ضلعی ایلیمنٹری ڈسٹرکٹ بورڈز کے چیئرمین سیکرٹری ارکان
سمیت کرسیوں پر اپنی تعیناتیوں پر حاضر نہیں یا پیشہ وارانہ تدریس فرائض
میں ناکام اثر و رسوخ ‘ سفارش ‘ بڑے ناموں لاحقوں والے بٹھا دیئے گئے ایکٹ
ریگولیشن اینڈ پروموشن 2007 کے تحت قومی نجی مقامی بشمول سرکاری ادارے
دائرہ اختیار میں دیئے گئے مگر صرف سرکاری ادارے انکی نمبرداری باامر
مجبوری تسلیم کرتے ہیں ‘ قومی استثنیٰ ہو گئے پرائیویٹ مقامی بعض مانتے ہیں
اور بعض نہیں مانتے ہیں ‘ پھر یہ بورڈ کی امتحانی ڈیٹ شیٹ سامنے رکھ کر
پہلے ہی امتحان کراکر نتائج جاری کر کے داخلے شروع کر دیتے ہیں اور سرکاری
سکولز کے امتحان ہی نہیں ہوتے تو داخلے بھی نہیں ہوتے اور لوگ بچوں کو
پرائیویٹ سکولز میں داخل کراچکے ہوتے ہیں جن میں سرکاری سکولز میں کمزور یا
فیل ہوئے بچوں کو بغیر ٹیسٹ سرٹیفکیٹ رکھ لیا جاتا ہے کیوں کہ سرکاری سکولز
میں نتائج کی کمزوری پر ٹیچرز کی معطلی ‘ ترقی نہ ہونے کی پابندی کا توڑ
Detain ٹیسٹ کے نام پر پہلے ہی کمزور بچوں کو امتحان کے مرحلے سے آؤٹ کر
دیا جاتا ہے تاکہ بورڈ کے امتحان میں ان کے فیل ہونے سے معطلی ہو نہ ترقی
رُکے ‘ یہ بھی دلچسپ حقیقت ہے ان بورڈز کے تحت امتحان لینے والے ڈیوٹی پر
مامور سکولز کے اساتذہ ہی ہوتے ہیں جن کی اپنی اصل جائے تعیناتی کے بجائے
اس اضافی ڈیوٹی اور پھر اس وقت میں میرپور تعلیمی بورڈ بھی میٹرک انٹرمیڈیٹ
کے امتحان لے رہا ہوتا ہے جن کے مامور کردہ امتحانی عملہ کے ارکان بھی
سکولز ٹیچرز ہوتے ہیں جن کا نقصان ان کی اپنی تدریس ڈیوٹی والے اداروں کے
طلبہ کو بطور تعلیمی حرج ہوتا ہے مگر ہوتا رہے ان بورڈز کا حال بھی ایک
نہیں چار چار مختلف ناموں پر فیسیں وصول کرنا ہے امتحانی پرچہ جات ہوں یا
نتائج کی ٹیسٹ ہو ‘ داخلے ہوں یا بعد کے مراحل ہوں آج کے دور میں یہ اچھے
سے اچھے کاغذ پر اکٹھے شائع کرانے پر زیادہ سے زیادہ فی ایک روپے قیمت بنتی
ہے مگر ان کے ناموں پر دو چار پانچ سو ہزار تک وصول کر لیے جاتے ہیں ایک
ضلع میں امتحان دینے والے طلبہ دو ہزار جبکہ دوسرے میں دس ہزار ہیں مگر
تمام اضلاع کے بورڈز کا ڈھانچہ آفیسرز ملازمین تعداد مراعات اخراجات ایک
جیسی ہیں یہ سب کچھ کر کے ان کی بچت 2013 میں 35 کروڑ تھی آج دوگنی ہو گئی
مگر آج تک آڈٹ ہوا ہے نہ جواب دہی ہوئی ہے ‘ کمال یہ ہے ایکٹ کے تحت رولز
آف بزنس بھی آج تک نہیں بنائے گئے ہیں تاہم انکم ٹیکس والوں کی طرح
پرائیویٹ اداروں کی رجسٹریشن و تجدیدکی شرائط ایسی رکھ دی گئی ہیں کہ کوئی
ٹیکس دینا بھی چاہے تو نہ دے بس جو دب گیا وہ وصولی کرا کے اپنا سکول صرف
کما ئی کاذریعہ بنانے کی دلدل میں دھنستا چلا جائے ایسے حالات نے تعلیم کے
مقاصد تو پورے نہیں کیے البتہ پرائیویٹ سیکٹر کو بھی زوال پر مجبور کر دیا
ہے یہ کم و بیش چار ہزار سکولز بلاواسطہ بلواسطہ روزگار سے منسلک پچاس ہزار
افراد خصوصاً 6لاکھ طلبہ کے ذریعہ تعلیم سے منسلک نظام ہے 26 ہزار نادار
طلبہ کو بھی مفت تعلیم دیتے ہیں ان کے برعکس ضلعی بورڈز کے نظام کے بعد
سرکاری سکولز اول ہو یا پنجم ششم ہفتم کلاسز میں بچوں کی داخلے کی شرح
اضافے کے بجائے کم ہو گئی ہے پہلی ‘ پانچویں برائے نام اور آٹھویں میں اس
سے بدتر صورت ہے (جاری )
|