِ یزداں سے ملتی ہے ۔
اب وقت آنے کو ہو تا ہے جب انسان کے نام کے ساتھ اُس کے ہمسفر کا نام منسوب
کیا جاتا ہے جسے شادی وبیا ہ سے تشبیہ دی گئی ہے لہذادنیا کی ریت کے مطابق
انسان کے لئے شریکِ حیات تلاش کرنے کی جدوجہد عمل میں لائی جاتی ہے بعض لوگ
اپنا ہمسفر چُننے کا حقدار خود کو سمجھتے ہیں یہ بات درست ہے مگر یہ فیصلہ
والدین پر چھوڑ دیا جائے توآنے والے وقت میں بہتر ثابت ہوتا ہے ۔
کیوں کہ ہر والدین اپنی اولاد کے لئے اچھا ہی سوچتے ہیں اور کبھی بھی
اولادکا بُرا نہیں چاہتے اس کے علاوہ اس کی قابلِ غور وجہ یہ بھی ہے بعض
اوقات اپنے اس فیصلے میں انسان کوتاہی کر جاتا ہے۔
ایک مسلسل جدوجہد کے بعد وہ وقت آہی پہنچتا ہے جب انسان کی زندگی اُس کے
ہمنواکی زندگی کے نام منسوب کر دی جاتی ہیدراصل یہ وہ وقت ہوتا ہے جس میں
انسان اکیلا نہیں رہتا یعنی وہ شادی کے بندھن میں بندھ جاتاہے اُس کی زندگی
میں ایک اور زندگی کا اضافہ ہو جاتا ہے اور ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں شادی
ایک پا کیزہ رشتہ ہے اور اس رشتے کو نبھانا اتنا ہی مُشکل ہے جتنا مُشکل
’’پانی سے پانی پر پانی لکھنا‘‘اور یہ ایک نئے سفر کی ابتداء ہو تی ہے اس
سفر کی ابتداء انتہائی خوشگوار محسوس ہو تی ہے اور بعض اوقات اس سفر میں
بہت سمجھوتا کرنا پڑتا ہے ،بہت سی قربانیاں دینی پڑتی ہیں ،اپنے ہمسفر کے
ہر دُکھ، درد ہر خوشی ،غمی ،بیماری ،تندرستی کے دور میں برابر کا شریک ہونا
لازمی قرار دیا گیا ہے دنیاوی لحاظ سے بھی اور شرعی لحاظ سے بھی۔
مفکرین انسان کی زندگی کو سمندر کی مثال بھی کہتے ہیں یعنی سمندر کی موجوں
کا اُتراؤ ، چڑھاؤ انسان کی زندگی میں غمی ،خوشی کی مانندہوتا ہے ’’اُتراؤ
سے مراد غمی اور چڑھا ؤ سے مراد خوشی ‘‘زندگی کے اس دور میں انسان وقت کے
طرح طرح کے روپ دیکھتا ہے اور زندگی کا سفر اپنے ہمسفر کا ہاتھ تھامے طے
کردہ معمول کے مطابق جاری رہتا ہے اس سفر میں وقت انسان کو عجیب عجیب موڑ
پر لا کھڑا کرتا ہے کبھی ایسے موڑ پر جہاں صرف آزمائش ہو تی ہے اور حالات
انسان کو نا جانے کیا کیا کرنے پر مجبور کردیتے ہیں جو نا چاہتے ہوئے بھی
کرنا پڑتا ہے ،اور کبھی ایسے موڑ پر جہاں خوشیوں کی ہی بہاریں ہوتی ہیں وقت
کے ساتھ ساتھ انسان کی عمر بھی گزرتی جاتی ہے اور انسان کی زندگی کی ذمہ
داریاں مزیدبڑھ جاتی ہیں اب وہ وقت آجاتا ہے جب خداوندکریم انسان کو
اولادسی نعمت سے نوازتا ہے یہ وہ نعمت ہوتی ہے جس کا طلب گار ہر شخص ہوتا
ہے اولاد اللّد کی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اس نعمت کوپا کر
انسان بڑا خوش ہوتا ہے بلکہ پورا گھرانہ خوشی سے جھوم اُٹھتا ہے ساتھ ہی یہ
کوشش کی جاتی ہے کہ ہر ممکن طریقے سے اولاد کی ضروریات کو پورا کیا جائے اس
بات کو مدِنظررکھتے ہوئے انسان کے کندھوں پر اب ننھے مہمان کی بھی ذمہ داری
اور فرائض عائد ہو جاتے ہیں جنہیں انسان ہنسی خوشی قبول کر لتیا ہے لہذا
ننھے مہمان کی پرورش کے لئے یک بار پھر سے وہ ہی عمل دوہرایا جاتا ہے جو
چند سال قبل اُس کے والدین نے اُس کی پرورش کے لئے کیا تھاچنانچہ امشتِ خاک
انسان کی زندگی میں ننھے مہمان کی پرورش کا دور چلتا ہے وقت کے ساتھ ساتھ
ننھامہمان قد ،عمر اور جسامت میں بڑتا رہتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب
اولاداپنے والدین کے ساتھ قندھے سے کندھا ملا کر چلنے کے قابل ہو چُکی ہو
تی ہے۔
بعض اولاد اپنے والدین کی نافرمان ہوتی ہے اور اس نافرمانی کی وجہ قابلِ
غور ہے’’انسان جو بیج بوتا ہے وہی فصل کاٹتا ہے‘‘یعنی انسان نے جو کچھ اپنے
والدین کے ساتھ کیا ہوتا ہے یہ اُس کے بیج بونے کے برابر ہے، پھر ایسا وقت
آتا ہے جب اُس انسان کی اولاد وہی کرتی ہے یہ اُس بیج کی فصل ہوتی ہے جو
اولاد کی صورت میں ملتی ہے پھر انسان کو اپنا وقت یاد آنے لگتا ہے جو کہ
گزرچُکا ہوتا ہے۔
دانشمند فرماتے ہیں کہ (وقت گزر جاتا ہے یادیں رہ جاتی ہیں)اور وقت کی قدر
بھی تب ہی ہوتی ہے جب وقت گزر چُکا ہوتا ہے ۔
’’اب کیا پچتائے حوت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت‘‘
زندگی کے اس دورِ عمر میں اولاد کی نا فرمانی کے علاوہ انسان کو کچھ بڑی
ٹھو کریں اور بھی لگتی ہیں جن کی وجہ گزرے ہوئے وقت یعنی ماضی میں کی گئی
چھوٹی چھوٹی بھول چُوک یا غلطیاں ہوتی ہیں کیونکہ ٹھوکر انسان کو پہاڑوں سے
نہیں پتھروں سے لگتی ہے مگر اب وہ وقت نہیں رہتا کہ اُن غلطیوں کو سُدھارا
جا سکے انسان اور وقت کی جنگ میں جیت کا جام وقت نوش کر چُکا ہوتا ہے اور
اپنا سفرجاری رکھتا ہے ۔
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے
انسان کی زندگی معمول کے مطابق چلتی رہتی ہے اور جس انسان نے وقت کی قدر کی
ہوتی ہے وہ وقت کی مار سے محفوظ رہتا ہے پھر ایک طویل مدت کے بعد وہ وقت آ
ہی جاتا ہے جب انسان کی ذمہ داریاں کسی حد تک پوری ہو چُکی ہو تی ہیں اور
انسان اپنے پروردگار کے بُلاوے کا انتظار کرنے لگتا ہے بعض اوقات یہ انتظار
بہت طویل ہو جاتا ہے اور بعض اوقات یہ ہی انتظار کچھ مختصر ہوتا ہے۔
آخر کار یہ انتظار ختم ہو ہی جاتا ہے اور وہ وقت آ پہنچتا ہے جب بارگاہ
الہی سے بلاوا آتے ہی موت سے ہمکنار ہو جاتا ہے خاک پُر اسراس کے سپُرد کر
دیا جاتا ہے جو کہ انسان کی آخری قیام گاہ ہے۔
مُشتِ خاک ،سُپردِخاک ہو گئی ہے
اور خاک داں کی ہر شے پر وقت کی قید ہے
نہ تھا کسی کا دوست ،نہ ہے کسی کا دوست
آ ٓئین جواں گیری ہے اسکندری، زندیق ہے وقت
سلطان ہے وقت تب وتاب ،وخرابہ کا، کسی کا محتاج نہیں
گر چہ زندیق ہے وقت مگر ذاتِ یزداں سے منکر نہیں |