مشہور قول ہے کہ دانشمندی اس میں مضمر ہے کہ ’حالات امن
میں جنگ کی تیاری کی جائے ‘یہ کہ ’کل کی فکر آج سے ‘مگر ہمارے ہاں چونکہ
الٹی گنگا بہتی ہے اس لئے معاملہ الگ ہے ،اب یہی دیکھیں کہ تعلیم جو کہ کسی
بھی معاشرے کی ترقی و کامرانی کی اتسلیم شدہ کنجی ہے ہتھیارہے اور یہ بھی
طے ہے کہ موثر تعلیم کے حصول کے لئے لازمی ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت اوائل
عمری سے کی جائے،مگر ہماری بدقسمتی کہ ہم سب سے کم غور فکر تعلیم کی ترویح
اور بہتری کے لئے کرتے ہیں ماسوائے چند جو تعلیم کی بہتری کو زندگی کا مقصد
بنا کراپنے حصے کا دیا جلانے میں مصروف ہیں اور ایسے ہی افراد یا جماعت کے
باعث ہمارا تعلیمی ڈھانچہ قدرے سانس لیتا نظر آتا ہے وگرنہ عام
عوام،والدین،سماجی ادارے،حکومتی ادارے اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام ہیں
جس کے باعث مجموعی طور پر دنیا بھر میں ہمارے تعلیمی ادارے دن بدن اپنی
اہمیت کھوتے جارہے ہیں،جبکہ ماضی بعید میں اسی زمین کی کوکھ سے بے شمار
ہیرے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواچکے ہیں،اس حوالے سے اگر پوچھا جائے کہ
موجودہ دور میں تعلیمی تباہی کا اصل ذمہ دار کون ہے تو عرض ہے کہ ہم سب ،فقط
حکومت ( واضح رہے کہ حکومت سے مراد صرف سیاسی حکمراں جماعت یا گروہ نہیں )یاچند
منتخب عوامی نمائندوں پر سارا بوجھ ڈال کر یا بری الذمہ ہونے کی کوشش
ریگستان میں شتر مرغ جیسی ہوگی،حکیم سعید نے ایک موقع پر کہا تھا کہ تعلیم
کی مثال تین پائے والی کرسی کی مانند ہے اور وہ تین پائے والدین،اساتذہ اور
طالب علم ہیں،جس طرح تین پائے والی کرسی کی خاصیت ہے کہ تینوں میں سے کوئی
ایک پایا کمزور پڑجائے تو وہ کرسی ناکارہ ہوجاتی ہے،نہ اس پر بیٹھنے والا
محفوظ ہوتا ہے اور نہ اس کے اردگرد والے بلکہ وہ کرسی خود اپنی اصل ہیت
قائم رکھنے میں ناکام رہتی ہے،حکیم سعید نے وضاحت فرماتے ہوئے فرمایا تھا
کہ تعلیم کو اگرطالب علم ،اس سے مستفید ہونے والے یا اس سے قریب رہنے والوں
کے لئے سود مند بنانا ہے تو تینوں کرداروں کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی
ہوگی،کیونکہ جونہی تینون میں سے ایک بھی کمزور پڑے گا تعلیم اپنا مقصد کھو
دے گی،پھر طالب علم کا بھی دھڑن تختہ ہوگا،اس کے گرد موجود افراد کے لئے
بھی خطرے کی گھنٹی بج جائے گی اور تعلیم بھی موجودہ دور کی طرح اپنی حیثیت
کھو دے گی۔آج اگر ہم اپنے معاشرے میں نظر ڈالیں تو بخوبی محسوس کرینگے کہ
ہمارا پورا تعلیمی ڈھانچہ تباہ ہوچکا ہے،درسگاہوں کی درجہ بندی ہوچکی ہے
غریب کے بچے کے لئے علیحدہ ادارہ،سفید پوش کے لئے علیحدہ اور اسی طرح امرء
کے بچوں کے لئے علیحدہ اورجداگانہ طرز تعلیم،سفید پوش اور امراء کے بچوں کی
تعلیم کے لئے مختص ادارے بہت حد تک اپنی ذمہ داری نبھاتے نظر آتے ہیں مگر
یہاں بھی حکیم سعید کی دور بین نگاہ سے غور کریں تو واضح ہوگا کہ ایسے
اداروں میں زیر تعلیم بچے جن کے والدین اپنے بچوں کو اعلی یا بہتر تعلیمی
ادارے میں داخل کرنے کے بعد بری الذمہ ہوجاتے ہیں وہ بچے تمام تر سہولیات
کے باوجود موثر اور بامقصد تعلیم سے محروم رہتے ہیں جبکہ اس کے بالمقابل وہ
تعلیمی ادارے جو وسائل سے محروم طبقے کے بچوں کے لئے مختص ہیں جہاں جہاں
اساتذہ تعلیم کو ذمہ داری سمجھ کر نبھاتے ہیں،والدین اپنے بچوں پر بھر پور
توجہ دیتے ہیں اور بچے ان کے زیر اثر ہوتے ہیں محدود سہولیات کے باوجود
تعلیم کوبلند مقصد کے ساتھ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
یہاں ان باتوں کے ذکرکا مقصد یہ ہے کہ وہ کون سی اجتماعی ذمہ داری ہے جس سے
کنی کترا کرموسمی دانشور، جعلی خیر خواہ اور خود نقل کے پروردہ ہرسال
امتحان سے قبل توپ و تلوار لئے خود نمائی اور پوائنٹ اسکورنگ کے غرض سے
میدان میں دنداتے نظر آتے ہیں جبکہ ان میں سے بیشتر اپنی ذمہ داری نبھانے
میں ناکام رہے ہیں ،خواہ والدین جو اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہے
ہیں،اگر استاد ہیں تو اندرون خانہ موجودہ تعلیمی سسٹم کے ناخداؤں سے رات کی
تاریکی میں یا دن کے اجالے میں اپنے گماشوں کے ذریعے لفافوں کا تبادلہ کرتے
رہے ہیں،اگر قوم کے خیر خواہی کے دعویدار ہیں اوران دنوں اختیارات کی دوڑ
میں شامل نہیں ہیں جبکہ ماضی میں حکومتی پھل کے مزے اڑاتے رہے ان دنوں پیش
پیش ہیں اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے نقل مافیا کیخلاف صرف
زبان سے جھاگ اگلتے نظر آتے ہیں ،کوئی ان سے پوچھے کہ برسوں پرانا سسٹم کی
بوسیدگی اورتعلیمی اداروں کے ماتھے پر سجی مکڑی کے جالے کو صاف کئے
بغیر،روایاتی طرز امتحان جس میں تعلیمی قابلیت کو جانچنے کا ترازو فقط طالب
علم کی الٹی کرنے کی صلاحیت ہو اس غیر مناسب پیمانے کو نکال باہر کرکے دنیا
بھر میں رائج جدید طرزامتحان کو رائج کئے بغیر ،اساتذہ،والدین اور طالب علم
کی از سر نو ذہن سازی کئے بغیر ،درسگاہوں کی درجہ بندی کو ختم کئے بغیر ،سال
بھر بچوں پر نظر رکھے بغیر ان بچوں کو معیاری اور بروقت تعلیم کی سہولیات
فراہم کئے بغیر ،بچوں میں تعلیم کی افادیت اجاگر کئے بغیر صرف نقل روکنے کا
نعرہ لگا کر مطلوبہ نتائج کا حصول ممکن ہے؟واضح رہے کہ ان دنون پوائنٹ
اسکورنگ کرنے والوں میں سے بیشترماضی میں خود اس مکروہ و قبیح فعل کا حصہ
رہے ہیں اویقیناًکل بھی رہینگے۔
یہ تو رہی بات ان عناصر کے حوالے سے جو اندر سے ہاتھی ہیں یعنی دکھانے کے
دانت اور کھانے کے دانت اور۔اب ہم چلتے ہیں مستقبل کی جانب ،اسمیں قطعی دو
رائے نہیں کہ عصر حاضر میں موثر ،جدید تقاضوں سے ہم آہنگ،بلند
مقاصداوردشمنان دین و ملک وملت پر سبقت کے لئے سب سے اہم اور طاقتور ذریعہ
قوم کے نونہالوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا یعنی حالات امن میں جنگ
کی تیاری یا پھر یوں کہیں کہ کل کی فکر آج سے تو اس حوالے سے سب سے عظیم
مقاصد کا حصول فقط ہوا میں چاند ماری سے ممکن نہیں،والدین کو اپنی ذمہ داری
پوری کرنی ہوگی،اساتذہ کوتعلیم کے فروغ کو اپنافرض سمجھ کر ادا کرنا
ہوگا،طلبہ و طالبات کو اساتذہ اوروالدین کے خوابوں کی تعبیر کے لئے غیر اہم
خواہشوں کا گلا دبانا ہوگامگر اس سے قبل معاشرے کے دیگر کرداروں کواگر وہ
سنجیدہ ہیں یا پھر ماضی کو فراموش کرچکے ہیں تواپنے قول و فعل سے ثابت کرنا
ہوگا کہ وہ تعلیمی انقلاب کے خواہ ہیں ا ور جب ہم یہ سب کچھ کرنے میں
کامیاب ہوجائینگے تو پھر بچے تعلیم کو اس کی حقیقی روح کے مطابق حاصل کرنے
میں کامیاب ہوں گے،حاکم وقت اپنے رویئے میں تبدیلی لائے گا ،نقل مافیا
خوفناک خواب بن جائے گا،نہ ڈنڈا اٹھانے کی ضرورت پیش آئے گی اور نہ توپ و
تفنگ کی۔
آخری پیراگراف کی ضرورت اس لئے پیش ٓئی کہ جب ہم امتحان سے قبل بیشتربچوں
کو ناکام ہوتا دیکھتے ہیں یعنی نقل کی جانب دوڑ لگی نظر آتی ہے جس میں غیر
ذمہ دار تعلیمی ادارہ ،سبجیکٹ ٹیچر اور سال بھر اپنے بچوں پر نظر کرم
فرمانے سے دور رہنے والے والدین و متعلقین بھی شامل ہوتے ہیں اور دوسری
جانب موسمی بٹیروں کی شورو شراپہ تو دل خون کے آنسو روتا ہے،اگر ہم مندجہ
بالا نقائص کو درست کرلیں ،سال بھر جدوجہد کرلیں اور حاکم وقت کو ادھورا
طرز تعلیم کے خاتمے کے لئے مجبور کردیں تو پھربعید نہیں کہ یہ دوڑ دھوپ اور
آہ و فغاں کی ضرورت پیش آئے۔ |